Aankh Ke Operation Ke Baad Aankh Ka Masah Karna

 

آپریشن کے سبب آنکھ پر پانی نہ ڈال سکتے ہوں تو وضو کا طریقہ

مجیب:مولانا محمد نوید چشتی عطاری

فتوی نمبر:WAT-3374

تاریخ اجراء: 14جمادی الاخریٰ 1446ھ/17دسمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک عورت کی آنکھ کا آپریشن ہوا ہے اور وہ آنکھ پہ پانی نہیں ڈال سکتیں، وضو کا کیا حکم ہو گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آپریشن کے سبب اگر آنکھ پرہرطرح کا پانی(ٹھنڈاوگرم) پہنچانےسےآنکھ کے ضائع ہونے یا بیماری بڑھنے یا دیر سے اچھا ہونے کا صحیح اندیشہ ہو،تو اس پرپانی بہانامعاف ہے ،اب اگرآنکھ پرڈالی گئی پٹی پرپانی بہانے میں نقصان نہ ہوتواس پرپانی بہایاجائے اوراگراس پرپانی بہانے میں بھی نقصان ہوتوآنکھ  کا مسح کر لیاجائےاوراگرآنکھ پرمسح کرنے میں بھی  نقصان ہوتوپٹی پرمسح کرلیاجائے،وہ بھی نقصان دہ ہوتومسح بھی معاف ہے۔اورپھرجتنی بات پرقدرت ملتی جائے اتنی بات اختیارکرنالازم ہوتاجائے گایعنی جب(پٹی یاآنکھ میں سے کسی کو) مسح نقصان نہ دے تو(جسے نقصان دہ نہیں اس پر)مسح کرے اورجب پانی(ٹھنڈایاگرم)(پٹی یاآنکھ میں سے جس کو) نقصان نہ دے تو(جوپانی جس کونقصان نہ دے اس پروہی)پانی بہائے ۔ اورجہاں تک آنکھ کے علاوہ باقی چہرے کامعاملہ ہے تواسے دھوناہی لازم ہے ،ہاں چہرے کاوہ حصہ کہ جس کے دھونے سے آنکھ تک پانی پہنچے اورکوئی صورت آنکھ کو بچاکراس حصے کودھونے کی نہیں ، تواس کادھونابھی اس صورت میں معاف رہے گااوراس کابھی مسح کیاجائے گااورجب اس کودھونے کی صورت میں ضررنہ رہے گاتواب اس کادھونالازم ہوجائے گا۔

   زخم پر پانی بہانانقصان دہ ہوتو اس کا حکم بیان کرتے ہوئے الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:”فمن كان به جراحة يضرها الماء ووجب عليه الغسل غسل بدنه إلا موضعها ولا يتيمم لها ، وكذلك إن كانت الجراحة في شيء من أعضاء الوضوء غسل الباقي إلا موضعهاولا يتيمم لها“یعنی: جسے ایسا زخم ہوجس پر پانی بہانا نقصا ن دے اور اس پر غسل لازم ہوجائےتو زخم والی جگہ کے علاوہ باقی بدن پر پانی بہائے اور وہ اس زخم کی وجہ سے تیمم نہیں کرے گا۔ اسی طرح اگر اعضائے وضو میں سے کسی عضو پر زخم ہوجائےتو زخم والی جگہ کے علاوہ باقی اعضائے وضو پر پانی بہائے اوروہ اس زخم کی وجہ سے تیمم نہیں کرےگا۔ (الاختیار لتعلیل المختار، جلد01، صفحہ23، مطبوعہ پشاور) 

   زخم کی جگہ کو کب دھویا جائے گا، کب اس پرمسح کیا جائے گا اورکب مسح کرنا بھی معاف ہے ؟ اس حوالےسے تفصیل بیان کرتے ہوئے درمختار میں ہے:” لزوم غسل المحل ولو بماء حار ، فإن ضر مسحه ، فإن ضر مسحها ، فإن ضر سقط أصلا“یعنی :اولاً زخم کی جگہ کو دھونا ہی لازم ہے اگرچہ گرم پانی سےہواوراگر دھونے سے ضرر ہوتو مسح کرے ، اگر زخم کی جگہ پر مسح کرنے سے بھی ضرر ہو تو پٹی پر مسح کرے ، اگر پٹی پر مسح کرنے سے بھی ضرر ہوتو معافی ہے۔(در مختار مع رد المحتار،جلد01،صفحہ517،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے " اور اگر ہر طرح کا پانی مضر ہے یا گرم مضر تو نہ ہوگا مگر اسے اس پر قدرت نہیں توضرر کی جگہ بچا کر باقی بدن دھوئے اور اس موضع پر مسح کرلے اور اگر وہاں بھی مسح نقصان دے مگر دوا یا پٹی کے حائل سے پانی کی ایک دھار بہا دینی مضر نہ ہوگی تو وہاں اُس حائل ہی پر بہادے باقی بدن بدستور دھوئے،اوراگر حائل پر بھی پانی بہانا مضر ہوتو دوا یا پٹی پر مسح ہی کرلے اگر اس سے بھی مضرت ہوتو اُتنی جگہ خالی چھوڑ دے ۔ جب وہ ضرر دفع ہوتو جتنی بات پر قدرت ملتی جائے بجالاتاجائے ۔ یہی سب حکم وضو میں ہیں ۔ اگر اعضائے وضو میں کسی جگہ کوئی مرض ہو۔“(فتاوی رضویہ،جلد01(ب)،صفحہ618،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   فتاوی رضویہ میں ہے "ہاں اگر اکثر بدن پر پانی ڈالنے کی قدرت نہ ہو (خواہ یوں کہ خود مرض ہی اکثر بدن میں ہے یا مرض تو کم جگہ ہے مگر واقع ایسا ہوا کہ اُس کے سبب اور صحیح جگہ کو بھی نہیں دھو سکتا کہ اُس کا پانی اس تک پہنچے گا اور کوئی صورت بچا کر دھونے کی نہیں یوں اکثر بدن دھونے کی قدرت نہیں ۔۔۔۔توایسی حالت میں بیشک تیمم کی اجازت ہوگی ۔"(فتاوی رضویہ،جلد01(ب)،صفحہ618،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم