Cheel Kawwa Haram Parinde Hain Tu In Ka Jhoota Makruh Kyun Hai ?

چیل کوے حرام پرندے ہیں تو ان کا جوٹھا مکروہ کیوں ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13192

تاریخ اجراء:   09 جمادی الثانی 1445 ھ/23 دسمبر 2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے پڑھا تھا کہ چیل، کوے کا جوٹھا مکروہ ہے،لیکن چیل اور کوا تو حرام جانوروں میں شامل ہے،پھر ان کا جوٹھا تو حرام ہونا چاہئے تھا ، مکروہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   چیل، باز،شکرا ، کوے کا جوٹھا مکروہِ تنزیہی  ہے،  نجس و ناپاک نہیں۔  مکروہ تنزیہی بھی اس وجہ سے کہ یہ پرندے عادتاً مردار کھاتے ہیں اور نجاستوں میں منہ مارتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی چونچ کے پاک ہونے میں شبہ ہوتا ہے ، اس شبہ کی وجہ سےان کا جوٹھا مکروہ تنزیہی قرار دیا ہے،اسی کے پیش نظرفقہاء فرماتے ہیں کہ  اگر ان کی چونچ کے پاک ہونے کا یقین ہویعنی ناپاکی کا شبہ بھی ختم ہو جائے، جیسے کسی نے ان کو قید کیا ہو اور اس کو معلوم ہو کہ ان کی چونچ میں کسی طرح کی نجاست نہیں لگی ہوئی، تو اب ان کا جوٹھا مکروہ  بھی  قرار نہیں پائے گا  اور اس سے وضو وغیرہ بلا کراہت جائز ہوگا، اس روایت کو مشائخ نے مستحسن قرار دیا اور اس پر فتوی دیا۔

   جہاں تک سوال میں ذکر کردہ اشکال( جس طرح حرام جانوروں مثلاً:کتا، شیر، چیتا وغیرہ کا جوٹھا ناپاک ہے، تو ان کا جوٹھا بھی ناپاک ہونا چاہئے)  کا تعلق ہے،  تو یاد رہے حرام جانوروں:مثلاً:کتا، شیر، چیتا وغیرہ کا گوشت پوست حرام و ناپاک ہوتاہے،اس وجہ سے ان کا تھوک بھی ناپاک ہوتا ہےکہ تھوک گوشت سے پیدا ہوتاہے لہٰذا جب یہ پانی پیتے ہوئے پانی میں اپنی زبان ڈالتے ہیں تو پانی (جو کہ دہ دردہ سےکم ہو)میں ان کا ناپاک تھوک بھی شامل ہو جاتا ہے جس وجہ سے ان کا جوٹھا ناپاک ہوجاتا ہے مگرباز، شکرا ،کوا وغیرہ حرام جانور تو ہیں لیکن پرندے پانی پیتے ہوئے اپنی زبان  استعمال نہیں کرتے  بلکہ اپنی چونچ کا استعمال کرتے ہیں اور چونچ  ایک خشک ہڈی ہے تو وہ پاک ہوتی ہے ۔  جب ان کا ناپاک تھوک  پانی میں نہیں جاتا اور  ہڈی یعنی چونچ پانی پینے میں استعمال کرتے ہیں وہ بھی نجس نہیں  توان کے پانی پینے سے پانی میں کسی طرح کی نجاست نہ پڑنے کی وجہ سے ان کا جوٹھا بھی ناپاک نہیں  ہو گا۔

   چیر پھاڑ کرنے والے پرندوں کا جوٹھا مکروہِ تنزیہی ہے جبکہ ان کی چونچ پاک ہونے کا معلوم نہ ہو۔اس کے متعلق تنویر الابصار و در مختار میں ہے:”سؤر ھرۃ و(دجاجۃ مخلاۃو سباع طیر )لم یعلم ربھا طھارۃ منقارھا (وسواکن بیوت مکروہ) تنزیھا  فی الاصح ان وجد غیرہ “یعنی بلی، چھوٹی پھرتی مرغی، چیر پھاڑ کرنے والے پرندے جن کے مالک کو ان کی چونچ کی طہارت کا علم نہ ہو اور گھروں میں رہنے والے جانوروں کا جوٹھا اصح قول کے مطابق مکروہِ تنزیہی ہے بشرطیکہ اس کا علاوہ پانی موجود ہو۔(در مختار مع رد المحتار، جلد1،صفحہ 425۔427، مطبوعہ: بیروت، ملتقطا )

   شامی میں”مکروہ “ کے تحت  ہے:”لجواز كونها أكلت نجاسة قبيل شربها “یعنی (ان کا جوٹھا مکروہ تنزیہی ہے)  کیونکہ ممکن ہے کہ انہوں نے پانی پینے سے  کچھ ہی پہلے نجاست کھائی ہو۔(رد المحتار، جلد1،صفحہ 427، مطبوعہ:بیروت)

   اگر معلوم ہو کہ  چونچ پر کوئی نجاست نہیں ، تو اب جوٹھا بھی مکروہ نہیں ہوگا۔اس کے متعلق نور الایضاح ومراقی الفلاح میں ہے:”( و ) سؤر (سباع الطير كالصقر والشاهين والحدأة ) والرخم والغراب مكروه لأنها تخالط الميتات والنجاسات فأشبهت الدجاجة المخلاة حتى لو تيقن أنه لا نجاسة على منقارها لا يكره سؤرها “یعنی   چیر پھاڑ کرنے والے  پرندوں جیسے شکرا، شاہین، چیل، گدھ اور کوے کا جوٹھا مکروہ ہے، کیونکہ یہ مردار اور نجاستوں  میں  منہ مارتے ہیں ، تو یہ چھوٹی پھرتی مرغی کے مشابہ ہوگئے یہاں تک کہ اگر یقین ہو کہ ان کی چونچ پر نجاست نہیں، تو ان کا جوٹھا مکروہ نہیں ہوگا۔(مراقی الفلاح شرح نور الایضاح،صفحہ 18، مطبوعہ:بیروت)

   البحر الرائق میں ہے:”عن أبي يوسف أن الكراهة لتوهم النجاسة في منقارها لا لوصول لعابها إلى الماء حتى لو كانت محبوسة يعلم لصاحبها أنه لا قذر في منقارها لا يكره التوضؤ بسؤرها واستحسن المشايخ المتأخرون هذه الرواية وأفتوا بها كذا في النهاية وفي التجنيس يجوز أن يفتى بها “یعنی امام ابو یوسف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کراہت اس وجہ سے ہے کہ ان کی چونچ میں نجاست کا وہم ہے،  اس وجہ سے نہیں کہ ان کا لعاب پانی تک پہنچتا ہے۔  یہاں تک کہ اگر یہ قید ہوں ، ان کے مالک کو معلوم ہو کہ ان کی چونچ میں کوئی ناپاکی نہیں، تو ان کے جوٹھے سے وضو کرنا مکروہ نہیں ہوگا اور متاخرین مشائخ نے اس روایت کو مستحسن قرار دیا اور اسی پر فتوی دیا، ایسا ہی نہایہ میں ہے ۔ جبکہ تجنیس میں ہے کہ اس روایت پر فتوی دینا جائز ہے ۔ (البحر الرائق، جلد 1،صفحہ 139،دار الکتاب الاسلامی)

   چیر پھاڑ کرنے والے درندوں کا جوٹھا ناپاک اور مذکورہ پرندوں کا جوٹھا پاک ہے ،اس میں فرق بیان کرتے ہوئے جوہرہ نیرہ،البحر الرائق اور ردالمحتار میں ہے:واللفظ لردالمحتار:”أما سباع الطير فالقياس نجاسة سؤرها كسباع البهائم بجامع حرمة لحمها والاستحسان طهارته ؛ لأنها تشرب بمنقارها وهو عظم طاهر ، بخلاف سباع البهائم ؛ لأنها تشرب بلسانها المبتل بلعابها النجس ، لكن لما كانت تأكل الميتة  غالبا أشبهت المخلاة فكره سؤرها ، حتى لو علم طهارة منقارها انتفت الكراهة هكذا قرروا “یعنی  چیر پھاڑ کرنےوالے پرندوں کے جوٹھے سے متعلق قیاس یہی ہے کہ  حرمتِ لحم کی جامع علت کی وجہ سے چیر پھاڑ کرنے والے درندوں کی طرح ان کا جوٹھا نجس ہو مگر  استحسان کے مطابق ان کا جوٹھا پاک ہے، کیونکہ یہ اپنی چونچ سے پیتے ہیں اور وہ ایک پاک ہڈی ہے،برخلاف چیر پھاڑ کرنے والے درندوں کے کہ وہ اپنی زبان سے پیتے ہیں جو ان کے ناپاک تھوک میں تر ہوتی ہے ، لیکن یہ پرندے  اکثر طور پر  مردار کھاتے ہیں ، تو یہ چھوٹی پھرتی مرغی کے مشابہ ہوگئے  لہذا  ان کا جوٹھا مکروہ ہے، حتی کہ اگر ان کی چونچ  پاک ہونا معلوم ہو، تو کراہت منتفی ہوجائے گی، ایسا ہی فقہا نے بیان کیا۔(ردالمحتار، جلد 1،صفحہ 427، مطبوعہ:بیروت)

   مراقی الفلاح میں ہے:”كان القياس نجاسته لحرمة لحمها كسباع البهائم لكن طهارته استحسان لأنها تشرب بمنقارها وهو عظم طاهر وسباع البهائم تشرب بلسانها وهو مبتل بلعابها النجس “یعنی قیاس کے مطابق جوٹھا ناپاک ہوگاکہ ان کا گوشت حرام ہے جیسے چیر پھاڑ کرنے والے چوپائے لیکن ان کا پاک ہونا استحسان کی بنا پر ہے کیونکہ یہ اپنی چونچ سے پانی پیتے ہیں اور وہ ایک پاک ہڈی ہے جبکہ چیر پھاڑ کرنے والے درندے  اپنی زبان سے پیتے ہیں  اور زبان ان کے نجس تھوک سے تر ہوتی ہے۔(مراقی الفلاح شرح نور الایضاح،صفحہ 18، مطبوعہ:بیروت)

   بہارِ شریعت میں ہے:”اڑنے والے شکاری جانور جیسے شکرا، باز، بہری، چیل وغیرہ کا جھوٹا مکروہ ہے اور یہی حکم کوے کا ہے اور اگر ان کو پال کر شکار کے لئے سکھا لیا ہو اور چونچ میں نجاست نہ لگی ہو ، تو اس کا جھوٹا پاک ہے“(بہارِ شریعت، جلد1،صفحہ 342، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم