Bache Ko Napak Kapra Dry Karke Wapas Pehnana Kaisa

بچے کو ناپاک کپڑا سکھا کر واپس پہنانا کیسا؟

مجیب: مفتی ابو محمد  علی اصغر عطاری

فتوی نمبر: Nor-12092

تاریخ اجراء: 04رمضان المبارک1443 ھ/06اپریل 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ چھوٹا بچہ اگر کپڑے پر پیشاب کردے تو اس ناپاک کپڑے کو دھوپ میں سکھا کر دوبارہ وہی کپڑااس بچے کو پہنانا شرعاً جائز ہے؟؟ رہنمائی فرمادیں۔سائلہ: طیبہ گل

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پیشاب لگے کپڑے کو دھوپ میں خشک کرنے سے وہ کپڑا پاک نہیں ہوگا۔ناپاک کپڑوں کا پہننا یا پہنانا گناہ تو نہیں ہے لیکن بچو ں کو پاک کپڑے پہنانے چاہیے۔ البتہ ناپاک کپڑوں کی وجہ سے بچوں پر شیطانی اثرات مرتب ہونے کا ضرور خوف رہے گا۔

   جیسا کہ متعدد احادیثِ مبارکہ میں اس بات کی تاکید بیان ہوئی ہے کہ شام کے وقت بچوں کو باہر جانے سے روک لو، کیونکہ اس وقت شیاطین منتشر ہوتے ہیں۔ یہاں احادیثِ مبارکہ میں بچوں کی تخصیص کی وجہ علمائے کرام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ بچے عموماً پاکیزگی کا خیال نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ان پر شیطانی اثرات مرتب ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔

   چنانچہ صحیح بخاری شریف کی حدیثِ مبارک میں ہے: عن جابر رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال "إذا استنجح الليل أو كان جنح الليل فكفوا صبيانكم فإن الشياطين تنتشر حينئذ فإذا ذهب ساعة من العشاء فخلوهم وأغلق بابك واذكر اسم الله وأطفئ مصباحك واذكر اسم الله وأوك سقاءك واذكر اسم الله وخمر إناءك واذكر اسم الله ولو تعرض عليه شيئاً"۔ “ ترجمہ: ”حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ رات کا اندھیرا شروع ہونے پر یا رات شروع ہونے پر اپنے بچوں کو ( باہر نکلنے سے )  روک لو، کیونکہ شیاطین اسی وقت منتشر ہوتے  ہیں۔ پھر جب عشاء کے وقت میں سے ایک گھڑی گزر جائے تو انہیں چھوڑ دو ۔ اللہ کا نام لے کر اپنے دروازے بند کرو، اللہ کا نام لے کر اپنے  چراغ بجھا دو، اللہ کا نام لے کر اپنے مشکیزوں کو باندھ  دو، اللہ کا نام لے کر اپنے برتنوں کو ڈھک دو اگرچہ اس پر کوئی چیز ہی کھڑی کردو۔“ (صحیح البخاری، باب صفۃ ابلیس و جنودہ،  ج 03، ص 1195، دار ابن كثير، بيروت)

   عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں مذکورہ بالا حدیثِ مبارک کے تحت مذکور ہے: ”في رواية: "ولا ترسلوا صبيانكم"۔ وقال ابن الجوزي: إنما خيف على الصبيان في ذلك الوقت لأن النجاسة التي يلوذ بها الشياطين موجودة معهم غالبا. والذكر الذي يستعصم به معدوم عندهم، والشياطين عند انتشارهم يتعلقون بما يمكنهم التعلق به، فلذلك خيف على الصبيان في ذلك“ ترجمہ: ”ایک روایت میں "ولا ترسلوا صبيانكم"(اپنے بچوں کو باہر نہ چھوڑو)کے بھی الفاظ آئے ہیں۔ علامہ ابن جوزی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ اس وقت بچوں پر شیاطین کا اثر پڑنے کا اندیشہ رہتا ہے، کیونکہ وہ نجاست کہ شیاطین جن کے ساتھ لذت حاصل کرتے ہیں وہ غالب طور پر ان بچوں میں موجود ہوتی ہے۔ نیز شیاطین کے شر سے بچاؤ کے لیے جو ذکر و اذکار ہیں ، بچوں میں ان کے پڑھنے کا بھی شعور نہیں ہوتا۔ پس شیاطین منشتر ہوتے وقت ہر اس چیز کے ساتھ متعلق ہوجاتے ہیں کہ جس چیز کے ساتھ ان کا تعلق ممکن ہو، اسی لیے اس وقت بچوں پر شیاطین کا اثر پڑنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ (عمدة القاري شرح صحيح البخاری، باب صفۃ ابلیس و جنودہ،  ج 15، ص 173، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

   ایک مزید خرابی یہ بھی لازم آئے گی کہ بالفرض وہ ناپاک سوکھا  کپڑا اگر دوبارہ گیلا ہوجاتا ہے اور اس سے وہ پہلی نجاست چھوٹ کر بچے کے ہاتھ ،بدن یاکپڑے وغیرہ کسی مقام پرپہنچتی ہے ، تو اس صورت میں وہ پاک جگہ بھی  ناپاک ہوجائے گی۔

   چنانچہ  درِ مختار میں ہے:”ولولف فی مبتل بنحو بول ان ظھر نداوتہ او اثرہ تنجس والالا“یعنی اگر پاک کپڑے کو پیشاب وغیرہ سے گیلے کپڑےمیں لپیٹا اور اس نجاست کی تری یا اثر پاک کپڑےمیں ظاہر ہوا تو وہ بھی ناپاک  ہوجائےگا،ورنہ نہیں۔(درمختار مع رد المحتار، باب الانجاس، ج01،ص618،مطبوعہ کوئٹہ )

   نیز بہار شریعت میں ہے:”ناپاک کپڑے میں پاک کپڑا لپیٹا اوراس ناپاک کپڑے سے پاک کپڑا نم ہوگیا۔۔۔۔اگر پیشاب یا شراب کی تری اس میں ہے تووہ (پاک)کپڑا نم ہونےسے بھی نجس ہوجائےگا۔“ (ملتقطاً از بہار شریعت،ج01،ص393، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم