مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3083
تاریخ اجراء: 15ربیع الاول1446 ھ/20ستمبر2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
چیل کا انڈہ پانی سے بھری بالٹی میں گرجائے اور پانی کے اندر پھٹ جائے ،تو کیا اس پانی سے وضو و غسل ہوسکتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ہر حرام بہتے خون والے جاندار کا انڈہ نجس یعنی ناپاک ہوتا ہے،اور اس کا کھانا حرام ہوتا ہے۔چیل چونکہ حرام بہتے خون والا پرندہ ہے ،تو اُس کا انڈہ بھی نجس اور حرام ہے ،لہذا اگر چیل کا انڈہ پانی سے بھری بالٹی میں گرکر پھٹ جائے،تو سارا پانی ناپاک ہوجائے گا ، کیونکہ جب قلیل یعنی دَہ دَردہ سے کم پانی میں نجس چیز شامل ہوجائے ،تو سارا پانی ناپاک ہوجاتا ہے،اور طہارت کے قابل نہیں رہتا۔
چیل حرام پرندہ ہے،کیونکہ وہ پنجے سے شکار کرتا ہے،اور ہر شکاری پنجے والا پرندہ حرام ہے ،چنانچہ صحیح مسلم شریف کی حدیث مبارکہ ہے:’’عن ابن عباس، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن كل ذي ناب من السباع، وعن كل ذي مخلب من الطير ‘‘ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےہر کیل والے درندےاور ہرشکاری پنجے والے پرندے کے کھانے سے منع فرمایا ۔( صحیح مسلم ،ج 3،ص 1534،رقم الحدیث:16 - (1934)،دار إحياء التراث العربي، بيروت)
بدائع الصنائع میں ہے:’’وما لا يؤكل لحمه كالصقر والبازي والحدأة وأشباه ذلك‘‘ ترجمہ:اور جن کا گوشت نہیں کھایا جاتا جیسے شکرا، باز،چیل اور اس جیسے پرندے۔ (بدائع الصنائع،ج 1،ص 62،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
حرام بہتے خون والے جانور کا انڈہ،اس کے گوشت کے تابع ہوکر نجس اور حرام ہے،چنانچہ موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:’’وإن خرج البيض من حيوان غير مأكول فمقتضى مذهب الحنفية أنه إن كان من ذوات الدم السائل، كالغراب الأبقع، فبيضه نجس تبعا للحمه، فلا يكون مأكولا وإن لم يكن من ذوات الدم السائل كالزنبور فبيضه طاهر تبعا للحمه ‘‘ترجمہ:اور اگر حرام جانور سے انڈہ نکلا،تومذہب حنفی کا تقاضا یہ ہے کہ اگر وہ جانور بہتے خون والا ہے،جیسے کوا،تو اس کے گوشت کے تابع ہوکر اس کا انڈہ نجس ہے،پس وہ نہیں کھایا جائے گا۔اور اگر وہ حرام جانور بہتے خون والا نہ ہو جیسے بھڑ تو اس کا انڈہ اس کے گوشت کے تابع ہوکر پاک ہوگا۔( الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ،ج 5،ص 154، دارالسلاسل ، الكويت)
نجس چیز کے قلیل پانی میں پڑنے سے وہ پانی ناپاک ہوجاتا ہے،اگرچہ اس کا کوئی وصف تبدیل نہ ہو،چنانچہ تنوير الابصار مع درمختار میں ہے:’’(و بتغير أحد أوصافه) من لون أو طعم أو ريح(ينجس) الكثير ولو جاريا إجماعا، أما القليل فينجس وإن لم يتغير‘‘ ترجمہ: (نجس چیز کے پانی میں پڑنے )اور پانی کے اوصاف یعنی رنگ ،ذائقہ اور بو میں سے کسی ایک کے بدلنے سے کثیر پانی ناپاک ہوجاتا ہے اگرچہ وہ جاری ہو بالاجماع۔بہرحال تھوڑا پانی تو وہ ناپاک ہوجاتا ہے،اگرچہ اس کے اوصاف میں سے کوئی وصف تبدیل نہ ہو۔(تنویر الابصار و درمختار مع رد المحتار،ج 1،ص 185،دار الفکر،بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
وضو میں عورتیں سرکا مسح کس طرح کریں؟
ڈبلیو سی کا رخ شمال کی طرف رکھنا کیسا؟
مخصوص ایام میں معلمہ قرآن کی تعلیم کیسے دے؟
کیا ایام مخصوصہ میں ایک کلمے کی جگہ دوکلمات پڑھائے جاسکتے ہیں؟
جو پانی حالت حمل میں پستان سے نکلے پاک ہے یا ناپاک؟
خون کی نمی کپڑوں پر لگ جاتی ہے نماز جائز ہےیانہیں؟
شرمگاہ پر نجاست کی تری ظاہر ہونےسے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟
لال بیگ پانی میں مرجائے تو پانی پا ک ہے یا ناپاک؟