مجیب: ابو محمد
محمدسرفراز اخترعطاری
مصدق: مفتی فضیل رضا عطاری
فتوی نمبر:
Nor-12244
تاریخ اجراء: 21 ذوالقعدۃ الحرام 1443 ھ/21 جون 2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان
شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ولیمہ کی حیثیت
کیا ہےواجب یا سنت ؟اور یہ کب کرنا چاہیے؟اور یہ کہ
بعد رخصتی اگر ابھی ہمبستری نہ ہوئی ہو، تو ولیمہ
ہو سکتا ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
ولیمہ کرنا سنت مستحبہ ہے،احادیث کریمہ میں
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس کا حکم
فرمایا۔چنانچہ حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی
عنہ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں:”ان عبد الرحمن بن عوف جاء الی رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم و بہ اثر صفرۃ فسالہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم فاخبرہ انہ تزوج امراۃ من الانصار قال کم سقت الیھا قال زنۃ
نواۃ من ذھب قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اولم
ولو بشاۃ“حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی
عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں
حاضر ہوئے اس حال میں کہ ان پر
زعفران کا اثر تھا،پس رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان
سے (وجہ )پوچھی ،تو انہوں نے خبر دی کہ انصار میں سے ایک
عورت سے انہوں نے شادی کر لی ہے، تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم نے پوچھا:اسے کتنا مہر دیا؟عرض کیا:گٹھلی برابر(چھے مثقال)
سونا،رسول اللہ صلی اللہ تعالی
علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ کر اگرچہ ایک بکری
کے ساتھ۔(صحیح
البخاری،ج2،ص280،رقم الحدیث5153،باب الولیمۃ ولو بشاۃ،مطبوعہ
لاھور)
ولیمہ کے سنت مستحبہ ہونے کے بارے میں سیدی
اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’ولیمہ
بعد نکاح سنت ہے،اس میں صیغہ امر بھی وارد ہے،عبد الرحمن بن عوف
رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: ’’اولم ولو بشاۃ‘‘ولیمہ کر
اگرچہ ایک ہی دنبہ یا اگرچہ ایک دنبہ۔دونوں معنی
محتمل ہیں اور اول اظہر،تارکان سنت ہیں،مگر یہ سنن مستحبہ سے
ہے،تارک گناہ گار نہ ہوگا اگر اسے حق جانے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج11،ص278،مطبوعہ
رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
مذکورہ بالا حدیث پاک کے تحت شارحین حدیث
نے ولیمہ کب سنت ہے،اس بارے میں کئی اقوال ذکر کیے ہیں:
(1)دخول کے بعد۔(2)دخول سے پہلے بھی کر سکتے ہیں اور دخول کے
بعد بھی ۔(3)نکاح کے وقت۔(4)نکاح کے وقت بھی کر سکتے ہیں
اور دخول کے بعدبھی۔
عمدۃ القاری میں
ہے :”قولہ:(اولم ولوبشاۃ ) وقد اختلف السلف فی وقتھا:ھل ھو عند العقد اوعقیبہ
؟او عند الد خول او عقیبہ ؟او موسع
من ابتداء العقد
الی انتھاء الدخول ؟علی
اقوال ۔ قال النووی :اختلفو ا ، فقا ل عیاض :ان الاصح
عند المالکیۃ استحبابہ
بعد الدخول ، وعن جماعۃ منھم :انھا عند العقد ،عند ابن حبیب
:عند العقد وبعد الدخول ،وقال فی موضع آخر:یجوز قبل الدخول وبعدہ
،وقال الماوردی :عند الد خول ،وحدیث انس :فاصبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عروسا بزینب فدعی القوم ،صریح
انھا بعد الد خول ،واستحب بعض المالکیۃ ان تکون عند البناء ویقع
الد خول عقیبھا ،وعلیہ عمل الناس ‘‘آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کا قول:(ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری کے ساتھ)اور تحقیق
سلف نے ولیمہ کے وقت کے بارے میں اختلاف کیا کہ:کیا وہ
عقد کے وقت ہے یا اس کے بعد؟یا دخول کے وقت ہے یا اس کے بعد؟یا عقد کی ابتداء سے دخول کی
انتہاء تک گنجائش ہے؟یہ کئی اقوال ہیں۔امام نووی علیہ
الرحمۃ نے فرمایا:علماء نے (ولیمہ کے وقت کے بارے میں
اختلاف کیا)،پس قاضی عیاض علیہ الرحمۃ نے فرمایا:بے
شک مالکیہ کےنزدیک زیادہ
صحیح، ولیمہ کا دخول کے بعد مستحب ہونا ہے،اور انہی کی ایک
جماعت سے(مروی) ہے:کہ وہ عقد کے وقت ہے،ابن حبیب کے نزدیک :عقد
کے وقت اور دخول کے بعد (اس کا وقت ہے)،اور ایک دوسری جگہ فرمایا:
دخول سے پہلے اور بعد ولیمہ ہو سکتا ہے،اور ماوردی نے فرمایا:دخول
کے وقت اور حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث:’’رسول
اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی
اللہ تعالی عنہا سے شادی کے بعد صبح کی تو قوم کو (ولیمہ
کی)دعوت دی۔‘‘ اس بات میں صریح ہے کہ ولیمہ
دخول کے بعد تھا،اور بعض مالکیہ نے مستحب قرار دیا کہ ولیمہ
دخول کے وقت ہو اور دخول ولیمہ کے بعد واقع ہو اور اسی پر لوگوں کا
عمل ہے۔(عمدۃ
القاری ،ج20،ص 204 ،مطبوعہ کوئٹہ )
ارشادی الساری میں ہے:’’واختلف فی وقت الولیمۃ فقال ابن الحاجب
من المالکیۃ انہ بعد البناء قال الشیخ خلیل فی
التوضیح:ھو ظاھر المذھب واستحبھا بعض الشیوخ قبل البناء۔قال
اللخمی و واسع قبلہ و بعدہ و قال ابن یونس:یستحب الاطعام عند
عقد النکاح و عند البناء و صرح الماوردی من الشافعیۃبانھا عند
الدخول و حدیث الباب صریح فی انھا بعدہ لقولہ فیہ اصبح
عروساً بزینب فدعا القوم،ملخصا‘‘اور ولیمہ
کے وقت کے بارے میں اختلاف ہے،پس
مالکیہ میں سے ابن حاجب نے فرمایا:کہ ولیمہ دخول کے بعد
(سنت) ہے،شیخ خلیل نے توضیح میں فرمایا:یہی
ظاہر مذہب ہے اور بعض شیوخ نے دخول سے پہلے ولیمہ کو مستحب قرار دیا
ہے۔لخمی نے فرمایا:اور دخول سے پہلے اور بعد دونوں صورتوں میں
گنجائش ہے اور ابن یونس نے فرمایا:نکاح کے وقت اور دخول کے وقت کھانا
کھلانا مستحب ہے اور شوافع میں سے ماوردی نے صراحت کی کہ ولیمہ
دخول کے بعد (سنت) ہے اور باب کی حدیث اس بات میں صریح
ہے کہ(رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا) ولیمہ دخول
کے بعد تھا ،راوی کے حدیث میں ان الفاظ کی وجہ سے :رسول
اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی
اللہ تعالی عنہا سے شادی کے بعد صبح کی تو قوم کو (ولیمہ
کی)دعوت دی۔(ارشاد الساری ،ج11،ص445،مطبوعہ دار
الکتب العلمیہ ،بیروت)
شارحین حدیث کے ذکر کردہ مذکورہ بالا چار اقوال
میں سے پہلا قول حدیث و فقہ دونوں کے اعتبار سے راجح ہے۔
اولاً اس
لیے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا
ولیمہ بعد دخول ہوا، کئی معتمد شارحینِ حدیث نے نبی
کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے متعلق یہی
بیان کیا کہ آپ کا ولیمہ بعدِ دخول ہوا۔
عمدۃ القاری میں ہے:”عن بیان قال:سمعت انساً یقول:بنی النبی
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بامراۃ فارسلنی فدعوت
رجالاً الی الطعام“حضرت
بیان علیہ الرحمۃ سے مروی ہے ،انہوں نے فرمایا:میں
نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:نبی
کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک عورت سے دخول
فرمایا، تو مجھے بھیجاپس میں نے لوگوں کو(ولیمہ کے) کھانے
کی طرف بلایا۔
اس کے تحت علامہ بدر الدین عینی
علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’:قولہ :(بنی النبی
صلی اللہ علیہ وسلم ) من
البناء وھو الدخول بزوجتہ ،وقد ذکر غیر مرۃ ۔قولہ :(بامراۃ
) ھی زینب بنت جحش ‘‘حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کا
قول:(نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دخول
فرمایا)یہ بناء سے نکلا ہے اور وہ (آدمی کے )اپنی بیوی
کے ساتھ دخول کو کہتے ہیں اور یہ بات کئی مرتبہ مذکور ہوئی۔ان
کا قول:(ایک عورت کے ساتھ)وہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی
عنہا تھیں۔(عمدۃ القاری
،ج20،ص219،مطبوعہ کوئٹہ )
عمدۃ القاری میں
ہے :’’وحدیث انس :فاصبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عروسا بزینب فدعی القوم ‘‘صریح
انھا بعد الد خول‘‘اور حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث:’’رسول
اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی
اللہ تعالی عنہا سے شادی کے بعد صبح کی تو قوم کو (ولیمہ
کی)دعوت دی‘‘ اس بات میں صریح ہے کہ ولیمہ دخول کے
بعد تھا۔(عمدۃ
القاری ،ج20،ص 204،مطبوعہ کوئٹہ )
فتح الباری باب الولیمۃ میں عبد الرحمن
بن عوف رضی اللہ عنہ والی روایت کے تحت ہے :’’قولہ:(وقال عبد الرحمن
بن عوف قال لی النبی صلی اللہ علیہ وسلم
:اولم ولوبشاۃ) قال : والمنقول من
فعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم
انھا بعد الد خول کانہ یشیرالی قصۃ زینب بنت جحش ،حدیث انس
فی ھذا الباب صریح فی انھا بعد الدخول لقولہ فیہ (اصبح عروسا
بزینب فدعا القوم )۔ملخصا‘‘ان
کا قول:(اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:مجھے
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
ولیمہ کر اگرچہ ایک بکری کے ساتھ)فرمایا:اور نبی کریم
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے فعل سے ولیمہ کا دخول کے بعد
ہونا منقول ہے گویا کہ وہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی
عنہا کے واقعہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، اور حضرت انس رضی اللہ
تعالی عنہ کی حدیث اس بات میں صریح ہے کہ ولیمہ
دخول کے بعد تھا ،ان کے حدیث میں ان الفاظ کی وجہ سے (رسول اللہ
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ
تعالی عنہا سے شادی کے بعد صبح کی تو قوم کو (ولیمہ کی)دعوت
دی۔
(فتح الباری ،ج9،ص287،مطبوعہ کراچی )
ارشاد الساری شرح صحیح
البخاری میں ہے :’’ وحدیث الباب صریح فی انھا بعدہ لقولہ فیہ اصبح
عروسا بزینب فدعا القوم‘‘ اور
باب کی حدیث اس بات میں صریح ہے کہ ولیمہ دخول کے
بعد تھا،ان کے حدیث میں ان الفاظ کی وجہ سے :رسول اللہ صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ تعالی
عنہا سے شادی کے بعد صبح کی تو قوم کو (ولیمہ کی)دعوت دی۔(ارشاد الساری
،ج11،ص445،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)
شرح مسلم للنووی میں
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہاسے نکاح والی روایت
کے تحت علامہ نووی شافعی علیہ
الرحمۃ فرماتےہیں :’’ فیہ دلیل
لولیمۃ العرس وانھا بعد الدخول ۔ملخصا‘‘اس
حدیث میں شادی کے ولیمہ کی دلیل ہے اور یہ
کہ وہ دخول کے بعد تھا۔(المنھاج علی المسلم ،ج1،ص459،مطبوعہ
کراچی )
مشکوۃ المصابیح میں ہے :’’قال رسو ل اللہ صلی
اللہ علیہ والہ وسلم طعام اول یوم حق وطعام یوم الثانی سنۃ
وطعام یوم الثالث سمعۃ ومن سمع سمع اللہ بہ ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ
والہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے دن
کاکھانا حق ہے، دوسر ے دن کاسنت ہے اور تیسرے
دن کاکھا نا نام ونمود ہے، جو سنانا چاہے
گا، اللہ اسے سنا دے گا۔(مشکوۃ المصابیح ،ج2،ص591،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)
اس حدیث پاک کے تحت
مفتی احمد یا ر خان نعیمی علیہ الرحمۃ فرماتے
ہیں:’’اس جملےکے کئی معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ
کہ پہلے دن سے مراد شادی وبارات کادن ہے اور حق سے مراد مستحق ہے یعنی
بارات والے دن کاکھانا مہمانو ں کاحق ہے،
جوشرکت بارات کےلیے آئے ہیں اور دوسرے دن یعنی زفاف کے
بعد ولیمہ کاکھانا سنت ہے مؤکدہ یا
مستحبہ اس صورت میں حدیث بالکل واضح ہے ،دوسرے یہ کہ پہلے
دن سے مراد زفاف کے بعد کادن ہے اور دوسرے
دن سے مراداس دن کے بعد کادن یعنی زفاف سے سویرے دعوت ولیمہ حق درست ہے اور دوسرے دن کاکھانا
بھی سنت ہے یعنی بدعت یاخلاف سنت نہیں تیسرے یہ کہ زفاف کے سویرے
کھانا دینا فرض یاواجب ہے جس
میں بلاوجہ شرکت نہ کرنا گناہ دوسرے
دن کا بھی کھانا سنت ہے۔ یہ تیسر ے معنی ان کے مذہب
پرہیں جو ولیمہ کوواجب کہتے ہیں۔فقیر کے نزدیک پہلے
معنی زیادہ قوی
ہیں ،چوتھے یہ کہ زفاف کے سویرے ولیمہ کاکھانا
دینا برحق ہے، لیکن اگر کسی وجہ سے اس دن نہ دے سکے، تو دوسرے
دن دے دینا بھی سنت ولیمہ
میں شامل ہے یعنی مسلسل
تین دن تک کھانا دینا
محض نام نمود ہے ،ثواب نہیں یازفاف
کے تیسرے دن کھانادیناسنت نہیں صرف نام ونمود ہے ۔‘‘(مراۃ المناجیح
،ج5،ص 101، مطبوعہ لاھور)
اشکال:امام بیہقی
علیہ الرحمۃ نے تو نبی کریم صلی اللہ تعالی
علیہ وسلم کا ولیمہ قبل دخول
ہونا بیان کیا ہے ۔چنانچہ عمدۃ القاری میں
ہے:’’وقا
ل البیھقی :کان دخولہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد ھذہ الولیمہ‘‘اور
امام بیہقی علیہ الرحمۃ نے فرمایا:نبی کریم
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا دخول اس ولیمہ کے بعد تھا۔
(عمدۃ القاری
،ج20،ص214،مطبوعہ کوئٹہ )
جواب :امام بیہقی کایہ موقف حضرت زینب
بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا کے ولیمہ کے بارے میں ہے۔چنانچہ
عمدۃ
القاری کے باب الھد یۃ
للعروس کے
تحت حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا سے
نکاح والی روایت کوذکر فرمایا:’’عن ابی عثمان عن انس بن مالک قال: مر بنا فی مسجد بنی رفاعۃ فسمعتہ
یقول : کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم : اذا مر
بجنبات ام سلیم دخل علیھا
فسلم علیھا، ثم قال : کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم عروسا
بز ینب فقالت لی ام سلیم۔۔۔۔الخ
‘‘حضرت
ابو عثمان سے روایت ہے،وہ حضرت انس
بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں:حضرت
انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ مسجد بنی رفاعہ میں ہمارے
پاس سے گزرے، تو میں نےانہیں یہ فرماتے ہوئے سنا:نبی کریم
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جب ام سلیم کے صحن سے گزرے، تو
انہیں سلام کیا ،پھر حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:نبی
کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی
اللہ تعالی عنہا سے شادی کی ،تو مجھے ام سلیم نے کہا ۔۔۔الخ
اور
اسی روایت کے تحت شرح میں علامہ عینی
نے فرمایا :’’قو
لہ :(عروسا بزینب ) وقد مر غیر
مرۃ ان العروس یشمل الذکر والانثی،وزینب بنت جحش الاسدیۃ ام المؤمنین
،تزوجھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنۃ ثلاث ۔۔۔الخ ۔وفیہ
فوائد۔۔۔۔۔:الثالثۃ :اتخاذ الولیمۃ
فی العرس قا ل ابن العربی بعد
الدخول ،وقا ل البیھقی :کان دخولہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد
ھذہ الولیمۃ ،ملخصا‘‘حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کا
قول:(حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا سے شادی کی)اور
تحقیق کئی مرتبہ گزرا کہ عروس مرد و عورت کو شامل ہے اور حضرت زینب
بنت جحش اسدیہ مومنین کی ماں،نبی کریم صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان سے تیسرے سال شادی کی۔۔۔الخ۔اور
اس میں کئی فوائد ہیں۔۔۔۔تیسرا
فائدہ:شادی میں ولیمہ کرنا ،ابن عربی نے کہا:ولیمہ
دخول کے بعد ہوگا،اور امام بیہقی علیہ الرحمۃنے فرمایا:نبی
کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا دخول اس ولیمہ کے
بعد تھا۔ (عمدۃ
القاری ،ج20،ص212تا214،مطبوعہ کوئٹہ )
اورحضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی
عنہا کے ولیمہ کے بارے میں اوپر جلیل القدر شارحینِ حدیث
علامہ عینی ،علامہ ابن حجر عسقلانی اور صاحب ارشاد الساری
کے حوالے سے گزرا کہ ان کا ولیمہ بعد دخول ہوا تھا ،بلکہ انہوں نے حضرت زینب
رضی اللہ تعالی عنہا کے ولیمہ
والی حدیث کو بعد دخول ولیمہ کے لیے صریح قرار دیا،
لہذا ان واضح تصریحات کے برخلاف صرف امام بیہقی کی طرف
منسوب اس عبارت پر اعتماد نہیں کیا
جا سکتا ۔نیزعمدۃ القاری کے اس مقام کے مطالعہ سے واضح
ہوجاتا ہے کہ علامہ عینی علیہ الرحمۃ نے اس کو اپنے مذہب
کے طور پر بیان نہیں کیا،کیونکہ اس عبارت سے پہلے ابن العربی کا مذہب بعد دخول ولیمہ
بیان کیا ہے اور دونوں قولوں کو صرف نقل کیا ہے ،اپنا مختار بیان
نہیں فرمایا۔چنانچہ پوری عبارت یہ ہے :’’ الثالثۃ :اتخاذ الولیمۃ
فی العرس قا ل ابن العربی بعد
الدخول ،وقا ل البیھقی :کان دخولہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد
ھذہ الولیمۃ‘‘تیسرا فائدہ:شادی میں ولیمہ
کرنا ،ابن عربی نے کہا:ولیمہ دخول کے بعد ہوگا،اور امام بیہقی
علیہ الرحمۃ نے فرمایا:نبی کریم صلی اللہ
تعالی علیہ وسلم کا دخول اس ولیمہ کے بعد تھا۔(عمدۃ القاری ،ج20،ص214،مطبوعہ کوئٹہ )
ثانیاً اس لیے کہ فقہائے احناف نے شروح حدیث
میں مروی ان اقوال میں سے پہلے قول کو اختیار فرمایا
ہے۔ چنانچہ علامہ طحطاوی علیہ الرحمۃ نے بعد دخول والے
قول کو اعتماد کے ساتھ بیان کیا،جبکہ دیگر اقوال کو قیل
کے ساتھ بیان کیا اور قیل کے ساتھ بیان کرنا ضعف کی
علامت ہے۔نیز سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ
نے ایک سے زائد جگہ اسی قول پر اعتماد کیا ہے اور صدرالشریعہ
مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ نے بھی
بہار شریعت میں اسی قول کو لیا۔
حاشیۃ
الطحطاوی علی الدرمیں ہے:’’ولیمۃ العرس تکون بعد
الدخول وقیل عند العقدوقیل عند ھما ابن ملک فی شرح المشارق
عندقولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اولم ولو بشاۃ، ابو
السعود‘‘شادی کا ولیمہ ہمبستری کے
بعد ہوگا اور کہا گیا:نکاح کے وقت اور کہا گیا:دونوں کے وقت،ابن
ملک(نےاس بات کو)مشارق کی شرح میں نبی کریم صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم کے قول "ولیمہ کراگرچہ بکری کے
ذریعے"کے پاس(ذکر کیا)،ابو السعود۔(حا شیۃ الطحطاوی علی الدر،ج4،ص175،مطبوعہ کوئٹہ)
سیدی اعلی
حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’شبِ
زفاف کی صبح کو احبا ب کی دعوت کرناولیمہ ہے ،رخصت سے پہلے جو
دعوت کی جائے ولیمہ نہیں،یونہی بعد رخصت قبل
زفاف(ہمبستری سے پہلے) ۔ ‘‘(فتاوی
رضویہ ،ج11،ص256،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ،لاھور)
سیدی اعلی
حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ایک سوال’’ولیمہ نکاح کی
سنت ہے یازفاف کی اور نابالغ
کانکاح ہو،تو ولیمہ کب اور کس دن کرے ‘‘کے جواب میں فرماتےہیں
کہ :’’ولیمہ زفاف کی سنت ہے اور نابالغ بھی بعد زفاف کے ولیمہ
کرے اور ولیمہ شب زفاف کی صبح
کو کرے ۔‘‘ (احکام شریعت ،ص229،مطبوعہ اکبر بک سیلرز
اردو بازار، لاھور)
صدرالشریعہ مفتی
محمد امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں
:’’دعوت ولیمہ سنت ہے ۔ولیمہ یہ ہے کہ شب زفاف کی
صبح کو اپنے دوست احباب عزیز واقارب
اور محلہ کے لوگوں کی حسب استطاعت ضیافت کرے اور اس کےلیے جانور
ذبح کرنا اور کھاناتیار کرانا ، جائز ہے اور جولوگ بلائے جائیں ان
کوجانا چاہیے کہ ان کاجانا اس کےلیے مسرت کاباعث ہوگا۔‘‘(بھارشریعت
،ج3،ص391،392 ،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی )
سید
ی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن قیل
کے ساتھ نقل کردہ قول کے بارے میں فرماتےہیں :’’عبارت عالمگیری
جو امداد المسلمین میں نقل کی
،اس کے شروع میں لفظ قیل واقع
ہے ،اصل عبارت یوں ہے :’’قیل الشقراق لایوکل والبوم یوکل
‘‘ یہ
لفظ اس قول کے ضعف پر دلیل ہوتا ہے ،اور یہ بتاتا ہے کہ اس کی
طرف بعض گئے ہیں ،اکثر علماءخلاف پر ہیں ۔‘‘ (فتاوی رضویہ
،ج20،ص313،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن
،لاھور)
نیز اختیار و خانیہ میں بعدِ بنا
ولیمہ کا حکم دیا اور لغت و حدیث کے مطابق لفظ
"بنا"وطی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور صاحب اختیار و علامہ قاضی خان نے صرف اسی قول
پر اقتصار فرمایا اورقوانین
رسم الافتاء کے مطابق کئی اقوال میں
سے کسی ایک قول پر اقتصارکرنا دلیل اعتماد ہوتا ہے۔
الاختیار لتعلیل
المختار میں ولیمہ کے بارے میں ہے:’’وھی اذا بنی
الرجل بامراتہ ان ید عو الجیران والاقربا
والاصدقاء ویذبح لھم ویصنع
لھم طعاما‘‘ولیمہ
یہ ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی سے دخول کرے ،تو پڑوسیوں
اور رشتہ داروں اور دوستوں کی دعوت کرے اور ان کے لیے جانور ذبح کرے
اور ان کے لیے کھانا تیار کرے۔(الاختیار
لتعلیل المختار،ج 4،ص188، دارالکتب العلمیہ، بیروت )
خانیہ میں ہے:’’رجل بنی بامراۃ قالوا:ینبغی ان یتخذ ولیمۃ و یدعو
الجیران والاقربا ء والاصدقاء ویصنع
لھم طعاما ویذبح لقولہ علیہ
الصلاۃ والسلام اولم ولو بشاۃ
‘‘ایسا
آدمی جس نے (شادی کے بعد)عورت سے دخول کر لیا،(اس کے متعلق
)علماء نے فرمایا:مناسب ہے کہ ولیمہ کرے اور پڑوسیوں اور رشتہ
داروں اور دوستوں کی دعوت کرے اور ان کے لیے کھانا تیار کرے اور
جانور ذبح کرے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
کے اس ارشاد کی وجہ سے:ولیمہ کر اگرچہ ایک بکری کے ساتھ۔ (خانیہ ،ج3،ص306،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،
بیروت )
عالمگیری میں
ہے :’’وتسمیۃ
العرس سنۃ وفیھا مثوبۃ
عظیمۃ وھی اذا
بنی الرجل بامراتہ انہ ینبغی ان ید عو الجیران والاقربا ء والاصدقاء ویذبح لھم ویصنع لھم طعاما‘‘ دعوت ولیمہ سنت ہے
اور اس میں ثواب عظیم ہے اور
ولیمہ یہ ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی سے دخول
کرے ،تو پڑوسیوں اور رشتہ داروں اور دوستوں کی دعوت کرے اور ان کے لیے
جانور ذبح کرے اور ان کے لیے کھانا تیار کرے۔(عالمگیری
،ج5،ص343،مطبوعہ کوئٹہ )
کئی اقوال میں ایک قول پر اقتصار دلیل
اعتماد ہے ۔چنانچہ ردالمحتار میں طحطاوی علی الدر کے
حوالے سے ہے : ’’الاقتصار علیہ یدل علی اعتمادہ ‘‘ اس قول پر اقتصار کرنااس پر اعتماد کی دلیل ہے۔ (ردالمحتارمع الدرالمختار
،ج10،ص378،مطبوعہ کوئٹہ )
سیدی اعلی حضرت الشاہ اما م احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن
فرماتے ہیں :’’علماء تصریح فرماتے ہیں کہ کسی قول پر
اقتصار کرنا اس کے اعتماد کی دلیل ہے ۔‘‘ ( فتاوی رضویہ ،ج17،ص 254،
رضافاؤنڈیشن ،لاھور )
خانیہ ،عالمگیری اورالاختیار
میں مذکور ’’بنی الرجل بامراتہ ‘‘کے الفاظ وطی کے معنی میں استعمال
ہوتے ہیں۔ چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی علیہ
الرحمۃ اپنی لغت کی کتاب میں اس کا معنی بیان
کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’
ويقولون: بَنَى الرجلُ بامرأته إذا دخلَ بها وأصلُ ذلك أنَّ الرجلَ كان إذا تزوَّج
يُبْنَى له ولأَهله خباءٌ جديد فكثرَ ذلك حتى استُعْمِل في هذا الباب‘‘آدمی جب اپنی بیوی سے دخول کرے تو لوگ
اسے’’بنی الرجل بامراتہ‘‘سے تعبیر کرتے
ہیں اور اس کی اصل یہ ہے کہ آدمی جب شادی کرتا تھا،
تو اس کے لیے اور اس کی بیوی کے لیےنیا خیمہ
لگایا جاتا تھا، تو یہ کثیر ہوگیا اور اس باب میں
استعمال ہونے لگا۔(المزھر فی علوم اللغۃ،جز1،ص334،
مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
علم اللغۃ میں
ہے:’’وبنى الرجل بامرأته‘‘ كانت تستخدم كناية عن دخوله بها؛ لأن الشاب
البدوی كان إذا تزوج يبنی له ولأهله خباء جديدًا ‘‘اور ’’بنی الرجل بامراتہ‘‘کے
الفاظ سےمراد کنایۃً شوہر کا
بیوی سے دخول لیا جاتا تھا، کیونکہ نوجوان دیہاتی
جب شادی کرتا، تو اس کے لیے اور اس کی بیوی کے لیے
نیا خیمہ لگایا جاتا۔(علم اللغۃ،جز1،ص324،مطبوعہ
مصر)
احادیث سے بھی اسی معنی
کی تائید ہوتی ہے۔چنانچہ حدیث پاک ہے:’’غزا نبی من الانبیاء،فقال لقومہ:لا یتبعنی
رجل ملک بضع امراۃ وھو یرید ان یبنی بھا ولم یبن بھا‘‘ انبیاء میں سے کوئی نبی جہاد کے لیے
جانے لگے، تو اپنی قوم سے فرمایا:میرے ساتھ ایسا آدمی
نہ چلے جو کسی عورت سے وطی کا مالک ہوا ہو اور وہ اس سے دخول کرنا
چاہتا ہو اور ابھی تک دخول نہ کیا ہو۔
اس حدیث
پاک کے تحت باب کے الفاظ کی شرح میں
علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمایا:
’’قولہ :(باب من احب البناء)ای بزوجتہ التی
لم یدخل بھا (قبل الغزو)ای اذا حضر الجھاد لیکون فکرہ مجتمعاً
‘‘(باب اس شخص کے بارے میں جسے دخول پسند
ہو )یعنی اپنی اس بیوی سے جس سے اس نے ابھی
تک دخول نہ کیا ہو(جہاد سے پہلے) یعنی جب جہاد کا وقت آجائے
تاکہ اس کی فکر جمع رہے۔(فتح الباری،ج9،ص279،مطبوعہ
کراچی)
امام نووی علیہ الرحمۃ
نے لفظ’’بنی‘‘سے دخول مراد لیا ہے۔حدیث یہ
ہے:’’اولم رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم حین بنی بزینب بنت جحش فاشبع الناس خبزاً و لحماً ‘‘رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم نے جب حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا سے دخول فرمایا
،توولیمہ کیا اور لوگوں کو روٹی اور گوشت سے سیراب کر دیا۔
اس کے
تحت علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ امام نووی سے نقل
کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ والمنقول من فعل
النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم انھا بعد الدخول کانہ یشیر
الی قصۃ زینب بنت جحش و قد ترجم علیہ البیھقی
فی وقت الولیمۃ‘‘اور نبی
کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے فعل سے منقول یہ
ہے کہ ولیمہ دخول کے بعد تھا گویا کہ وہ حضرت زینب بنت جحش رضی
اللہ تعالی عنہا کے واقعہ کی طرف اشارہ کرر ہے ہیں اور تحقیق
امام بیہقی علیہ الرحمۃنے اس پر ولیمہ کے وقت کے
بارے میں ترجمہ قائم کیا ہے۔(فتح الباری،ج9،ص287،مطبوعہ کراچی )
مذکورہ
بالا حدیث کچھ الفاظ کے فرق کے ساتھ عمدۃ القاری میں ذکر
کی گئی اور لفظ’’بنی‘‘سے دخول مراد لیا۔عمدۃ
القاری میں ہے:’’عن بیان
قال:سمعت انساً یقول:بنی النبی صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم بامراۃ فارسلنی فدعوت رجالاً الی الطعام‘‘حضرت بیان سے مروی ہے،انہوں نے
فرمایا:میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ
فرماتے ہوئے سنا:نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
نے ایک عورت سے دخول فرمایا، تو مجھے بھیجا پس میں نے
لوگوں کو کھانے کی طرف بلایا۔
اس کے
تحت علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’قولہ:( بنی النبی صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم) من البناء وھو الدخول بزوجتہ وقد ذکر غیر مرۃ۔قولہ:(بامراۃ)ھی
زینب بنت جحش‘‘ حضرت انس رضی
اللہ تعالی عنہ کا قول:( بنی النبی
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) بناء سے ہے اور وہ اپنی بیوی سے دخول
کو کہتے ہیں اور تحقیق یہ بات کئی مرتبہ مذکور ہوئی۔ان
کا قول (ایک عورت سے)وہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی
عنہا تھیں۔(عمدۃ القاری،ج20،ص219،مطبوعہ کوئٹہ)
مرقاۃ المفا تیح
میں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کے متعلق روایت
ذکر فرمائی:’’و
عنہ،قال: اقام النبی صلی اللہ
علیہ وسلم بین خیبر
والمدینۃ ثلاث لیال یبنی علیہ بصفیۃ ، فد عوت المسلمین الی ولیمتہ ۔۔۔۔رواہ البخاری
‘‘ اورحضرت
انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،انہوں نے فرمایا:نبی
کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے خیبر اور مدینہ
کے درمیان تین راتیں قیام فرمایا آپ پرحضرت صفیہ
رضی اللہ تعالی عنہا کا زفاف کیا جاتا تھا، تو میں نے
مسلمانوں کو آپ کے ولیمہ کی طرف بلایا۔۔۔اس
کو امام بخاری علیہ الرحمۃ نے روایت فرمایا۔
اس
روایت کے تحت شرح میں ہے :’’قولہ:( یبنی علیہ ) علی
بناء المفعول ۔روی انہ بنی بھا صلی اللہ علیہ
وسلم بالصھباء ۔ملخصا‘‘حضرت
انس رضی اللہ تعالی عنہ کا قول:( آپ پرحضرت صفیہ رضی اللہ
تعالی عنہا کا زفاف کیا جاتا تھا)مبنی للمفعول ہے۔روایت
کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ سے
مقام صہباء پر دخول فرمایا۔(مرقاۃ المفاتیح ،ج6،ص337،338،مطبوعہ کو ئٹہ )
مذکورہ بالا روایت کےالفاظ (ثلاث لیال یبنی
علیہ )کامراۃ المناجیح میں یوں ترجمہ کیا گیاہے :’’نبی
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے خیبر اور مدینہ کے درمیان
تین شب قیام فرمایا ،آپ پر حضرت صفیہ کازفاف کیاجاتاتھا۔
(مراۃ
المناجیح ،ج5، ص95،مطبوعہ لاھور)
مذکورہ بالاروایت
کے تحت مراۃ المناجیح میں
ہے :’’یعنی بی بی صفیہ رضی اللہ تعالی
عنہا غزوہ خیبر میں مسلمان ہوئیں حضور صلی اللہ تعالی
علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں
مگر زفاف وہاں خیبر میں نہ ہوا ،بلکہ مدینہ منورہ واپس
ہوتے ہوئے کسی منزل پر ہواوہاں تین دن قیام رہا وہاں ہی
ولیمہ ہوا۔‘‘(مراۃ المناجیح
،ج5،ص95،مطبوعہ لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیادوہاتھ سے مصافحہ کرناسنت ہے؟
عمامہ میں کتنے شملے چھوڑناسنت ہے؟
تلاوت کرنے والےکو سلام کیا جائے تو جواب دے یانہیں؟
کن کن مواقع پر سلام کرنا منع ہے؟
داڑھی کی حد کہاں سے کہاں تک ہے؟
جاتے وقت خدا حافظ کہنا
قبلہ کی طرف ٹانگیں پھیلانا،تُھوکناوغیرہ کیسا؟
عمامے کے کتنے شملے رکھنا سنت ہے اور شملے کا سائز کتنا ہونا چاہیے؟