مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Sar-7627
تاریخ اجراء: 03
جمادی الاولیٰ 1443ھ/08دسمبر 2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
کیافرماتے ہیں علمائے دین
و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ طالبات مخصوص ایام
میں تفسیر ِصراط الجنان کو چُھو کر
پڑھ سکتی ہیں یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اولاً یہ بات ذہن میں رہے کہ کتبِ تفاسیر دو طرح کی ہوتی ہیں۔بعض
تفاسیر مختصر ہوتی ہیں،
جن میں تفسیر کی مقدار کم اور قرآن پاک کی مقدار غالب ہوتی ہے اور ان پر قرآن
مجید کا اطلاق ہوتا ہے ،یعنی انہیں تفسیر
نہیں کہا جاتا، بلکہ حاشیے والا قرآن ہی کہا جاتا ہے،جیسے
خزائن العرفان، نور العرفان وغیرہ ،ایسی تفاسیرکو
ناپاکی کی حالت میں بلا حائل چھونا مکروہ تحریمی ،ناجائز و گناہ ہے اوربعض
تفاسیر مفصل ہیں، جن میں تفسیر کی مقدار زیادہ
ہوتی ہےاور انہیں قرآن مجید نہیں کہا جاتا، بلکہ
تفسیر کی کتاب یا کتابیں کہا جاتا ہے،جیسے تفسیر کبیر، تفسیر صراط الجنان وغیرہ ، ان کے متعلق حکم
یہ ہےکہ ان کوناپاکی کی حالت میں بلا حائل چھوکر پڑھنا مکروہ یعنی ناپسندیدہ
عمل ہےاور اگر کپڑے وغیرہ کے
ذریعے چھواجائے، تو بلاکراہت جائز
ہے،اگرچہ وہ کپڑا اپنے تابع ہی ہو۔
اس تمہید کو سمجھنے کے بعد پوچھی گئی صورت کا
جواب یہ ہےکہ طالبا ت کو مخصوص ایام میں تفسیر صراط
الجنان کو بلا حائل چھوکر پڑھنا مکروہ یعنی ناپسندیدہ عمل ہےاور اگر کپڑے وغیرہ کسی چیز سے چھو کر پڑھیں ، تو مکروہ بھی نہیں ،اگرچہ وہ کپڑا وغیرہ اپنے تابع ہی ہو ، مثلاً جو لباس پہنا ہوا تھا اُسی کی آستین یا گلے
میں موجود چادر کے کسی کونے یا
پہنےہوئے دستانوں سے چھولیا
، تو حرج نہیں ، یادرہے !تفسیر
پڑھتے ہوئے آیت یا اس کے ترجمے کو پڑھنا اور جس مقام پر آیت یا اس کا ترجمہ لکھا ہو ، اُس
جگہ یا عین اس کی پشت
کو چھونا، دونوں جائز نہیں ۔
مختصر تفسیرجس میں
قرآن زیادہ ہو ، اس کو چھونا مکروہ
تحریمی و گناہ ہے، جیساکہ درمختار
و ردالمحتار میں ہے:” وفی الاشباہ …وقد جوز أصحابنا مس کتب التفسیر للمحدث ولم
یفصلوا بین کون الأکثر تفسیرا أو قرآنا ولو قیل بہ (بأن یقال
إن کان التفسیر أکثر لا یکرہ وإن کان القرآن أکثر یکرہ) اعتبارا
للغالب لکان حسنا (وبہ یحصل التوفیق بین القولین)ملتقطا “ترجمہ: اشباہ میں ہے کہ ہمارے علماء نے بے وضو شخص کا کتب ِتفاسیر
کو چھونا،جائز قرار دیا ہے اوراس میں تفسیر یا قرآن کے زیادہ
ہونے کی تفصیل بیان نہیں کی، البتہ اگر اس تفصیل کے ساتھ قول کیا جائے، تو بہت اچھا ہے ، یعنی یوں کہا جائے کہ اگر تفسیر
زیادہ ہے ، تو مکروہ (تحریمی)نہیں
اور اگر قرآن زیادہ ہے ، تو پھر
مکروہ (تحریمی )ہے، غالب کا اعتبار کرتے ہوئے ۔(علامہ شامی
رَحِمہُ اللہ فرماتے ہیں ) اور اس تفصیل سے دونوں
اقوال میں تطبیق پیدا ہو جاتی ہے۔ (ردالمحتار مع الدرالمختار، کتاب الطھارۃ، جلد1،
صفحہ353، مطبوعہ کوئٹہ)
اور سیّدی
اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”محدث کو مصحف چھونا مطلقاً حرام
ہے ، خواہ اُس میں صرف نظمِ قرآنِ
عظیم مکتوب ہو یا اُس کے ساتھ ترجمہ وتفسیر ورسم خط
وغیرہا بھی کہ ان کے لکھنے سے نامِ مصحف زائل نہ ہوگا ، آخر اُسے قرآن
مجید ہی کہا جائے گا ،ترجمہ یا تفسیر یا اور
کوئی نام نہ رکھا جائےگا ۔یہ زوائد قرآن عظیم کے توابع
ہیں اور مصحف شریف سے جُدا نہیں ولہٰذاحاشیہ
مصحف کی بیاض سادہ کو چھُونا بھی ناجائز ہوا ، بلکہ پٹھوں کو بھی ، بلکہ چولی پر سے بھی ، بلکہ ترجمہ کا چھونا خود ہی ممنوع ہے ، اگرچہ قرآن مجید سے جُدا لکھا ہو۔“ (فتاویٰ
رضویہ، جلد1 ، صفحہ1074،مطبوعہ رضا
فاؤنڈیشن،لاھور)
اور مفصّل تفسیر کو بلاحائل چھونا مکروہ یعنی ناپسندیدہ ہے ، جیساکہ فتح القدیر ، بحر الرائق ، رد المحتار و
دیگر کتبِ فقہ میں ہے، واللفظ
للآخر :” يكره مس كتب التفسير والفقه والسنن لأنها لا تخلو عن آيات
القرآن“ ترجمہ: (جنبی ،حیض و نفاس والی کو ) فقہ و
تفسیر وحدیث کی کتب (بلا حائل )چھونا مکروہِ
تنزیہی ہے،کیونکہ
یہ آیاتِ قرآنیہ سے خالی نہیں ہوتیں۔(ردالمحتار مع الدرالمختار،
کتاب الطھارۃ، جلد1، صفحہ353، مطبوعہ کوئٹہ)
اورتفسیرِ مفصل کو اپنے تابع کسی کپڑے وغیرہ
کے ساتھ بھی چھونا ،جائز ہے،اس کے
متعلق ہدایہ اور اس کی شرح بنایہ میں ہے:” ( كتب الشريعة لأهلها حيث يرخص في مسها بالكم لأن فيه ضرورة) وهذا
قول عامة المشايخ وفي " الذخيرة " ويكره لهم مس كتب الفقه والتفسير
والسنن لأنها لا تخلو عن آيات من القرآن، ولا بأس بمسها بالكم بلا خلاف‘‘ ترجمہ:دینی کتب پڑھنے ،پڑھانے والوں کےلیے (تفسیر و فقہ و حدیث کی )اسلامی
کتب کو (ناپاکی
کی حالت میں )آستین کے ساتھ
چھونا، جائز ہے،کیونکہ اس میں شرعاً ضرورت متحقق ہے، (علامہ عینی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں) اور اکثر مشائخ کا یہی قول ہےاور
ذخیرہ میں ہےکہ جنبی اور حیض و نفاس والی کو فقہ و
تفسیر وحدیث کی کتب (بلا حائل )چھونا مکروہ ہے،کیونکہ
یہ آیاتِ قرآنیہ سے خالی نہیں ہوتیں اور ان
کو آستین(وغیرہ ) کے ساتھ
چھونے میں بلا اختلاف کوئی حرج نہیں۔ (البنایۃ شرح الھدایۃ، فرو ع فیما یکرہ للحائض ، جلد 1،
صفحہ 652، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت )
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی
اعظمی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: ”(جنبی
اورحیض و نفاس والی عورت ) ان
سب کو فقہ و تفسیر وحدیث کی کتابوں کا چھونا مکروہ ہے اور اگر
ان کو کسی کپڑے سے چُھوا اگرچہ اس کو پہنے یا اوڑھے ہوئے ہو،تو حَرَج
نہیں مگر مَوْضَع ِآیت پر ان
کتابوں میں بھی ہاتھ رکھنا حرام ہے۔“ (بھار شریعت، جلد1، حصہ2، صفحہ 327، مطبوعہ
مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
اور مَوْضَع ِآیت کو چھونا ، ناجائز ہونے کے متعلق علامہ ابنِ عابدین
شامی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے
ہیں: ”إن کتب
التفسیر لایجوز مس موضع القرآن منھا“ ترجمہ:کتب ِ تفاسیر میں جس جگہ آیتِ
قرآنی لکھی ہو، اُسےچھونا ،جائز نہیں ۔ (ردالمحتار مع الدرالمختار،
کتاب الطھارۃ ، جلد1، صفحہ353، مطبوعہ کوئٹہ)
اور جس جگہ آیت لکھی ہو ، اُس کے بالمقابل پشت سے
بھی چھونا ،نا جائزہونےکے متعلق سیّدی
اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے
ہیں: ”کتاب
یا اخبار جس جگہ آیت لکھی ہے خاص اُس جگہ کو بلاوضوہاتھ لگانا،
جائز نہیں ، اُسی طرف ہاتھ لگایا جائے جس طرف آیت
لکھی ہے ، خواہ اس کی پشت پر ، دونوں ناجائز ہیں۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد4،صفحہ366،مطبوعہ رضا
فاؤنڈیشن،لاھور)
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
وضو میں عورتیں سرکا مسح کس طرح کریں؟
ڈبلیو سی کا رخ شمال کی طرف رکھنا کیسا؟
مخصوص ایام میں معلمہ قرآن کی تعلیم کیسے دے؟
کیا ایام مخصوصہ میں ایک کلمے کی جگہ دوکلمات پڑھائے جاسکتے ہیں؟
جو پانی حالت حمل میں پستان سے نکلے پاک ہے یا ناپاک؟
خون کی نمی کپڑوں پر لگ جاتی ہے نماز جائز ہےیانہیں؟
شرمگاہ پر نجاست کی تری ظاہر ہونےسے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟
لال بیگ پانی میں مرجائے تو پانی پا ک ہے یا ناپاک؟