مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان
عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-2251
تاریخ اجراء: 24جمادی الاول1445 ھ/09دسمبر2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگررطوبتیں صرف چمکتی ہیں ،اتنی
مقدار میں نہیں ہوتیں
کہ تنہاخودبہہ سکیں تووہ نہ ناپاک ہیں اورنہ ان کی وجہ
سے وضوٹوٹے ،توصابن لگانے یاہاتھ لگانے سے صرف اتنی مقدارمیں وہ
نکلیں توحرج نہیں ۔
اوراگربہنے
کی مقداربرابرنکلتی ہیں تو اگرایساہوکہ ہاتھ وغیرہ
لگانے سے رطوبتیں نکلیں گی اوربغیرہاتھ وغیرہ لگائے
صرف پانی بہانے سے نہیں نکلیں گی توایسی صورت
میں لازم ہے کہ ہاتھ وغیرہ
لگائے بغیرپانی بہائے ۔ اسی طرح اگرصابن لگانے سے نکلیں گی
اوربغیرصابن کے نہیں
نکلیں گی تولازم ہے کہ بغیرصابن کے دھوئے ۔
اوراگربالفرض
ایسی صورت ہوکہ فقط پانی بہانے سے بھی خون وغیرہ
رطوبتیں نکلیں گی اوروہ تنہاخودبہنے کی مقدار برابرہوں
گی توپھر چہرہ پر پانی نہ بہائے بلکہ
ممکن ہوتواس پرصرف مسح کرلے اوراگراس پرمسح بھی نقصان کرے تو پھرپٹی
وغیرہ کوئی چیزاس جگہ لگاکرمسح کرسکتا ہو تو اسے لگاکرمسح کرے
ورنہ بغیرمسح کے اسے چھوڑدے۔ اور کہنیوں سمیت ہاتھ اورٹخنوں
سمیت پاؤں دھوئے اورسرکامسح کرے ۔
کیونکہ
اس صورت میں اکثراعضا زخمی
نہیں ہیں ،فقط ایک عضوزخمی ہے ،اورایسی صورت
میں یہی حکم ہوتاہے کہ جوصحیح ہیں ،ان کودھوئے
اورجس پرزخم ہے ،اگرممکن ہوتواس پرورنہ پٹی پرمسح کرلے اوراگریہ
بھی ممکن نہ ہوتو پھر بغیر مسح کے چھوڑدے ۔
مجمع الانہر میں ہے” (ولا يجمع بين الوضوء والتيمم۔۔۔فإن كان أكثر الأعضاء)
أي أكثر أعضاء الوضوء (جريحا) في الحدث الأصغر أو أكثر جميع بدنه في الحدث الأكبر
(يتيمم) ولا يجوز أن يغسل الصحيح ويمسح الجريح(وإلا) أي وإن لم يكن أكثر الأعضاء
جريحا بل مساويا أو أكثر الأعضاء صحيحا (غسل الصحيح ومسح على الجريح) إن لم يضره
وإلا فعلى الخرقة، ولا يجوز التيمم؛ لأن للأكثر حكم الكل“ترجمہ:وضو اور تیمم کو ایک ساتھ جمع نہ کرے
،اگر حدث اصغر میں اکثر اعضائے وضو اور حدث اکبر میں پورے بدن کا اکثر
حصہ زخمی ہو تو تیمم کرے اور
اس صورت میں صحیح اعضاء کو دھونا اور زخمی اعضاء پر مسح کرنا
جائز نہیں ،اور اگر اکثر اعضاء زخمی نہ ہو ں بلکہ برابر ہوں یا
اکثر اعضاء صحیح ہوں تو صحیح اعضاء کو دھوئے اور زخمی اعضاء پر
مسح کرے جبکہ مسح ضرر نہ دے وگرنہ پٹی پر مسح کرلے اور اس صورت میں
تیمم کرنا جائز نہیں کیونکہ اکثر کا حکم،کل کے حکم کی طرح
ہوتا ہے۔(مجمع الانہر،کتاب الطھارۃ،باب
التیمم،ج 1،ص 44،دار إحياء التراث العربي)
در مختار
میں ہے” والحاصل لزوم غسل المحل ولو بماء حار فإن ضر مسحه فإن ضر مسحها فإن ضر سقط أصلا“ترجمہ: حاصل یہ ہے کہ زخم کی جگہ کو دھونا
لازم ہے اگرچہ گرم پانی سے دھوئے ، اگر دھونے سے ضرر ہوتو مسح کرے ، اگر
جائے زخم پر مسح سے بھی ضرر ہو تو پٹی پر کرے ، اگر اس سے بھی ضرر ہوتو معافی
ہے ۔(در مختار مع رد المحتار،کتاب الطھارۃ،ج
1،ص 280،دار الفکر،بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
وضو میں عورتیں سرکا مسح کس طرح کریں؟
ڈبلیو سی کا رخ شمال کی طرف رکھنا کیسا؟
مخصوص ایام میں معلمہ قرآن کی تعلیم کیسے دے؟
کیا ایام مخصوصہ میں ایک کلمے کی جگہ دوکلمات پڑھائے جاسکتے ہیں؟
جو پانی حالت حمل میں پستان سے نکلے پاک ہے یا ناپاک؟
خون کی نمی کپڑوں پر لگ جاتی ہے نماز جائز ہےیانہیں؟
شرمگاہ پر نجاست کی تری ظاہر ہونےسے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟
لال بیگ پانی میں مرجائے تو پانی پا ک ہے یا ناپاک؟