Aankhon Mein Kajal Laga Ho Tu Kya Wazu Aur Ghusl Ho Jayega ?

آنکھوں میں کاجل لگا ہو، تو کیا وضو اور غسل ہوجائے گا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12973

تاریخ اجراء: 11صفر المظفر1445 ھ/29اگست 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آنکھ میں کاجل لگا  ہوتو وضو اور غسل ہوجائے گا؟ یا پھر وضو اور غسل سے پہلے کاجل صاف کرنا ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   وضو اور غسل میں آنکھ کے اندرونی حصے میں پانی پہنچانا واجب یا سنت  نہیں، لہذا آنکھ میں کاجل لگے ہونے کی صورت میں بھی وضو اور غسل ادا ہوجائے گا ۔  البتہ کاجل یا سُرمے کا جرم اگر آنکھ کے کوئے (یعنی ناک کی طرف آنکھ کے کونے) پر یا پلکوں پر لگا ہو تو وضو اور غسل میں اُسے چھڑانا ہوگا، کیونکہ وضو یا غسل میں چہرہ دھوتے ہوئے آنکھوں کے  کوئے اور پلکوں کو دھونا فرض   ہے۔

   وضو اور غسل میں آنکھ کے اندرونی حصے میں پانی پہنچانا واجب یا سنت  نہیں۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے :”و ایصال الماء الی داخل العینین لیس بواجب و لا سنۃ “یعنی آنکھ  کے اندرونی حصے میں پانی  پہنچانا واجب یا سنت نہیں ۔(فتاوٰی عالمگیری،کتاب الطھارۃ، ج01،ص04، ، مطبوعہ بیروت)

   بدائع الصنائع میں ہے:وإدخال الماء في داخل العينين ليس بواجب ؛ لأن داخل العين ليس بوجه ؛ لأنه لا يواجه إليه ؛ ولأن فيه حرجاًیعنی (وضو میں)آنکھ کے اندرونی حصے میں پانی داخل کرنا واجب نہیں، کیونکہ آنکھ کا اندرونی حصہ چہرہ نہیں کیونکہ اس کی طرف رخ نہیں کیا جاتا نیز اس میں حرج بھی ہے ۔(بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، ،  ج 01، ص 4، بیروت )

   بہارِ شریعت میں ہے:”آنکھوں کے ڈھیلے اور پپوٹوں کی اندرونی سَطح کا دھوناکچھ درکار نہیں بلکہ نہ چاہیئے کہ مُضر ہے۔“(بہار شریعت،ج01، ص290، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   وضو میں جن اعضا کو  دھونافرض ہے ان کا ذکرکرتےہوئے سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ  میں فرمایا ”آنکھوں کے چاروں کوئے۔ آنکھیں زور سے بند نہ کرے ، یہاں کوئی سخت چیز  جمی ہوئی ہو تو چھڑالے ۔“

   مزید اسی میں پلکیں دھونے کےفرض ہونے سےمتعلق فرمایا:”پلک کا ہر بال پو را ۔بعض اوقات کیچڑ وغیرہ سخت ہو کر جم جاتاہے کہ  اس  کے نیچے  پانی  نہیں بہتا،  اس کا چھڑانا ضرور ہے۔“(فتاوٰی  رضویہ،ج01(ب)،ص598، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم