مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0442
تاریخ اجراء: 21 ربیع الثانی 1446ھ/25اکتوبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ یہ مسئلہ بیان کیا جاتا ہے کہ سونے کے لیے وضو کرنا مستحب ہے ،مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ اگر کسی نے سونےکے لیے وضو کیا اور نیند آنے سے پہلے اس کا وضو ٹوٹ گیا اور وہ ایسے ہی دعائیں وغیرہ پڑھ کر سوگیا، تو اس کو حدیثوں میں بیان کیے گئے باوضو سونے کے فضائل حاصل ہوں گے ؟اس مستحب پر عمل کرنا کہلائے گا یا نہیں ؟نیز اگر کسی کا پہلے سے وضو ہو ،تو اب سونے کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگا یا پہلے والا وضو کافی ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سونے کے لیےوضو کے مستحب ہونے سے مراد یہ ہے کہ جب نیند آئے اس وقت سونے والا باوضو ہو ،لہٰذ ا اگر کسی نے سونےکے لیے وضو کیا اور نیند آنے سے پہلے اس کا وضو ٹوٹ گیا، تو اب دوبارہ وضو کرنا ہوگا ،ورنہ احادیث مبارکہ میں بیان کیے گئے فضائل حاصل ہوں گے نہ ہی اس مستحب پر عمل ہوگا ،کیونکہ اولاً تو خود ان احادیث مبارکہ میں ہی با وضو سونے کی قید ہے ۔ثانیاً یہ کہ معتبر و معتمد شارحین حدیث اور فقہائے کرام علیہم الرحمۃ نے بھی اس کی صراحت فرمائی ہے۔ ثالثاً یہ کہ با وضو سونے کا فائدہ یہ ہے کہ اگر اسی رات اس شخص کا انتقال ہوا تو پاکیزگی کی حالت میں ہوگا اور ایسا شخص خواب میں شیطان کے وسوسہ سے محفوظ رہتا ہے جس سے اس کو خواب زیادہ سچے آتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ فوائد و مقاصد اسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں، جبکہ با وضو ہونے کی حالت میں نیند آئی ہو ورنہ نہیں ۔
نیز جو پہلے سے با وضو ہو، تو اس کو فضیلت کے حصول کے لیےسونےکے لیے دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں، بلکہ وہی پہلے والا وضو کافی ہے ،کیونکہ اصل مقصود با وضو سونا ہے اور وہ پہلے سے حاصل ہے۔
با وضو سونےکے متعلق صحىح بخاری شریف میں ہے:”عن البراء بن عازب، قال: قال النبی صلى اللہ عليه وسلم: إذا أتيت مضجعك، فتوضأ وضوءك للصلاة، ثم اضطجع على شقك الأيمن، ثم قل: اللهم أسلمت وجهی إليك، وفوضت أمري إليك، وألجأت ظهری إليك، رغبة ورهبة إليك، لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك، اللهم آمنت بكتابك الذي أنزلت، وبنبيك الذي أرسلت، فإن مت من ليلتك، فأنت على الفطرة، واجعلهن آخر ما تتكلم به“ترجمہ:حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم اپنے بستر پر جاؤ، تو نماز کے جیسا وضو کرو، پھر اپنی سیدھی کروٹ پر لیٹ جاؤ،پھر کہو(اللهم أسلمت وجهی إليك، وفوضت أمری إليك، وألجأت ظهری إليك رغبة ورهبة إليك، لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك، اللهم آمنت بكتابك الذي أنزلت، وبنبيك الذی أرسلت) تو اگر تمہارا اسی رات انتقال ہوگیا، تو تم فطرت پر مروگے اور ان کلمات کو اپنا آخری کلام بناؤ۔(صحیح البخاری ،ج01،ص 58،دار طوق النجاہ)
اس حدیث کے تحت با وضو سونے کے فوائد بیان کرتے ہوئے علامہ ابن ملقن علیہ الرحمۃ توضیح میں لکھتے ہیں : ”وفائدته: مخافة أن يموت فی ليلته فيموت على طهارة؛ لأنه أصدق لرؤياه، وأبعد من لعب الشيطان به فی منامه“ ترجمہ : اور با وضو سونے کا فائدہ یہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کو اسی رات موت آجائے ،تو با وضو سونے کی صورت میں اس کا انتقال طہارت کی حالت میں ہوگا ،کیونکہ با وضو سونے سے خواب زیادہ سچے آتے اور ایسا شخص اپنے خواب میں شیطان کے وسوسہ ڈالنےسے محفوظ رہتا ہے ۔(التوضیح لشرح الجامع الصحیح،ج29،ص 205، دار النوادر)
اسی طرح مسند احمد اور سنن ابو داؤ میں ہے،واللفظ للآخر :”عن معاذ بن جبل، عن النبی صلى اللہ عليه وسلم، قال: «ما من مسلم يبيت على ذكر طاهرا، فيتعار من الليل فيسأل اللہ خيرا من الدنيا والآخرة إلا أعطاه إياه“ترجمہ:حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو مسلمان ذکر الہی پر پاکیزگی کی حالت میں رات گزارے پھر رات کو اٹھے اور اللہ سے دنیا و آخرت کی بھلائی کا سوال کرے، تو اللہ اس کو وہ عطا فرمائے گا ۔(سنن ابی داؤد،ج04،ص 310، المكتبة العصريہ،بيروت)(مسند احمد ،ج36،ص 373،مؤسسۃ الرسالہ)
علامہ علی قاری علیہ الرحمۃ مرقاۃ المفاتیح میں اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ لمعات التنقیح میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں،واللفظ للآخر :” قولہ (یبیت ) ای ینام علی ذکر من الاذکار و قولہ (طاھرا) ای متوضا“ترجمہ:رات گزارنے سے مراد اذکار میں سے کوئی بھی ذکر کرتے ہوئے سوجانا ہے اور پاکیزگی کی حالت سے مراد باوضو ہونا ہے ۔(مرقاۃ المفاتیح ،ج03،ص 908،دار الفکر )(لمعات التنقیح ،ج03،ص 327،بیروت)
علامہ زین الدین عبد الرؤوف مناوی علیہ الرحمۃ تیسیر و فیض القدیر میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :”شرط لذلك المبيت على طهر لان النوم عليه يقتضی عروج الروح وسجودها تحت العرش الذی هو مصدر المواهب فمن بات على حدث أو خبث لم يصل الى محل الفيض“ترجمہ:اس فضیلت کے حصول کے لیے پاکیزگی پر سونے کو شرط قرار دیا گیا ہے ،کیونکہ پاکیزگی کی حالت میں سونے سے روح آسمان کی طرف چڑھتی اور عرش الٰہی کے نیچے سجدہ کرتی ہے ، جو کہ بخششوں کا منبع ہے لہٰذا جو حالتِ حدث یا نجاست میں سوئے ،تو اس کی روح محلِ فیض تک نہیں پہنچتی ۔(التیسیر شرح الجامع الصغیر ،ج02،ص 367،مکتبۃ الامام الشافعی )(فیض القدیر ،ج05،ص 497، المكتبة التجارية الكبرى ،مصر)
علامہ شرنبلالی علیہ الرحمۃ مراقی الفلاح میں فرماتے ہیں:”وندب الوضوء للنوم على طهارة “ ترجمہ : طہارت پر سونے کے لیے وضو کرنا مستحب ہے ۔اس کے تحت حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:”(قوله: للنوم على طهارة) ظاهره إنه لا يأتی بذلك المندوب إلا إذا أخذه النوم وهو متطهر فلو تطهر ثم اضطجع وأحدث فنام لا يكون آتيا به“ترجمہ: مصنف علیہ الرحمۃ کا قول : طہارت پر سونے کے لیے،اس عبارت کا ظاہر یہ ہے کہ اس مستحب پر عمل کرنے والا وہی کہلائے گا جس کو پاکیزگی کی حالت میں نیند آئے ،لہٰذا اگر کسی نے وضو کیا ،پھر وہ لیٹا اور اس کا وضو ٹوٹ گیا ،پھر وہ ایسے ہی سوگیا ،تو وہ اس مستحب پر عمل کرنے والا نہیں کہلائے گا ۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ،ج01،ص 83، دار الكتب العلميہ، بيروت، لبنان)
جو پہلے سے با وضو ہو، تو سونےکے لیے دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں ،چنانچہ اوپر ذکر کی گئی بخاری شریف کی حدیث کے تحت علامہ ابن ملقن اور علامہ بدر الدین عینی علیہما الرحمۃ اپنی شروح بخاری اور علامہ نووی علیہ الرحمۃ شرح مسلم میں لکھتے ہیں ،واللفظ للعینی:” فيه أن الوضوء عند النوم مندوب إليه مرغوب فيه ۔۔ثم إن هذا الوضوء مستحب وإن كان متوضئا كفاه ذلك الوضوء، لأن المقصود النوم على طهارة مخافة أن يموت فی ليلته، ويكون أصدق لرؤياه وأبعد من تلعب الشيطان به فی منامه“ترجمہ:اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ سونے کے وقت وضو کرنا ،پسندیدہ ہے اور اس کی طرف رغبت دلائی گئی ہے، پھر یہ وضو مستحب ہے اور اگر کوئی پہلے سے با وضو ہو، تو اس کو یہی وضو کافی ہے کیونکہ مقصود باطہارت سونا ہے یہ خوف کرتے ہوئے کہ کہیں اسی رات انتقال ہوگیا ( تو وضو کی حالت میں موت آئے گی) اور یہ کہ با طہارت سونے سے خواب زیادہ سچے آتے اور اس کے خواب میں شیطان اس کو وسوسہ ڈالنے سے دور رہتا ہے ۔(عمدۃ القاری ،ج03،ص 187،ا دار إحياء التراث العربي ، بيروت)(شرح مسلم للنووی،ج17،ص 32،دار إحياء التراث العربي ، بيروت) (التوضیح ،ج29،ص 205،دار النوادر)
فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ ’’نزھۃ القاری ‘‘میں لکھتے ہیں :”سوتے وقت وضو کرنا مستحب ہے،ہمارے نزدیک یہ بھی شرط ہے کہ اگر با وضو نہ ہوتو ۔“(نزھۃ القاری ،ج01،ص 605،فرید بک سٹال)
اسی طرح مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ اسی حدیث بخاری کے تحت مرآۃ المناجیح میں لکھتے ہیں :”یعنی اگر سوتے وقت تمہارا وضو نہ ہو اس اہتمام سے وضو کرلو جس اہتمام سے نماز کے لیے کرتے ہو مع مسواک و ادائے سنن و مستحبات،یہ حکم استحبابی ہے ۔“(مرآۃ المناجیح ،ج04،ص 06،نعیمی کتب خانہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
وضو میں عورتیں سرکا مسح کس طرح کریں؟
ڈبلیو سی کا رخ شمال کی طرف رکھنا کیسا؟
مخصوص ایام میں معلمہ قرآن کی تعلیم کیسے دے؟
کیا ایام مخصوصہ میں ایک کلمے کی جگہ دوکلمات پڑھائے جاسکتے ہیں؟
جو پانی حالت حمل میں پستان سے نکلے پاک ہے یا ناپاک؟
خون کی نمی کپڑوں پر لگ جاتی ہے نماز جائز ہےیانہیں؟
شرمگاہ پر نجاست کی تری ظاہر ہونےسے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟
لال بیگ پانی میں مرجائے تو پانی پا ک ہے یا ناپاک؟