Agar Mazi Kharij Ho Jaye To Usay Dhoye Bagair Namaz Parh Sakte Hain?

اگر مذی خارج ہوجائے تو اسے دھوئے بغیر نماز پڑھ سکتے ہیں؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر:Nor-12693

تاریخ اجراء:02رجب المرجب1444ھ/25جنوری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مذی خارج ہو تو اسے دھوئے بغیر نماز پڑھ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مذی نجس اور نواقضِ وضو میں سے ہے ، بدن یا کپڑوں کے جس حصے پر مذی کے قطرے لگیں وہ حصہ بھی ناپاک ہوگا۔ نیز طہارت نماز کی بنیادی شرائط میں سے ایک شرط ہے بغیر طہارت کے نماز سرے سے ادا ہی نہیں ہوتی، بلکہ بعض صورتوں میں بغیر طہارت نماز پڑھنے کو فقہاء نے کفر بھی قرار دیا ہے۔

   اگر کسی شخص نے مذی خارج ہونے کے بعد وضو تو کرلیا مگر اس مذی کو صاف نہ کیا تو اب اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر مذی جسم یا کپڑے پر ایک درہم کی مقدار سے بھی زائد لگی ہو تو اس صورت میں نماز ہی نہیں ہوگی، اگر درہم کے برابر لگی ہو تو نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی، ان دونوں صورتوں میں اسے دھوئے بغیر جان بوجھ کر اسی حالت میں نماز پڑھنے والا شخص گنہگاربھی  ہوگا۔ ہاں! اگر درہم کی مقدار سے کم لگی ہو تو نماز ہوجائے گی لیکن اس نجاست کو صاف کرکے ایسی نماز کو دوبارہ پڑھنا بہتر ہے۔

   مذی کے نجس اور نواقضِ وضو ہونے سے متعلق بدائع الصنائع میں مذکور ہے:ان بعض الانجاس یوجب الوضوء، وھو المذی، والودی، ودم الاستحاضۃ۔“یعنی بعض وہ نجاستیں ہیں جو وضو کو واجب کرتی ہیں جیسے مذی، ودی اور استحاضہ کا خون۔(بدائع الصنائع، کتاب الطھارۃ،  ج 01، ص 105، دار الحدیث ، القاہرۃ، ملخصاً)

   بہارِ شریعت میں ہے:”پاخانہ، پیشاب، وَدِی ، مَذِی  ، مَنی ، کیڑا ، پتھری  مرد یا عورت کے آگے یا پیچھے سے نکلیں وُضو جاتا رہے گا۔ ( بہار شریعت، ج 01، ص 303، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ مزید ایک دوسرے مقام پر نقل فرماتے ہیں:”انسان کے بدن سے جو ایسی چیز نکلے کہ اس سے غُسل یا وُضو واجب ہونَجاستِ غلیظہ ہے ،جیسے پاخانہ، پیشاب، بہتا خون، پیپ، بھر مونھ قے، حَیض و نِفاس و اِستحاضہ کا خون،مَنی،مَذی، وَدی۔ (بہار شریعت، ج 01، ص  390، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   نماز کی بنیادی شرط طہارت ہے۔ جیساکہ بدائع الصنائع میں ہے: ”( أما ) شرائط أركان الصلاة : ( فمنها ) الطهارة بنوعيها من الحقيقية والحكمية۔۔۔۔والطهارة الحكمية هي طهارة أعضاء الوضوء عن الحدث، وطهارة جميع الأعضاء الظاهرة عن الجنابة۔“ ترجمہ: ”بہر حال نماز کی شرائط میں سےایک  شرط طہارتِ حقیقیہ اور حکمیہ کا حاصل  ہونا ہے۔۔۔۔طہارتِ حکمیہ سے مراد اعضائے وضو کا حدث  اور تمام ظاہری اعضاء کا جنابت سے پاک ہونا ہے۔ “(بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، فصل فی شرائط أركان الصلاة، ج 01، ص 368، دار الحدیث، القاہرۃ، ملتقطاً)

   طہارت کے بغیر اصلاً ہی نماز ادا نہیں ہوتی۔ جیسا کہ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی میں ہے:”الحدث فی الشرع ما یوجب الغسل او الوضوء۔۔۔۔اما الطھارۃ من الحدث قدمھا لکونھا اھم الشروط و اکدھا حتی انہ لا تسقط بحال و لا یجوز الصلوۃ بدونھا اصلاًیعنی شریعت میں حدث سے مراد وہ چیز ہے جو غسل یا وضو کو واجب کردے۔۔۔۔بہر حال حدث سے پاکی حاصل ہونے کو ہم نے دیگر شرائط پر مقدم رکھا ہے کیونکہ یہ شرط دیگر شرائط سے اہم اور زیادہ تاکید والی ہے یہاں تک کہ یہ کسی بھی حالت میں ساقط نہیں ہوتی اور بغیر طہارت کے نماز اصلاً ہی جائز نہیں ہوتی۔(غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی ، شرائط الصلوۃ و فرائضھا، ص13،مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً)

   بہارِ شریعت میں ہے:”مصلّی کے بدن کا حدث اکبر و اصغر اور نجاست حقیقیہ قدر مانع سے پاک ہونا (نماز کی شرائط میں سے ایک شرط ہے)۔“(بہارشریعت،ج 01 ، صفحہ 476، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملخصاً)

   بدن یا کپڑوں پر نجاست غلیظہ لگی ہوئی ہو تو اسے دھوئے بغیر نماز پڑھنے کے حوالے سے فتاوی عالمگیری، فتاوٰی شامی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”و النظم للاول“النجاسۃ ان کانت غلیظۃ و ھی اکثر من قدر الدرھم فغسلھا فریضۃ و الصلوۃ بھا باطلۃ وإن كانت مقدار درهم فغسلها واجب والصلاة معها جائزة وإن كانت أقل من الدرهم فغسلها سنة یعنی نجاست اگر غلیظہ ہو اور وہ ایک درہم سے زائد ہو، تو اس کو دھونا ضروری ہے اور اسی حالت میں نماز پڑھنا باطل ہے، اور اگر وہ نجاست درہم کی مقدار ہو تو اسے دھونا واجب ہے دھوئے بغیر پڑھی گئی نماز ادا ہوجائے گی اور اگر درہم سے کم ہو تو اسے دھونا سنت ہے۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الطھارۃ،  ج01، ص 58، مطبوعہ پشاور)

   بہار شریعت میں ہے:”نجاستِ غلیظہ کا حکم یہ ہے کہ اگر کپڑے یا بدن میں ایک درہم سے زیادہ لگ جائے تو اس کا پاک کرنا فرض ہے،بےپاک کئے نماز پڑھ لی  تو ہوگی ہی نہیں اور قصداً پڑھی تو گناہ بھی ہوا،اگر بہ نیت استخفاف ہےتو کفر ہوااور اگر درہم کے برابر ہےتو پاک کرنا واجب ہےکہ بے پاک کیے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی  ہوئی ایسی نماز کااعادہ واجب ہے ، اور قصدا پڑھی تو گناہگار بھی ہوا ،اور اگر درہم سے کم ہےتو پاک کرناسنت ہے ،کہ بے  پاک کیےنماز ہوگئی ،مگر خلاف سنت ہوئی اور اس کا اعادہ بہتر ہے  (بہار شریعت،ج01، ص389، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوی فیض الرسول میں ہے:”اگر کسی کپڑے میں ایک درہم سے زیادہ پیشاب یا منی لگ جائے، تو اسے پہن کر نماز پڑھنے سے بالکل نماز نہیں ہوگی ۔“(فتاوی فیض الرسول، ج 01، ص173، شبیر برادرز، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم