مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Nor-12801
تاریخ اجراء:26رمضان المبارک1444ھ/17اپریل2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے
ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہندہ کے ہاں پہلی
ولادت ہوئی ہے لیکن اسے چالیس دن گزرنے کے بعد بھی
پیلاہٹ نظر آرہی ہے، تو اس صورت میں ہندہ کے لیے نماز کا
کیا حکم ہے؟ کیا وہ نماز پڑھنا شروع کردے یا اس خون کے رکنے کا
انتظار کرے؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نفاس یعنی
بچہ پیدا ہونے کے بعد آنے والے خون کی زیادہ سے زیادہ مدت
چالیس دن ہے۔ پوچھی گئی صورت میں ہندہ کو
چالیس دن کے بعد آنے والا خون استحاضہ (بیماری کا خون)ہے اور حالتِ استحاضہ میں نماز روزہ معاف نہیں۔ پوچھی گئی
صورت میں ہندہ کے لیے حکمِ شرع یہ
ہے کہ وہ نماز پڑھنا شروع کردے نیز ان زائد دنوں کی جو نمازیں نہیں
پڑھیں ان کی قضا کرنا بھی ہندہ کے ذمہ پر لازم ہے۔
یہاں تک تو پوچھے گئے سوال کا
جواب تھا کہ صورتِ مسئولہ میں چالیس دن کے بعد آنے والا خون استحاضہ
کا ہے۔ البتہ یہ ضرور یاد رہے کہ اگر کسی عورت کو
چالیس دن کے بعد آنے والا خون مسلسل جاری ہوجائے تو اب ایسا
نہیں ہے کہ وہ خون استحاضہ ہی میں شمار ہوتا رہے گا بلکہ
اُس عورت کی سابقہ عادت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایامِ حیض کا تعین
کیا جائے گا، جس کی مکمل تفصیل
کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے۔
نفاس کی زیادہ سے
زیادہ مدت چالیس دن ہے۔ جیسا کہ ترمذی شریف
کی حدیثِ پاک میں حضرتِ سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ
عنہا فرماتی ہیں:”كانت النفساء تجلس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم أربعين يوماً “یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم
کے زمانہ مبارکہ میں نفاس والی عورت چالیس دن (نماز روزہ سے
ممانعت کی وجہ سے ان عبادتوں کے
بغیر) بیٹھی رہتی۔
مذکورہ بالا حدیثِ مبارک کے تحت
امام ترمذی علیہ الرحمہ
فرماتے ہیں: ”وقد
أجمع أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، والتابعين، ومن بعدهم على أن
النفساء تدع الصلاة أربعين يوما، إلا أن ترى الطهر قبل ذلك، فإنها تغتسل وتصلي فإذا رأت الدم بعد الأربعين فإن أكثر أهل العلم
قالوا: لا تدع الصلاة بعد الأربعين، وهو قول أكثر الفقهاء،وبه يقول سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي،
وأحمد، وإسحاق“ یعنی صحابہ کرام ، تابعین عظام علیہم
الرضوا ن اور ان کے بعد والے اہلِ علم کا اجماع ہے کہ نفاس والی عورت
چالیس دن تک نمازیں چھوڑے رہے ، سوائے اس صورت کے کہ وہ چالیس
دن سے پہلے پاک ہو جائے تو اب غسل کر کے نماز پڑھے۔ پھر اگر وہ عورت چالیس
دن کے بعد بھی خون دیکھے تو اکثر اہل علم نے فرمایا کہ
چالیس دن کے بعد نمازیں نہیں چھوڑے گی ،یہی
اکثر فقہاء کا قول ہے ، یہی سفیان ثوری ، ابن مبارک ،
امام شافعی ، امام احمد اور امام اسحاق علیہم الرحمہ کا قول ہے۔
(جامع الترمذی ،
ابواب الطھارۃ ، باب کم تمکث الخ ، ج01، ص256، مطبوعہ مصر)
چالیس دن سے زائد آنے والا خون
استحاضہ کا ہے۔ جیسا کہ المختار میں ہے:”النفاس الدم الخارج عقيب الولادة، ولا حد لأقله،
وأكثره أربعون يوماً۔ وإذا جاوز
الدم الأربعين ولها عادة، فالزائد عليها استحاضة، فإن لم يكن لها عادة فنفاسها
أربعون“یعنی نفاس وہ
خون ہے جو ولادت کے بعد نکلے ، اس کی کمی کی جانب کوئی حد
نہیں اور زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے ، خون
چالیس دن سے زیادہ ہو جائے اور عورت کی عادت مقرر ہو تو عادت سے
زائد خون استحاضہ ہے اور پہلے کوئی عادت نہ ہو تو چالیس دن ہی
نفاس کے ہیں۔ (المختار ، کتاب الطہارۃ ، ج01، ص30، مطبوعہ بیروت)
فتاوٰی عالمگیری میں
اسی حوالے سے مذکور ہے: ”لو رأت
الدم بعد أكثر الحيض والنفاس في أقل مدة الطهر فما رأت بعد الأكثر إن كانت مبتدأة
وبعد العادة إن كانت معتادة استحاضة“یعنی
اگر عورت حیض و نفاس کی اکثر مدت کے بعد کامل طہر سے کم مدت میں
خون دیکھے تو اب اگر اس عورت کے ہاں پہلی ولادت ہے تو چالیس دن
کے بعد ورنہ عادت والی کے لیے اس کی عادت کے بعد آنے والا خون
استحاضہ شمار ہوگا۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 38-37، مطبوعہ پشاور)
چالیس سے زائد دن خون آنے کی صورت میں رہ
جانے والی نمازوں کو قضا کرنے سے متعلق منہل الواردین میں ہے: ”فان جاوز
الدم الاربعین فالعادۃ باقیۃ ردت الیھا (و
الباقی) ای ما زاد علی العادۃ (استحاضۃ)
فتقضی ما ترکتہ فیہ من الصلاۃ “یعنی اگرخون چالیس دن سے تجاوز کرجائے تو
اب اگر وہ عورت عادت والی ہے تو اس خون کو
عادت کی طرف پھیرا جائے گا لہذا عادت سے زائد دن آنے والا خون
استحاضہ کا شمار ہوگا پس اس صورت میں وہ عورت ان دنوں کی رہ جانے
والی نمازوں کی قضا کرے گی۔ (مجموعۃ رسائل ابن عابدین، ج 01 ، ص 148، دار الکتب
العلمیۃ، بیروت)
فتاوٰی رضویہ
میں ہے:”اگر چالیس دن
سے زیادہ آیا تو
اس سے پہلے ولادت میں جتنے دن آیا تھا اتنا نفاس ہے اس کے بعد پاک
ہوگئی باقی استحاضہ ہے اس کی نمازیں کہ قضا ہوئی
ہوں ادا کرے۔ اور اگر پہلی ولادت ہے تو چالیس دن کامل تک نفاس تھا باقی جو آگے بڑھا
استحاضہ ہے اس میں نہاکر نمازیں پڑھے روزے رکھے۔“(فتاوٰی
رضویہ ،ج04،ص365، رضافاؤنڈیشن، لاہور)
بہارِ شریعت میں ہے:” کسی کو چالیس 40 دن سے زِیادہ خون آیا تو اگر اس
کے پہلی باربچہ پیدا ہوا ہے یا یہ یاد نہیں کہ اس سے پہلے بچہ
پیدا ہونے میں کتنے دن خون آیا تھا، تو چالیس 40دن رات نِفاس ہے باقی اِستحاضہ ۔“(بہارِ
شریعت، ج 01، ص377، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
وضو میں عورتیں سرکا مسح کس طرح کریں؟
ڈبلیو سی کا رخ شمال کی طرف رکھنا کیسا؟
مخصوص ایام میں معلمہ قرآن کی تعلیم کیسے دے؟
کیا ایام مخصوصہ میں ایک کلمے کی جگہ دوکلمات پڑھائے جاسکتے ہیں؟
جو پانی حالت حمل میں پستان سے نکلے پاک ہے یا ناپاک؟
خون کی نمی کپڑوں پر لگ جاتی ہے نماز جائز ہےیانہیں؟
شرمگاہ پر نجاست کی تری ظاہر ہونےسے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟
لال بیگ پانی میں مرجائے تو پانی پا ک ہے یا ناپاک؟