Beemari Me Kiya Gaya Ghusal Ka Tayammum Kab Tak Baqi Rahe Ga

بیماری کی حالت میں کیا گیاغسل کا  تیمم کب تک باقی رہتا ہے ؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12292

تاریخ اجراء:        15 ذو الحجۃ الحرام 1443 ھ/15جولائی 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے بیماری کی وجہ سے غسل کا تیمم کیا، پھر کچھ دن بعد وہ صحت یاب ہوا اور پانی سے غسل کرنے کے قابل ہوگیا۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا زید کے لیے دوبارہ پانی سے غسل کرنا ضروری ہوگا یا پھر بیماری کی حالت میں کیا گیا تیمم ابھی بھی باقی رہے گا؟ یعنی  کہ بیماری کی حالت میں کیا گیا تیمم کب تک باقی رہے گا؟؟ رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق جس عذر کی بنا پر تیمم کیا ہو  اس عذر کے جاتے رہنے سے تیمم ختم  ہوجاتا ہے اور سابقہ حدث لوٹ آتا ہے۔ اب جبکہ  صورتِ مسئولہ میں زید پانی سے غسل کرنے پر قادر ہوگیا ہے تو اس کا بیماری کی حالت میں کیا گیا غسل کا تیمم ٹوٹ گیا، لہذا اب زید پر  پاکی کے حصول کے لیے پانی سے دوبارہ غسل کرنا ضروری ہوگا۔

   تبیین الحقائق میں ہے:ينقض التيمم ناقض الوضوء والقدرة على الماء، أما الأول فلأنه خلف عن الوضوء فيأخذ حكمه.وأما الثاني فالمراد به طهور الحدث السابق عند القدرة على الماء؛ لأن القدرة في الحقيقة غير ناقضة إذ ليست بخروج نجس لا حقيقة ولا حكما، ولكن انتهت طهورية التراب عندها لأنه لم يجعل طهورا إلا إلى وجود الماء فإذا وجده كان محدثا بالحدث السابق یعنی تیمم وضو توڑنے والی چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہےیونہی پانی پر قدرت حاصل ہونے کی بنا پر بھی ٹوٹ جاتا ہے، بہر حال پہلی صورت میں اس لیے کہ یہ تیمم وضو کا خلیفہ ہے لہذا یہ وضو کا حکم لے گا، اور دوسری صورت میں  مراد یہ ہے کہ سابقہ حدث سے  حاصل کی گئی پاکی جو ہے وہ پانی پر قدرت حاصل ہونے کی بنا پر ٹوٹ جاتی ہے، کیونکہ پانی پر قدرت حقیقت میں طہارت کو ختم کرنے والی نہیں کہ اس کے سبب کوئی نجاست خارج نہیں ہوتی نہ ہی حقیقۃً اور نہ ہی حکماً، لیکن یہ  قدرت مٹی سے حاصل کی گئی پاکی کو ضرور ختم کردیتی ہے کیونکہ مٹی کو پانی کے پائے جانے تک ہی پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا گیا ہےلہذا  جب وہ شخص پانی پر قدرت حاصل کرلے گا تو سابقہ حدث کے ساتھ محدث شمار ہوگا۔

    (فالمراد به طهور الحدث السابق) کے تحت حاشیہ شلبی میں ہے:التيمم يرفع الحدث عندنا لكن رفعا ممتدا إلى وجود الماء، فإذا وجد عاد الحدث السابق یعنی تیمم ہمارے نزدیک حدث کو دورتو  کرتا ہے لیکن یہ حدث دور ہونا  پانی پر قدرت حاصل ہونے تک باقی رہتا ہے، پس جب پانی پر قدرت حاصل ہو جائے تو وہ سابقہ حدث بھی لوٹ آئے گا۔(حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق، کتاب الطھارۃ،  ج 01، ص 41-40، مطبوعہ ملتان)

   بدائع الصنائع میں ہے:”أن المتيمم لا يصير محدثا بوجود الماء ، بل الحدث السابق يظهر حكمه عند وجود الماء ، إلا أنه لم يظهر حكم ذلك الحدث في حق الصلاة المؤداة “یعنی تیمم کرنے والا پانی کے پائے جانے کی وجہ سے محدث نہیں ہوگا بلکہ سابقہ حدث کا حکم پانی کے پائے جانے کے وقت ظاہر ہوگا۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ اس حدث کا حکم پہلے ادا کی گئی نماز میں ظاہر نہیں ہوگا۔(بدائع الصنائع، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 208، دار الحدیث القاہرۃ)

   بحر الرائق، فتاوٰی عالمگیری اور رد المحتار میں ہے:” والنظم للاول“ فإن المريض إذا تيمم للمرض ثم زال مرضه انتقض تيممه كما صرح به قاضي خان في فتاويه۔۔۔۔فإذا تيمم للمرض أو للبرد مع وجود الماء ثم فقد الماء ثم زال المرض أو البرد ينتقض تيممه لقدرته على استعمال الماء یعنی مریض جب مرض کی بنا پر تیمم کرے پھر اس کا وہ مرض جاتا رہے تو اس کا وہ تیمم ختم ہوجائے گا جیسا کہ علامہ قاضی خان علیہ الرحمہ نے اپنے فتاوٰی میں اسے ذکر فرمایا ۔۔۔۔پس جب کوئی شخص پانی کے ہوتے ہوئے کسی بیماری یا سردی کی وجہ سے تیمم کرے پھر پانی بھی ختم ہوجائے اس کے بعد  اس کا وہ مرض بھی جاتا رہے یا سردی جاتی رہے تو اب پانی کے استعمال پر قادر ہونے کی وجہ سے اس کا وہ تیمم ختم ہوجائے گا۔ (البحر الرائق، کتاب الطھارۃ،  ج 02، ص 267، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:” جن چیزوں سے وُضو ٹوٹتا ہے یا غُسل واجب ہوتا ہے ان سے تیمم بھی جاتا رہے گا اور علاوہ ان کے پانی پر قادر ہونے سے بھی تیمم ٹوٹ جائے گا۔ مریض نے غُسل کا تیمم کیا تھا اور اب اتنا تندرست ہو گیا کہ غُسل سے ضرر نہ پہنچے گا تیمم جاتا رہا۔ (بہارِ شریعت،ج01، ص360، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم