Barish Ke Douran Nale Se Behnay Wale Badbudar Pani Se Wazu Karna Kaisa ?

بارش کے دوران پرنالے سے بہنے والے بدبودار پانی سے وضو کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر:Nor-13128

تاریخ اجراء:06جمادی الاولیٰ1445ھ/21نومبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں اگر چھت پر بکریوں کی مینگنیاں پڑی ہوں اور بارش کے دوران پرنالے سے پانی بہے جس کا ذائقہ بھی اُس نجاست کے سبب بدلا ہوا ہو اور تھوڑی بہت مینگنیاں بھی پانی میں نظر آرہی ہوں، تو کیا اس صورت میں  اُس پرنالے سے بہنے والے   پانی سے وضو کیا جاسکتا ہے؟ کپڑے وغیرہ دھوئے جاسکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بارش کے دوران بہنے والا پانی جاری پانی کے حکم میں ہوتا  ہے اور جاری پانی پاک اسی وقت ناپاک ہوتا ہے کہ جب اُس پانی میں نجاست کا کوئی وصف یعنی اس کا رنگ،بو یا ذائقہ ظاہر ہوجائے ۔ اب جبکہ پوچھی گئی صورت میں اُس پرنالے سے بہنے والے پانی میں نجاست کا وصف بھی ظاہر ہے ، لہذا صورتِ مسئولہ میں وہ پانی ناپاک ہے  اُس ناپاک پانی سے وضو کرنا جائز نہیں  اور اگرکسی نے  کپڑے دھولیے تو وہ کپڑے بھی ناپاک ہوجائیں گے۔

   جاری پانی کے اوصاف میں سےکوئی وصف تبدیل ہو جائے تو وہ ناپاک ہوگا۔ جیساکہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:الماء الجاری انہ لا یتنجس مالم یتغیر طعمہ اولونہ اوریحہ من النجاسۃ کذا فی المضمرات“یعنی بہتا پانی  اس وقت تک ناپاک نہیں ہوتا جب تک نجاست کی وجہ سے اس کے رنگ،بو یا ذائقہ میں تغیر نہ آئے ، جیسا کہ مضمرات میں  ہے۔(فتاوٰی  عالمگیری، کتاب الطھارۃ،  ج 01، ص 17،  مطبوعہ پشاور)

   تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے :”لو فيه جيفة أو بال فيه رجال فتوضأ آخر من أسفله جاز ما لم ير في الجرية أثره (وهو) إما (طعم أو لون أو ريح)ظاهره يعم الجيفة وغيرها وهو ما رجحه الكمال۔“یعنی اگر جاری پانی میں مردار ہو یا اس میں کوئی شخص پیشاب کرے، پھر کوئی دوسرا شخص اس مردار کے مقابلے میں ڈھلان والی جگہ پر وضو کرے، تو  جائز ہے جب تک  اس پانی کے بہاؤ میں نجاست کا اثر نہ دیکھے اور نجاست کے اثر سے مراد  نجاست کا رنگ  یا بو یا مزہ ہے۔ اس عبارت کا ظاہر یہ ہے کہ یہ حکم مردار وغیرہ  کو شامل ہے اور اسی کو کمال نے راجح قرار دیا ہے ۔(تنویر الابصار مع الدرالمختار، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 188، مطبوعہ بیروت)

   بہتےپانی کے احکام بیان کرتےہوئے علامہ ابن امیر الحاج علیہ الرحمہ فرماتےہیں:”ماءالثلج اذاجریٰ علی الطریق وفی الطریق نجاسات ان تغیب النجاسات فیہ ،فاختلطت بحیث لایریٰ لونھا ولا اثرھایتوضامنہ“یعنی اولوں کا پانی جب رستے پر بہہ رہاہو اور اس  راستے میں نجاست بھی ہو  کہ نجاست اس  پانی میں چھپ جائے اور اس طرح خلط ملط ہوجائے کہ اس پانی میں نجاست کا رنگ یا اثر نہ  آئےتو اس پانی سے  وضو کر سکتے ہیں ۔ (حلبۃ المجلیٰ، کتاب الطھارۃ،  ج 01، ص 289، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ میں فرماتےہیں :”جس وقت بارش ہورہی ہے اور وہ پانی بہ رہاہےضرور مائے جاری ہےاور وہ ہرگز ناپاک نہیں ہو سکتاجب تک نجاست کی کوئی صفت مثلاًبو یا رنگ ا س میں ظاہر نہ ہو ،صرف نجاستوں پر اس کا گزرتا ہوا جانا اس کی نجاست کو موجب نہیں، فان الماء الجاری یطھر بعضہ بعضاً۔رہا اس سے وضو، اگر کسی نجاستِ مرئیہ کے اجزا اس میں ایسے بہتے جارہے ہیں کہ جو حصہ پانی کا اس سے لیا جائے ایک آدھ ذرہ اس میں بھی آئے گا جب تو یقیناً حرام و ناجائز ہے ، وضو نہ ہوگا اور بدن ناپاک ہوجائے گا کہ حکمِ طہارت بوجہ جریان تھا جب پانی برتن یا چلو میں لیا جریان منقطع ہوا اور نجاست کا ذرہ موجود ہے اب پانی نجس ہوگیا۔“ (فتاوی رضویہ، ج 02، ص 38، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ  بہار شریعت میں بہتےپانی کے بارے میں فرماتےہیں :”بہتا پانی کہ اس میں تنکا ڈال دیں تو بہا لے جائے ، پاک اور پا ک کرنے والا ہے ،نجاست پڑنےسے ناپا ک نہ ہو گا ،جب تک وہ نجس اس کے رنگ  یا بو یا مزے کو نہ بدل دے ، اگر نجس چیز سے رنگ یا بو یا مزہ بدل گیا تو ناپاک ہو گیا، اب یہ اس وقت پاک ہو گا کہ نَجاست تہ نشین ہو کر اس کے اوصاف ٹھیک ہو جائیں یا پاک پانی اتنا ملے کہ نَجاست کو بہالے جائے یا پانی کے رنگ، مزہ، بُو ٹھیک ہو جائیں۔“

   اسی صفحے پر مزید فرمایاکہ:”نالیوں سے برسات کا بہتا پانی پاک ہے جب تک نجاست کا رنگ  یا بو یا مزہ اس میں ظاہر نہ ہو۔“(بہار شریعت،ج01،ص 330،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم