Chote Bache Ke Muh Se Nikalne Wali raal Pak Hai Ya Napak

چھوٹے بچے کے منہ سے نکلنے والی رال پاک ہے یا ناپاک ؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12563

تاریخ اجراء:        29ربیع الآخر1444 ھ/25نومبر2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بچے کی رال اگر گرتی رہتی ہو اور وہ کپڑوں پر لگ جائے، تو کیا اس صورت میں کپڑے ناپاک ہو جائیں گے؟؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   انسانی رال ناپاک نہیں کہ یہ تھوک سے بنتی ہے اور انسانی تھوک پاک ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے۔

   جیسا کہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق سوتے آدمی کے مُنہ سے جو رال بہے اگرچہ پیٹ سے آئے اگرچہ بدبودار ہو، پاک ہے۔اس رال کے کپڑوں پر لگنے سے وہ کپڑے پاک ہی رہیں گے۔

   انسان کا تھوک پاک ہے۔ جیسا کہ البحر الرائق، تبیین الحقائق، فتاوٰی شامی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے: والنظم للاول“(وسؤر الآدمي والفرس وما يؤكل لحمه طاهر ) أما الآدمي ؛ فلأن لعابه متولد من لحم طاهر ، وإنما لا يؤكل لكرامته ولا فرق بين الجنب والطاهر والحائض والنفساء والصغير والكبير والمسلم والكافر والذكر والأنثى یعنی آدمی، گھوڑے اور وہ جانور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے، ان سب کا جھوٹا پاک ہے۔ بہر حال آدمی (کا جھوٹا پاک ہونے کی وجہ یہ ہے کہ) اس کا لعاب پاک گوشت سے بنتا ہے البتہ اس کے گوشت کو انسانی کرامت کی وجہ سے کھانا ، جائز نہیں، اب خواہ وہ تھوک جنبی کا ہو یا پاک شخص کا ہو،  حیض و نفاس والی عورت کا ہو چھوٹے  بچے کا  ہو یا بڑے آدمی کا  ہو مسلمان کا ہو یا کافر کا  ہو مرد کا  ہو یاعورت کا ہو (بہر صورت انسانی تھوک پاک ہے) ۔(البحر الرائق، کتاب الطھارۃ،  ج 01،ص 222، مطبوعہ کوئٹہ)

   سوتے میں جو رال بہے وہ پاک ہے۔ جیسا کہ حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق، البحر الرائق، مجمع الانہر، فتاوٰی عالمگیری، فتاوٰی شامی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے: والنظم للاول“ قال قاضي خان في فتاويه الماء الذي يسيل من فم النائم طاهر هو الصحيح؛ لأنه متولد من البلغم وقال الولوالجي ماء فم النائم إذا أصاب الثوب فهو طاهر سواء كان من البلغم أو منبعثا من الجوف لأن الغالب في الماء الذي يخرج من الفم حالة النوم متولد من البلغم فيكون طاهرا كيفما كان عند أبي حنيفة ومحمد وعليه الفتوى اهـ۔یعنی علامہ قاضی خان علیہ الرحمہ نے اپنے فتاوٰی میں سوتے ہوئے انسان کے منہ سے نکلنے والے پانی کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ پاک ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ وہ بلغم سے بنتا ہے۔ علامہ ولوالجی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ سونے والے شخص کے منہ سے نکلنے والا  پانی جب کپڑوں کو لگ جائے تو وہ کپڑے پاک ہی رہیں گے خواہ  وہ  پانی بلغم سے بنے یا پھر پیٹ سے آئے کیونکہ نیند کی حالت میں آنے والا پانی غالب طور پر بلغم سے بنتا ہے لہذا یہ پانی طرفین علیہما الرحمہ کے نزدیک بہر صورت پاک ہے اور اسی پر فتوی ہے ۔ (حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق، باب الانجاس،  ج 01، ص 74، مطبوعہ ملتان)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے: ”ہمارے علما ء تصریح فرما چکے ہیں کہ سوتے آدمی کے مُنہ سے جو رال بہے اگرچہ پیٹ سے آئے اگرچہ بدبودار ہو پاک ہے۔    (فتاوٰی رضویہ،ج01(الف)،ص350، رضا فاؤنڈیشن،  لاہور)

   بہارِ شریعت میں ہے:” سوتے میں رال جو مونھ سے گرے ،اگرچہ پیٹ سے آئے، اگرچہ بدبودار ہو، پاک ہے۔

(بہارشریعت،ج 01 ، صفحہ 744، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم