ہونٹوں سے اترنے والی پپڑی پانی میں گر جائے تو کیا حکم ہے؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

فتوی نمبر:Nor-7741

تاریخ اجراء:18جمادی الاولی 1438ھ/16فروری2017ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ بہارِشریعت میں ہے :’’آدمی کی کھال اگرچہ ناخن برابر تھوڑے پانی  میں پڑ جائے، وہ پانی ناپاک ہوگیا۔‘‘سوال یہ ہے  کہ سردی میں ہونٹوں پر  خشک کھال اور چہرے پر سے باریک باریک اجزا  نکلتے ہیں، یہ اگر پانی میں گر جائیں ، تو بھی پانی ناپاک ہوجائے گا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    فقہائے کرام نے جہاں آدمی کی کھال کا مسئلہ بیان کیا ہے، ہونٹوں سے اترنے والی پپڑی بھی اسی حکم میں  شامل کی ہے، جیسا کہ حاشیہ چلپی میں اس کی صراحت موجود ہے کہ ہونٹوں سے اترنے والی پپڑی پر بھی یہی حکم لگے گا، لیکن فقہائے کرام نے یہاں ناپاکی کو دو شرائط کے ساتھ مقید رکھا ہے ۔

    پہلی شرط : اس طرح کی کھال جب انسانی ناخن  کے برابر یا زیادہ ہو تب ہی قلیل پانی میں گرنے سے وہ پانی ناپاک ہوگا اور یہ شرط تقریباً تمام ہی فقہاء نے بیان کی ہے۔

    دوسری شرط:یہ ہے کہ جس طرح دباغت سے عام کھال بھی پاک ہو جاتی ہے ، ناپاک نہیں رہتی کہ اس میں ناپاک رطوبت ختم ہو جاتی ہے ، اسی طرح پپڑی کا معاملہ ہے،چاہے ہونٹوں سے اترنے والی ہویا چہرے سے یا خشکی وغیرہ کے سبب جسم کے کسی اور حصے سے اترنے والی پپڑی ، اس طرح کی ہو کہ وہ بالکل خشک ہو چکی ہو ، اس میں اصلاً رطوبت نہ ہو، تو وہ ناپاک نہیں ہو گی اور اگر رطوبت پائی گئی، تو ناپاک کہلائے گی ۔ یہاں رطوبت سے مراد پانی وغیرہ سے گیلا ہونے کے سبب پائی جانے والے رطوبت نہیں ہے، بلکہ وہ رطوبت مراد ہے جس میں  حیات کی علامت ہوتی ہے اور کھال کی اپنی رطوبت ہوتی ہے۔

    کھال کی پپڑی اگر ناخن کے برابر یا زیادہ ہو اور پانی میں گر جائے، تو  اس (شرط اول) کی تفصیل درج ذیل جزئیہ میں موجود ہے ۔

    چنانچہ حاشیہ چلپی میں ہے:’’قال الولوالجي رحمه اللہ   جلد الإنسان إذا وقع في الإناء أو قشره إن كان قليلا مثل ما يتناثر من شقوق الرجل وما أشبهه لا تفسد وإن كان كثيرا تفسد ومقدار الظفر كثير ، لأن هذه من جملة لحم الآدمي ولو وقع الظفر في الماء لا يفسده اهـ. قال قاضي خان جلد الآدمي أو لحمه إذا وقع في الماء إن كان مقدار الظفر يفسده، وإن كان دونه لا يفسده‘‘ یعنی:امام ولوالجی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:انسان کی کھال یا پپڑی مثلا: پاؤں کی ایڑیوں سے جو اترتی ہےیا  جو اس کے مشابہ ہو، جب یہ برتن میں گر جائےتو پانی ناپاک نہیں ہوگا، جبکہ قلیل ہو اور اگر کثیر ہو تو پانی ناپاک ہوجائے گا۔کیونکہ یہ انسان کے گوشت کے حکم ہےاور اگر ناخن پانی میں گر جائے، تو پانی نا پاک نہیں ہوگا۔امام قاضی خان رحمۃ للہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ناخن کی مقدار انسان کی کھال یا گوشت اگر پانی میں گر جائے تو پانی ناپاک ہوجائے گا،اور اگر اس سے کم ہو تو ناپاک نہیں ہوگا ۔

 (حاشیہ چلپی معہ تبیین الحقائق ،جلد1،صفحہ29،مطبوعہ ملتان)

    بہارِشریعت میں جو مسئلہ مذکور ہے ،یہ منیۃ المصلی میں بھی  ہے اور شارح منیۃ المصلی ابن امیرحاج رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے کثیر کھال (ناخن کی مقدار )کو ترہونے  کے ساتھ  مقید کیا  ہے،چنانچہ منیۃ المصلی میں ہے:’’جلد الآدمی اذا وقع مقدار ظفر فی الماء یفسد الماء کلہ‘‘یعنی آدمی کی ناخن کے برابر کھال جب پانی میں گر جائے، تو سارا پانی ناپاک ہوجائے گا۔

   (منیۃ المصلی ،صفحہ108،مطبوعہ ضیاء القرآن)

    البتہ شارح منیہ نے اس مسئلے کو مقید کیا ہے تر ہونے کے ساتھ یعنی ناخن سے زیادہ کھال اسی وقت قلیل پانی کو ناپاک کرے گی کہ جب تر ہو۔ اگر خشک ہو، جیسا کہ عام طور پر ہونٹوں سے اترنے والی پپڑی خشک ہی ہوتی ہے، اس میں حیات باقی نہیں ہوتی اور کسی بھی قسم کی کوئی رطوبت نہیں ہوتی۔ شارح منیہ علامہ ابن امیر الحاج حنفی علیہ الرحمۃ  معتمد فقیہ ہیں، محدث سورتی علیہ الرحمۃ کا حاشیہ جس نسخہ پر شائع ہوا ہے اس نسخہ پر بین السطور بھی اس قید کو بیان کیا گیا ہے، جس سے محشی کا اس پر اعتماد کرنا ثابت ہوتا ہے ۔

    اس کے تحت ’’حلبۃ المجلی وبغیۃ المہتدی ‘‘میں ہے:’’في محيط الشيخ رضي الدين تعليلا لفساد الماء بالكثير ، لأن هذا من جملة لحم الآدمي ، وقد بان من الحي فيكون نجسا إلا أن في القليل تعذر الاحتراز عنه فلم يفسد الماء لأجل الضرورة وفيه قبل هذا قال محمد عصب الميتة وجلدها إذا يبس فوقع في الماء لا يفسده ، لأن باليبس زالت عنه الرطوبة النجسة .ا هـ .ومشى عليه في الملتقط من غير عزو إلى أحد فعلى هذا ينبغي تقييد جلد الآدمي الكثير في هذه المسألة بكونه رطبا ۔‘‘یعنی:شیخ رضی الدین نے محیط میں کثیر (ناخن کی مقدار)کے ساتھ پانی کے ناپاک ہونے کی علت کو بیان کرتے ہوئےلکھاکہ یہ آدمی کے گوشت کے حکم میں ہےاور یہ زندہ سے جداہوئی ہے، لہذا ناپاک ہوگی ،مگر قلیل (ناخن کی مقدار سے کم) تو اس سے بچنا متعذر ہے ،لہذا ضرورت کی وجہ سےقلیل کھال  ناپاک نہیں کرے گی اور اسی میں اس سے پہلے امام محمد علیہ الرحمۃ نے فرمایا: مردار کا پٹھا اور اس کی کھال جب سوکھ جائے اور پانی میں گر جائے تو پانی ناپاک  نہیں ہوگا ،کیونکہ سوکھ جانے کے سبب  ناپاک رطوبت اس سے زائل ہوچکی،اسی پر ملتقط میں چلے کسی کی جانب نسبت کیے بغیر ۔اسی بناء پر مناسب یہ ہے کہ آدمی کی کثیر (ناخن کی مقدار )کھال کوتر ہونے  کے ساتھ مقید کیاجائے۔

( حلبۃ المجلی ٰوبغیۃ المھتدی ،جلد1،صفحہ 430،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم