Ba Wuzu Shakhs Thandak Hasil Karne Ke Liye Ghusl Kare Tu Pani Mustaml Hoga Ya Nahi?

باوضو شخص ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے غسل کرے ،تو پانی مستعمل ہوگا یا نہیں ؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12959

تاریخ اجراء: 04 صفر المظفر 1445 ھ/22 اگست 2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ   کسی شخص پر غسل فرض نہ ہو اوروہ با وضو بھی ہو ایسا شخص  اگر ثواب  کی نیت کئے بغیر صرف ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کرے ،اس دوران جسم سے جو پانی جدا ہو رہا ہو، وہ ایک برتن میں جمع ہوجائے، تو کیا اس پانی سے وضو کیا جاسکتا ہے یا پھر یہ بھی مستعمل ہی ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مستعمل پانی اس قلیل پانی کو کہا جاتا ہے جوبے وضو  شخص کے اعضائے وضو میں سے کسی حصے کے حدث کو دور کرے یا بے غسل شخص کے  جسم کے کسی حصے کے حدث کو دور کرے  تیسری صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ بندہ با وضو یا با غسل ہو لیکن  قربت کی نیت سے انسانی جسم پر پانی ڈالا گیا ہو،جیسا کہ کسی کا غسل تھا وہ با وضو بھی تھا لیکن جمعہ کی فضیلت پانے کے لئے وہ غسل کر رہا ہے تو اب جو یہ غسالہ ہے یہ مستعمل پانی کہلائے گا۔

   پوچھی گئی صورت میں جبکہ غسل کرنے والا شخص با وضو تھا اور اس نےبلانیتِ ثواب فقط ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے غسل کیا، تو اس کے بدن سے جدا ہوکر ایک برتن میں جمع ہونے والا پانی مستعمل نہیں ہوگا ،اس سے وضو و غسل کرنا جائز ہوگاکہ اس پانی سے نہ تو کوئی حدث زائل ہوا اور نہ ہی اس نے ثواب کی نیت سے اسے اپنے بدن پر استعمال کیا ۔

   مستعمل پانی کی تعریف کرتے ہوئے امام برھان الدین مرغینانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”والماء المستعمل ھو ما ازیل بہ حدث او استعمل فی البدن علی وجہ القربۃ“ یعنی مستعمل پانی وہ ہے جس کی مددسے حدث کو دور کیا گیا یا اس کو بدن پر بہ نیت تقرب استعمال کیا گیا ہو۔(ھدایہ، جلد1، صفحہ23، مطبوعہ:بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت اما م احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”مائے مستعمل وہ قلیل پانی ہے جس نے یا تو تطہیر ِنجاستِ حکمیہ سے کسی واجب کو ساقط کیا یعنی انسان کے کسی ایسے پارۂِ جسم کو مس کیا جس کی تطہیر وضو یا غسل سے بالفعل لازم تھی یا ظاہر بدن پر اس کا استعمال خود کار ثواب تھا اور استعمال کرنے والے نے اپنے بدن پر اسی امر ثواب کی نیت سے استعمال کیا۔“(فتاوی رضویہ، جلد2، صفحہ43، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   فتاوی رضویہ میں ہے:”با وضو آدمی نے اعضا ٹھنڈے کرنے یا میل دھونے  کو وضو بے نیتِ وضو علی الوضو کیا ،پانی مستعمل نہ ہوگا کہ اب نہ اسقاطِ واجب ہے نہ اقامتِ قربت“(فتاوی رضویہ، جلد2،صفحہ 45، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   جن پانیوں سے وضو وغسل جائز ہےان کو بیان کرتے ہوئے امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:”(137)با وضو شخص یا نا بالغ نے اگرچہ بے وضو ہو،  اعضاء ٹھنڈے یا میل دور کرنے کو جس پانی سے وضو یا غسل بے نیتِ قربت کیا“(فتاوی رضویہ،جلد2،صفحہ 593،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم