قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے استنجاکرنے کا حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-2177

تاریخ اجراء: 11 جُمادی الاولی 1443ھ/16 دسمبر 2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے ایک حدیثِ پاک  پڑھی ہے، جس کا مفہوم ہے کہ اگر میدان میں ہوں ، تو قبلہ رو پیشاب منع ہے اور اگر قبلہ کے درمیان کوئی چیز حائل ہے ، تو منع نہیں ہے ۔ آپ بتائیں کہ قبلہ رخ پیشاب کی ممانعت کھلے میدان میں ہے یا گھروں کے واش رومز میں بھی منع ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اس مسئلے کے متعلق مختلف حدیثوں اور ان پر تفصیلی گفتگو سے پہلے احناف کا موقف جان لیجیے ۔احناف کے نزدیک حکم یہ ہے کہ کھلا میدان ہو یا گھروں کے واش رومز و چار دیواری ہو ، پیشاب وغیرہ کرتے وقت قبلے کی طرف رخ یا پیٹھ کرنا مکروہ تحریمی یعنی حرام کے قریب اور گناہ ہے،بلکہ قبلے کی سمت میں دونوں جانب 45 ڈگری کے اندر اندر بھی اِس حالت میں قبلے کو منہ یا پیٹھ کرنا  ناجائز ہے، جیسے نماز میں قبلہ رخ سے 45ڈگری کے اندر اندر ہوں ، تو قبلہ رخ ہی مانا جاتا ہے ۔ لہٰذا اگر بُھول کر قبلے کی طرف رخ یا پیٹھ کر کے بیٹھ گئے ، تو قبلے سے پھرنا، ممکن ہونے کی صورت میں یاد آتے ہی فوراً اس طرح رُخ بدل دیں کہ 45 ڈگری سے باہر ہوجائیں ، ایسا کرنے سے امید ہے کہ اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور بہتر یہ ہے کہ قبلے سے دائیں بائیں طرف یعنی 90 ڈگری کے زاویے پر بیٹھیں تاکہ  قبلے کو رخ یا پیٹھ ہونے کا امکان ہی نہ رہے ۔ نیز گھر وغیرہ میں W.C. ، کموڈ اور شاور بھی اسی رخ پر بنوانا ضروری ہے اور اگر اس طرح بنے ہوں کہ قبلے کو رخ یا پیٹھ ہوتی ہو ، تو ان کا رخ درست کروا لینا ضروری ہے۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ پیشاب وغیرہ کرتے وقت قبلے کو رخ یا پیٹھ کرنے یا نہ کرنے کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مختلف روایات آئی ہیں ، بعض روایات میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیشاب وغیرہ کرتے وقت قبلے کو رخ اور پیٹھ کرنے سے منع فرمایا ہے جبکہ دوسری روایات میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا کہ قبلے کو رخ یا پیٹھ کرناکھلے میدان وغیرہ میں منع ہے ، چار دیواری میں منع نہیں لیکن ان میں سے کسی بھی روایت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا کوئی فرمان ذکر نہیں کیا گیا ، جس میں چار دیواری اور کھلے میدان کے درمیان فرق کیا گیا ہو۔جن حدیثوں میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان روایت کیا گیا ہے ، وہ سب منع ہی کی ہیں اور ایسی حدیثوں کو صحابہ کِرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد نے روایت کیا ہے اور کتبِ ستہ یعنی حدیث کی چھ مشہور کتابوں میں سے ہر ایک میں حضرتِ سیِّدُنا ابو ایوب انصاری  رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قضائے حاجت کے وقت قبلے کو رخ اور پیٹھ دونوں کرنے سے منع فرمایا اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اس مسئلے سے متعلق یہ حدیث احسن یعنی سب سے بہتر اور اصح یعنی سب سے زیادہ صحیح ہے ۔ فقہا فرماتے ہیں کہ جن روایات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے چار دیواری میں قبلے کو رخ یا پیٹھ کرنے کو جائز کہا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بار حضرتِ سیدُنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کسی کام سے ایک مکان پر چڑھے ، تو دیکھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر مبارک میں قبلے کی طرف پیٹھ کیے ہوئے اور ملکِ شام کی طرف رخ کیے ہوئے قضائے حاجت فرما رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان صحابہ نے چار دیواری میں اسے جائز سمجھا ۔ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ حضرتِ سیدُنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کی نظر اچانک نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑی تھی اور انہوں نے فورا نظر پھیر لی تھی، کیونکہ ایسے موقع پر بندہ غور سے نہیں دیکھ سکتا ، اس لیے انہیں ایسا لگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبلے کی طرف پیٹھ کیے ہوئے تشریف فرما تھے ، حالانکہ ایسا نہیں تھا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبلے سے کچھ مڑکر تشریف فرما تھے ۔ اس کے علاوہ بھی اس کے جوابات ہیں ، جو نیچے دلائل میں ذکر کیے گئے ہیں ۔ نیز قبلے کو رخ یا پیٹھ منع ہونے کی وجہ علمائے کرام یہ بیان فرماتے ہیں کہ اس میں قبلے کی تعظیم ہے ، جیسے قبلے کی طرف تھوکنا یا پاؤں پھیلانا قبلے کی تعظیم کی وجہ سے منع ہے ، چاہے چار دیواری میں ہوں یا کھلے میدان میں ہوں ، تو قضائے حاجت کے وقت ایسا کرنا زیادہ سخت منع ہے ۔ لہٰذا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان اور قبلے کی تعظیم کی وجہ سے احناف کا موقف یہی ہے کہ پیشاب وغیرہ کرتے وقت قبلے کو رخ یا پیٹھ کرنا ، ناجائز و گناہ ہے اور یہی موقف امام مجاہد ، امام نخعی ، امام سفیان ثَوری اور شوافع میں سے ابو ثور رحمۃ اللہ علیہم کا ہے اور ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی موقف ہے ۔

   قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی جانب منہ یا پیٹھ کرنا مکروہِ تحریمی و گناہ ہے ۔ چنانچہ کتبِ ستہ میں حضرتِ سیِّدُنا ابو ایوب انصاری  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:”اذا اتى احدكم الغائط فلا يستقبل القبلة ولا يولها ظهرَه ، شرّقوا او غرّبوا  “ترجمہ:جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لیے جائے ، تو قبلہ کی طرف نہ منہ کرے اور نہ پیٹھ کرے،مشرق یامغرب کو منہ کرے ۔ (صحیح البخاری ، کتاب الوضوء ، باب لا تستقبل القبلة بغائط او بول ... ، ج1 ، ص26 ، مطبوعہ کراچی)

   دوسری روایت میں حضرت  سیّدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ”ان النبی صلى اللہ عليه وسلم قال : اذا اتيتم الغائط فلا تستقبلوا القبلة ولا تستدبروها ولكن شرقوا او غربوا ، قال ابو ايوب : فقدمنا الشام فوجدنا مراحیض بنیت قبل القبلۃ فننحرف و نستغفر اللہ تعالٰی ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ ، تو قبلہ کی طرف نہ منہ کرو اور نہ پیٹھ کرو،بلکہ مشرق یامغرب کو منہ کرو ۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم ملکِ شام آئے، وہاں استنجاء خانوں کارُخ قبلہ کی جانب پایا،تو ہم قضائے حاجت کے وقت قبلہ سے اپنامنہ پھیر لیتےاور اللہ پاک کی بارگاہ میں استغفار کرتے۔

(صحیح البخاری ، کتاب الصلاۃ ، باب قبلة اهل المدينة واهل الشام ، ج1 ، ص57 ، مطبوعہ کراچی)

اس حدیثِ پاک کی شرح میں مفسرِ شہیر حکیم الاُمت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”یعنی پیشاب پاخانہ کے وقت قبلہ کو منہ یا پیٹھ کرنا حرام ہے۔چونکہ مدینہ منورہ  میں قبلہ جانبِ جنوب ہے اور شام یعنی بیت المقدس جانبِ شمال،وہاں کے لحاظ سےفرمایا گیا کہ شرق یاغرب کو منہ کرلو۔چونکہ ہمارے ہاں قبلہ جانبِ مغرب ہے، لہذا ہم لوگ جنوب یا شمال کو منہ کریں گے۔خیال رہے کہ اس حدیث میں جنگل یا آبادی کی کوئی قید نہیں،بہرحال کعبہ کو منہ یا پیٹھ کرکے استنجا کرنا حرام ہے۔حنفیوں کا یہی مذہب ہے۔“(مراٰۃ المناجیح،ج1،ص241،مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ، لاھور)

   شارحِ بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”احناف کا مسلک یہ ہے کہ قضاءِ حاجت کے وقت قبلہ کی جانب منہ  کرنا یا پیٹھ کرنا،جائز نہیں، خواہ گھر کے اندر ہویا میدان میں اور یہی مذہب راویِ حدیث حضرت ابو ایّوب (رضی اللہ عنہ) اور امام مجاہد اور امام نخعی وسفیان ثوری اور ابو ثور صاحبِ شافعی اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا بھی ہے ، احناف کی مستدَل یہ حدیث ہے اور اس کے علاوہ دوسری حدیثیں بھی ہیں ۔ “ (نزھۃ القاری، کتاب الوضوء، ج1،ص464،مطبوعہ برَکاتی پبلشرز ، کراچی)

   شیخ عبد الحق محدثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : ”  وتمسك الشافعي بحديث ابن عمر رضی اللہ عنہ قال : ارتقيت فوق بيت حفصة لبعض حاجتي فرأيت النبي صلی اللہ علیہ وسلم يقضي حاجته مستدبر القبلة مستقبل الشام ، وأجيب عنه بأنه يحتمل أن يكون ذلك قبل النهي ، ويحتمل أنه قد انحرف عن سمت القبلة شيئا يسير خفي على ابن عمر بل لأنه لم يتعمق في ذلك ولم يكن المقام مقامه ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وأحاديث النهي كثيرة راجحة والاحتياط في ذلك ، ملخصا “ ترجمہ : اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے حصرت سیِّدُنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے دلیل لی ، جس میں انہوں نے فرمایا کہ میں اپنے کسی کام سے امّ المؤمنین حضرت سیدَتُنا حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر چڑھا ، تو میں نے دیکھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر مبارک میں قبلے کی طرف پیٹھ کیے ہوئے اور ملکِ شام کی طرف رخ کیے ہوئے قضائے حاجت فرما رہے ہیں ، اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فعل منع فرمانے سے پہلے کا ہو اور اگر معلوم ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فعل منع فرمانے کے بعد کا ہے ، تو ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانبِ قبلہ سے تھوڑے سے مڑ کر بیٹھے ہوئے تھے ، مگر (حضرت) ابنِ عمر رضی اللہ عنہ اسے محسوس نہ کر سکے، کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ نے غور سے نہیں دیکھا اور یہ موقع بھی غور سے دیکھنے اور تحقیق کرنے کا نہیں تھا ۔۔۔۔ اور منع ہونے کی حدیثیں کثیر اور راجح ہیں (یعنی انہیں ترجیح حاصل ہے) اور اسی میں احتیاط بھی ہے (لہٰذا اسی پر عمل کرنا چاہیے)۔(لمعات التنقیح ، ج2 ، ص60۔62 ، مطبوعہ دار النوادر)

   پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلے کی طرف رخ یا پیٹھ کرنا مکروہِ تحریمی ہے ، اگرچہ چار دیواری کے اندر ہوں اور بھول کر بیٹھ جانے کی صورت میں یاد آتے ہی قبلے سے پھر جانے والے کے لیے مغفرت کی امید ہے ۔چنانچہ تنویر الابصار و در مختار میں ہے : ”(کرہ) تحریما (استقبال قبلۃ و استدبارھا ل) اجل (بول او غائط) ۔۔۔ (ولو فی بنیان) لاطلاق النھی (فان جلس مستقبلا لھا) غافلا (ثم ذکرہ انحرف) ندبا لحدیث الطبری : ”من جلس یبول قُبالۃ القبلۃ فذکرھا فانحرف عنھا اِجلالا لھا لم یقم من مجلسہ حتی یغفر لہ“ (ان امکنہ و الا فلا) باس، ملخصا “ ترجمہ : پیشاب پاخانہ کے لیے قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرنا مکروہِ تحریمی ہے ، اگرچہ چار دیواری میں ہو ، ممانعت کے مطلق ہونے کی وجہ سے ۔ تو اگر بھولے سے قبلہ رخ بیٹھ گیا ، پھر یاد آیا ، اگر رخ پھیرنا ممکن ہو ، تو مستحب ہے کہ پھیر لے ، طبری کی روایت کی گئی اس حدیث کی وجہ سے کہ جو قبلہ رخ پیشاب کرنے بیٹھا ، پھر یاد آنے پر قبلے کی تعظیم کے لیے رخ پھیر لیا ، اس کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے اس کے گناہ بخش دیے جائیں گےاور اگر رخ پھیرنا ممکن نہ ہو ، تو کوئی حرج نہیں ۔

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”پاخانہ یا پیشاب پھرتے وقت یا طہارت کرنے میں نہ قِبلہ کی طرف مونھ ہو،نہ پیٹھ اور یہ حکم عام ہے ، چاہے مکان کے اندر ہو یا میدان میں اور اگر بھول کر قِبلہ کی طرف مونھ یا پُشت کر کے بیٹھ گیا ، تو یاد آتے ہی فوراً رُخ بدل دے ، اِس میں امید ہے کہ فوراً اس کے لیے مغفرت فرما دی جائے ۔ “ (بھارِ شریعت، حصہ 2،ج1،ص408، مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ ، کراچی)

   قبلے کو رخ یا پیٹھ ہونے میں  قبلے کی جہت یعنی 45 ڈگری کے اندر ہونا بھی داخل ہے ۔ چنانچہ علامہ سیِّد ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ تنویر الابصار کی عبارت کے تحت فرماتے ہیں : ”قولہ (استقبال قبلۃ) ای : جھتھا کما فی الصلاۃ “ ترجمہ : مصنف رحمۃ اللہ علیہ کا قول (قبلہ رخ) یعنی قبلے کی جہت جیسے نماز میں ۔ (رد المحتار علی الدر المختار ، ج1 ، ص608،609 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ”پاخانہ پیشاب کے وقت قبلہ معظمہ کا استقبال و استدبار دونوں ناجائز ہیں ۔۔۔ ہر جہت کا حکم اس کے دونوں پہلوؤں میں 45 ، 45 درجے تک رہتا ہے ، جس طرح نماز میں استقبالِ قبلہ ۔ ملخصا (فتاوٰی رضویہ ، ج04 ، ص608 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   استنجا اور قضائے حاجت کے وقت بہتر یہ ہے کہ قبلے سے دائیں یا بائیں رخ یعنی 90 ڈگری کے زاویے پر بیٹھیں تاکہ قبلے کو رخ یا پیٹھ ہونے کا امکان ہی نہ رہے ۔ چنانچہ غنیۃ المستملی میں ہے : ”و من الآداب ان یجلس ۔۔ متوجھا (الی یمین القبلۃ والی یسارھا) کیلا یستقبل القبلۃ او یستدبرھا ۔۔۔ فاستقبالھا او استدبارھا ۔۔۔ حالۃ البول او التغوط مکروہ کراھۃ تحریم ‘‘ملخصا  ترجمہ : ادب یہ ہے کہ قبلے سے دائیں اور بائیں طرف رخ کر کے بیٹھے تاکہ قبلے کو رخ یا پیٹھ نہ ہو ، کیونکہ پیشاب پاخانہ کرنے کی حالت میں قبلے کو رخ یا پیٹھ کرنا مکروہِ تحریمی ہے ۔       (غنیۃ المستملی شرح الحلبی الکبیری ، ص25 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   شیخِ طریقت امیرِ اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ اپنی تصنیف نماز کے احکام میں فرماتے ہیں : ”اپنے گھر وغیرہ کے ڈبلیو سی (W.C.) اور فوّارے (SHOWER) کا رخ پَرکار یا کسی آلے کے ذریعے معلوم کر کے دیکھ لیجیے ، اگر غلط ہو ، تو اس کی اصلاح فرما لیجیے ۔ زیادہ احتیاط اس میں ہے کہ W.C. قبلہ سے 90 کے درجے پر یعنی نماز پڑھنے میں سلام پھیرنے کے رخ کر دیجیے۔مِعمار عموما تعمیراتی سہولت اور خوبصورتی کا لحاظ کرتے ہیں ، آدابِ قبلہ کی پرواہ نہیں کرتے ۔ مسلمانوں کو مکان کی غیر واجبی بہتری کے بجائے آخِرت کی حقیقی بہتری پر نظر رکھنی چاہیے ۔ (نماز کے احکام ، ص114 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم