Breathable Nail Polish Lagai Ho Tu Wazu Aur Ghusal Ka Hukum

Breathable“نیل پالش لگائی ہو، تو وضو و غسل کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:60

تاریخ اجراء: 04ذوالحجۃ الحرام1442ھ15جولائی2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں  کہ مارکیٹ میں ”Breathable Nail Polish “ کے نام سے ایک  نئی نیل پالش آئی ہے، اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ    یہ پانی کو ناخن تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ سوال یہ کرنا تھا کہ  اس نیل پالش کو اتارے بغیر اگر وضو کیا جائے، تو وضو ہو جائے گا یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   Breathable Nail Polish “ کے متعلق مختلف ویب سائٹس اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ نیل پالش نارمل استعمال ہونے والی نیل پالش کی بنسبت ناخنوں کے لیے مفید سمجھی جاتی ہے، کیونکہ عام طور پر استعمال ہونے والی نیل پالش ناخنوں تک آکسیجن  اور پانی کے اثرات پہنچنے میں رکاوٹ بنتی ہے اور آکسیجن  اور پانی   نہ ملنے کی وجہ سےناخنوں کی  خوبصورتی ختم ہو جاتی ہے اور بعض اوقات اس کے علاوہ  بھی کئی منفی اثرات ظاہر ہوسکتے ہیں،لہٰذا ان منفی  اثرات  سے  بچنےکے لیے  مختلف کاسمیٹک کمپنیز (Cosmetic Companies) نے ”Breathable Nail Polish “ کے نام سےایک نیل پالش متعارف کروائی ہے، جس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے استعمال  سے بننے والی  تہہ میں  بہت چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوتے ہیں کہ جن کے ذریعے آکسیجن اور پانی  کے اثرات / اجزاء (Molecules/ Moisture) ناخنوں تک پہنچتے ہیں ، جس وجہ سے ناخنوں  کی خوبصورتی باقی رہتی ہے اور دیگرمنفی اثرات سے بھی بچت رہتی ہے۔

   اس تفصیل کے مطابق حکم شرعی یہ ہے کہBreathable Nail Polish “کے فوائد اپنی جگہ لیکن وضو کا تعلق فوائد سے نہیں، بلکہ ناخنوں کو دھونے سے ہے اور اس نیل پالش کی وجہ سے ناخنوں پر پانی کے قطرے نہیں بہتے، بلکہ نمی کی صورت  میں پانی کے اثرات ناخنوں تک پہنچتے ہیں اور یہ  فرض کی ادائیگی  کے لیے ناکافی ہے، اس وجہ سےاس کا  حکم یہ ہے کہ اگر کسی نے اس قسم کی نیل پالش لگا کر وضو کیا، تواُس کا  وضو نہیں ہو گا۔یہ خیال رہے کہ وضو میں جن اعضائے وضو کو  دھونا ضروری  ہوتا ہے(دھونے کے حکم میں ناخن بھی شامل ہیں) ان میں دھونے سے مراد یہ ہے کہ  دھوئے جانے والے عضو کےہر حصے پر کم از کم پانی کے دو دو قطرے بہہ جائیں۔

   وضو میں  ہاتھ اور پاؤں دھونا فرض ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِؕ-وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْاترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو !جب نماز کو کھڑے ہونا چاہو، تو اپنے منہ دھوؤ اور کہنیوں تک ہاتھ اور سروں کا مسح کرو اور گٹوں تک پاؤں دھوؤ اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو، تو خوب ستھرے ہو لو۔(پارہ6، سورۃ  المائدہ، آیت6)

   نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا، لیکن ان کی ایڑیاں خشک تھیں، تو ارشاد فرمایا:”ویل للاعقاب من النار،اسبغوا الوضوء “ترجمہ:ایڑیوں( کو صحیح طور پر نہ دھونے والوں )کے لیے جہنم کی وادی ویل ہے، وضو  صحیح طور پر پورا کرو۔(صحیح بخاری، ج1، ص44، دار طوق النجاۃ، بیروت)

   وضو و غسل میں دھوئے جانے والے عضو کے ہر حصے پر کم از کم دو قطرے پانی بہنا ضروری ہے۔چنانچہ درمختار  میں ہے:’’ اقلہ قطرتان فی الاصح‘‘ترجمہ: اصح قول کے مطابق کسی عضو پرپانی بہنے کی مقدار یہ ہے کہ  عضو کے ہر حصے پر  کم از کم دو دو قطرے بہہ جائیں۔(در مختار،ج1،ص216تا217، مطبوعہ پشاور)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:” کسی عضو کے دھونے کے یہ معنیٰ ہیں کہ اس عضو کے ہرحصہ پر کم سے کم دو بوند پانی بہ جائے۔ بھیگ جانے یا تیل کی طرح پانی چُپَڑلینے یا ایک آدھ بوند بہ جانے کو دھونا نہیں کہیں گے ،نہ اس سے وُضو یا غسل ادا ہوگا ، اس امر کا لحاظ بہت ضروری ہے ،لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور نمازیں اکارت(برباد) جاتی ہیں۔(بھارِ شریعت، ج1،حصہ2، ص288، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   جسم پر کوئی ایسی چیز لگی رہی کہ جو جسم تک پانی پہنچنے سے مانع ہے،تو وضو و غسل نہیں ہوگا۔ چنانچہ محیطِ برہانی میں ہے:’’ولوکان جلد سمک وخبز ممضوغ قد جف فتوضا ولم یصل الماء الی ما تحتہ لم یجز لان التحرز عنہ ممکن‘‘ترجمہ:اگر جسم پر مچھلی کا چھلکایاچِبائی ہوئی خشک روٹی لگی  ہو ،پس وضو کیا اور اس کے نیچے پانی نہ پہنچا،تو یہ جائز نہیں(یعنی وضو نہیں ہو گا)،کیونکہ اس سے بچنا ممکن ہے۔(المحیط البرھانی،ج1،ص36 ،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم