مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-12544
تاریخ اجراء: 22 ربیع الثانی 1444 ھ/18 نومبر 2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں
علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
کیا اپنی بیوی کو چھونے یا اس کا بوسہ لینے
سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بیوی کو چھونے یا اس کا بوسہ
لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا چاہے، یہ چھونا یا بوسہ لینا شہوت
کے ساتھ ہویا بغیر شہوت کے، ہاں اگر چھونے یا بوسہ لینے
سے مذی نکل آئی تو وضو ٹوٹ جائے گا
اور اگرشہوت کے ساتھ منی نکلی تو غسل لازم ہوگا۔
عورت کو
چھونا وضو کو نہیں توڑتا خواہ شہوت کے ساتھ ہو یا بغیر شہوت کے
، جیسا کہ البحر الرائق میں
ہے:”مس بشرۃ المراۃ لا ینقض
الوضوء مطلقا سواء کان بشھوۃ او لا“یعنی
عورت کے جسم کو چھونا مطلقاً وضو کو نہیں توڑتا خواہ شہوت کے ساتھ چھوا ہو یا بغیر شہوت کے۔(البحر الرائق، جلد1،صفحہ 85،مطبوعہ:کوئٹہ)
نہایۃ
المراد میں ہے:”لا ینتقض الوضوء بمس المراۃ بشھوۃ“یعنی شہوت کے ساتھ عورت کو چھونے
کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹتا۔(نھایۃ المراد ۔ملتقطا،صفحہ 175،مطبوعہ:دمشق)
بوسہ
لینے سے بھی وضو لازم نہیں ہوتا۔اس کے متعلق مبسوط
سرخسی میں ہے:”لا یجب
الوضوء من القبلۃ ومس المراۃ بشھوۃ او غیر شھوۃ“یعنی بوسہ لینے اور عورت کو
چھونے سے وضو واجب نہیں شہوت کے ساتھ ہو یا بغیر شہوت کے
۔(المبسوط لسرخسی ،جلد1،سزصفحہ 185،مطبوعہ:بیروت)
امام
علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی رحمۃ اللہ
علیہ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”لان المس لیس بحدث بنفسہ ولا سبب لوجود الحدث غالبا
فاشبہ مس الرجل الرجل والمراۃ المراۃ ولان مس احد الزوجین صاحبہ
مما یکثر وجودہ فلو جعل حدثا لوقع الناس فی الحرج“یعنی اس وجہ سے کہ چھونا بذاتِ
خود حدث نہیں اور نہ ہی غالباًوجودِ حدث کا سبب ہے، تو یہ مرد
کے مرد کوچھونے اور عورت کےعورت کو چھونے کے مشابہ ہے اور اس وجہ سے کہ میاں
بیوی میں سے کسی کا دوسرے کو چھونا ان چیزوں
میں سے ہے جن کا وقوع کثیر ہے ، تو اگر اس کو حدث قرار دےدیا
جائے ، تو لوگ حرج میں واقع ہوجائیں گے۔(بدائع الصنائع، جلد1،صفحہ 121، مطبوعہ:القاھرۃ)
مذی
نکلنے سے وضو کا حکم بیان کرتے ہوئےعلامہ ابنِ نجیم مصری
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اجمع العلماء انه لا يجب الغسل بخروج المذی والودی كذا فی
شرح المهذب واذا لم يجب بهما الغسل وجب بهما الوضوء “یعنی علما کا اجماع ہے کہ مذی اور
ودی کے نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا ایسا ہی شرح مھذب
میں ہے اور جب ان دونوں سے غسل واجب نہیں ہوتا ، تو ان سے وضو واجب
ہوگا۔(البحر الرائق، جلد1،صفحہ 115،مطبوعہ
:
کوئٹہ)
شہوت کے
ساتھ منی نکلنے سے غسل لازم ہوجاتا ہے۔اس کے متعلق بہارِ شریعت
میں ہے:”منی کا اپنی جگہ سے شہوت کے ساتھ جدا ہوکر عضوسے نکلنا سببِ
فرضیتِ غسل ہے۔“(بہارشریعت،جلد01،صفحہ321،
مکتبہ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
وضو میں عورتیں سرکا مسح کس طرح کریں؟
ڈبلیو سی کا رخ شمال کی طرف رکھنا کیسا؟
مخصوص ایام میں معلمہ قرآن کی تعلیم کیسے دے؟
کیا ایام مخصوصہ میں ایک کلمے کی جگہ دوکلمات پڑھائے جاسکتے ہیں؟
جو پانی حالت حمل میں پستان سے نکلے پاک ہے یا ناپاک؟
خون کی نمی کپڑوں پر لگ جاتی ہے نماز جائز ہےیانہیں؟
شرمگاہ پر نجاست کی تری ظاہر ہونےسے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟
لال بیگ پانی میں مرجائے تو پانی پا ک ہے یا ناپاک؟