Taharat Ke Liye Kin Cheezon Ka Dhela Le Sakte Hain ?

طہارت کے لیے کن چیزوں کا ڈھیلا لینا چاہیے ؟

مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری

فتوی نمبر:WAT-2241

تاریخ اجراء: 21جمادی الاول1445 ھ/06دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   طہارت حاصل کرنے کے لیے ڈھیلا  کن کن چیزوں کا لینا چاہیے اور کن چیزوں کا نہیں لینا چاہیے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کنکر، پتھر، پھٹا ہوا کپڑا یہ سب ڈھیلے کے حکم میں ہیں ،ان سے بھی صاف کر لینا بلا کراہت جائز ہے، دیوار سے بھی استنجا سکھا سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ دوسرے کی دیوار نہ ہو،اگر دوسرے کی ملک ہو یا وقف ہو تو اس سے استنجا کرنا مکروہ ہے اور کر لیا تو طہارت ہو جائے گی ،جو مکان اس کے پاس کرایہ پر ہے، اس کی دیوار سے استنجا سکھا سکتا ہے۔ہاں یہ یادرہے کہ ! پرائی دیوار سے استنجے کے ڈھیلے لینا جائز نہیں اگرچہ وہ مکان اس کے کرایہ میں ہو۔

   درج ذیل چیزوں کوڈھلیے کے طورپراستعمال  کرناممنوع ہے:

   (1) جو قابل تعظیم ہو،اسے ڈھیلے کے طورپراستعمال کرناممنوع ہے جیسے انسانوں کے کھانے پینے کی  چیز یاجانوروں کے کھانے کی چیزجیسے گھاس  یاجنات کے کھانے کی چیزجیسے ہڈی وغیرہ ۔اسی طرح  کاغذ وغیرہ۔

   (2)جس چیز کی کوئی قیمت ہو،اگرچہ ایک آدھاروپیہ ہی ہو، اسے بھی ڈھیلے کے طور پر استعمال کرنا ممنوع ہے۔ (البتہ اگر اس چیز کا مقصد ہی استنجاء کے لئے استعمال کرنا ہو، جیسے واش روم کے لئے بنائے جانے والے ٹشو وغیرہ، تو ان کا حکم جدا ہے)۔

   (3) ایسی نرم و  ملائم چیز کہ جس سے صحیح طور پر پاکی حاصل نہ ہو سکے گی، اسے بھی ڈھیلے کے طور پر استعمال کرنا ممنوع ہے جیسے ریشم وغیرہ کسی نرم و ملائم کپڑے  یا چیز سے استنجاء کرنا۔

   (4) ایسی چیز  کو ڈھیلے کے طور پر استعمال کرنا ممنوع ہے کہ جس سے  ضرروزخم ہو جانے کا اندیشہ ہو جیسے  شیشہ، ٹھیکری،پکی اینٹ ،کوئلہ وغیرہ۔

   (5)نجاست والی چیزکواستعمال کرناممنوع ہے جیسے گوبروغیرہ ۔

   (6)جس ڈھیلے سے ایک بار استنجا کر لیا اسے دوبارہ کام میں لانا مکروہ ہے مگر دوسری کروٹ اس کی صاف ہو تو اس سے کر سکتے ہیں۔

   جس چیز میں درج بالا امور میں سے کوئی بھی ممانعت کی وجہ موجود نہ ہو اور وہ طہارت کے قابل ہو، تو ہر اس چیز کو ڈھیلے کے طور پر استعمال کیا جاسکتاہے۔

   بریقہ محمودیہ میں ہے” (ومن المكروهات ۔۔۔والاستنجاء بما له قيمة) ولو أدنى كالخرقة والقطن كما في الدرر ويكره بشيء محترم كخرقة الديباج؛ لأنه ينافي الاحترام (أو وجوب تعظيم من مأكول إنسان) لما فيه من تحقير المال المحترم شرعا (أو دابة) كالحشيش لما فيه من تنجيس الطاهر بلا ضرورة (أو نحوه) من مأكول الجن كالعظم فإنه زاد الجن (أو ضرر لمقعدة كالزجاج أو نجاسة كالروث) لنجاسته؛ لأن النجاسة لا تزيل النجاسة“ترجمہ:جس چیز کی کوئی قیمت ہو اگرچہ ادنی سی ہو، اس سے استنجاء کرنا مکروہ ہے مثلاً کپڑے کا ٹکڑا، روئی جیسا کہ درر میں ہے اور محترم شے کے ساتھ بھی استنجاء کرنا مکروہ ہے مثلاً ریشم کا ٹکڑا کیونکہ یہ احترام کے منافی ہے اور انسانوں کے کھانے کی چیزوں میں سے، جس کی تعظیم واجب ہے، اس سے استنجاء کرنا بھی مکروہ ہے کیونکہ اس میں مال کی حقارت ہے جبکہ شرعاً وہ محترم ہے ،یونہی جانوروں کے کھانے کی چیزوں میں سے جو واجب التعظیم ہو، اس سے استنجاء مکروہ ہے مثلاً گھاس کیونکہ اس میں بلا ضرورت پاک شے کو ناپاک کرنا ہے ،یا اس کے مثل جنوں کے کھانوں کی چیز مثلاً ہڈی سے استنجاء مکروہ ہے کیونکہ وہ جنوں کی خوراک ہے ،یا جو چیز مقعد کو ضرر دے مثلاً شیشہ یا نجاست مثلاً گوبر اس سے بھی استنجاء مکروہ ہے کیونکہ یہ نجس ہے اور نجاست ، نجاست کو زائل نہیں کرتی۔(بریقہ محمودیہ،ج 4،ص 115، مطبعة الحلبي)

   در مختار میں ہے” (وكره)۔۔۔بحجر استنجي به إلا بحرف آخر“ترجمہ:جس پتھر سے استنجاء کر لیا گیا،دوبارہ اسی سے استنجاء مکروہ ہے ،ہاں اس کی دوسری جانب سے مکروہ نہیں۔(الدر المختار مع رد المحتار،ج 1،ص 340،دار الفکر، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم