مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری
مدنی
فتوی نمبر:WAT-2301
تاریخ اجراء: 13جمادی الثانی1445 ھ/27دسمبر2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جسم کے جس حصے پر نجاست وغیرہ لگی ہے ، صرف اسے
پاک کرلینا کافی ہے ،مکمل غسل کرنے
کی ضرورت نہیں
۔
اوربدن سے نجاست دورکرنے
کاطریقہ یہ ہے کہ :
پانی یاکسی
بھی پاک مائع(بہتی)چیزسے اتنادھولیں یااتناپونچھ
لیں کہ اگر نجاست مرئیہ(سوکھنے کے بعدنظرآنے والی) ہوتواس کااثرزائل ہوجائے۔
اور اگر غیرمرئیہ ہوتودھونے میں
تین بارپانی بہاناکافی ہے اورپونچھنے میں پاک
کپڑاپانی وغیرہ میں بھگوکراس قدر پونچھیں کہ غالب
گمان ہوجائے کہ نجاست باقی نہیں رہی
اورہربارنیاکپڑالیں یااسی کوپاک کرلیاجائے ۔
فتاوی
رضویہ میں ہے "یہ مسئلہ اگرچہ ہمارے ائمہ کرام رضی
اللہ تعالٰی عنہم میں مختلف فیہ اور مشایخ فتوی
رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم میں معرکۃ الآرا رہا ہے مگر فقیر غفراللہ تعالٰی
اسی پر فتوٰی دیتا ہے کہ بدن سے نجاست دُور کرنے میں
دھونا یعنی پانی وغیرہ بہانا شرط نہیں بلکہ اگر پاک
کپڑا پانی میں بھگوکر اس قدر پونچھیں کہ نجاست مرئیہ ہے
تو اس کا اثر نہ رہے مگر اُتنا جس کا ازالہ شاق ہو اور غیر مرئیہ ہے
تو ظن غالب ہوجائے کہ اب باقی نہ رہی اور ہر بار کپڑا تازہ لیں یا
اُسی کو پاک کرلیا کریں تو بدن پاک ہوجائیگا اگرچہ ایک
قطرہ پانی کا نہ بہے یہ مذہب ہمارے امام مذہب سیدنا امام اعظم
رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہے ۔۔۔۔تو
حاصلِ امامِ مذہب رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ قرار پایا
کہ بدن سے ازالہ نجاستِ حقیقیہ پانی لعاب دہن خواہ کسی
مائع طاہر سے ہو دھوکر خواہ پُونچھ کر کہ اثر نہ رہے مطلقاً کافی وموجبِ
طہارت ہے"(فتاوی رضویہ، ج04، ص464،469،470،رضافاونڈیشن،لاہور)
فتاوی
رضویہ میں ہے " بدن میں عصر ہی درکار نہیں کہ
ان کی حاجت ہو صرف تین بار پانی بَہ جانا چاہئے اگرچہ پہلی
دھار ابھی حصّہ زیریں پر باقی ہے مثلاً ساق پر نجاست غیر
مرئیہ تھی اوپر سے پانی ایک بار بہایا وہ ابھی
ایڑی سے بَہ رہا ہے دوبارہ اوپر سے پھر بہایا ابھی اس کا
سیلان نیچے باقی تھا سہ بارہ پھر بہایا جب یہ پانی
اُتر گیا تطہیر ہوگئی بلکہ ایک مذہب پر تو انقطاع تقاطر
کا انتظار جائز نہیں اگر انتظار کرے گا طہارت نہ ہوگی کہ ان کے نزدیک
تطہیر بدن میں عصر کی جگہ توالی غسلات یعنی تینوں
غسل پے درپے ہونا ضرور ہے مذہب ارجح میں اگرچہ اس کی بھی ضرورت
نہیں مگر خلاف سے بچنے کے لئے اس کی رعایت ضرور مناسب ہے۔"(فتاوی
رضویہ،ج04،ص561،رضافاونڈیشن،لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
وضو میں عورتیں سرکا مسح کس طرح کریں؟
ڈبلیو سی کا رخ شمال کی طرف رکھنا کیسا؟
مخصوص ایام میں معلمہ قرآن کی تعلیم کیسے دے؟
کیا ایام مخصوصہ میں ایک کلمے کی جگہ دوکلمات پڑھائے جاسکتے ہیں؟
جو پانی حالت حمل میں پستان سے نکلے پاک ہے یا ناپاک؟
خون کی نمی کپڑوں پر لگ جاتی ہے نماز جائز ہےیانہیں؟
شرمگاہ پر نجاست کی تری ظاہر ہونےسے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟
لال بیگ پانی میں مرجائے تو پانی پا ک ہے یا ناپاک؟