مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Fsd-8576
تاریخ اجراء:05ربیع الاخر 1445ھ/21 اکتوبر 2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں
علمائے دین و مفتیان شرع متین
اس مسئلےکےبارے میں کہ سادگی کی شرعی
اعتبار سے کیا تعریف ہے؟کھانے
پینے،پہننے،مکان، گاڑی،
سامان، وغیرہ جملہ
اُمور میں سادگی کی تفصیل کیا
ہے؟
نیز کیا
ہر حال میں سادگی ہی سنت ہے یا
اس کے علاوہ بھی سنت ہے،مثلاً:
عید کے موقع پر اچھے کپڑے پہننا یا وُفود کی
آمد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ
وسلم کا بہت مہنگا لباس پہننا سادگی کی تعریف
میں آئے گا یا یہ کہا جائے گا کہ ایسے مواقع پر سادگی
کے علاوہ دوسرا طریقہ سنت ہے؟ شرعی رہنمائی کر دیجیے۔
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
دینِ
اسلام میں سادگی مطلوب و پسندیدہ ہے، نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور سلف صالحین
نے سادگی کو اختیار فرمایا اور
اسی کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔
البتہ
یہ ذہن میں رہے کہ پھٹے،پرانے اور پراگندہ کپڑے پہننے، میلا کچیلا رہنے یا سرے سے بےگھر ہو جانے کا نام سادگی نہیں ۔ احادیثِ طیبہ اور عبارات ِ فقہاء و علماء سے سادگی کا
جو مفہوم نکلتا ہے، وہ
یہ ہے کہ زندگی كے معاملات یعنی
کھانے ، پینے ،پہننے ،برتنے اور رہن سہن وغیرہا میں
بے جا تکلفات اور اسراف سے بچنے کا نام سادگی ہے، جبکہ کنجوسی کی حد تک نہ پہنچ
جائے۔مثلاً:یہ
عادت کہ اکثر اوقات
لباس میں نئے لباس کو ہی ترجیحاً پہننا اور دو چار بار پہننے کے بعد نیا لباس لے لینا ، بے
جا تکلف اور سادگی کے منافی عمل ہے
۔یونہی غذا میں بھی اکثر اوقات مرغن و عمدہ غذائیں کھانا اور سادہ کھانے کو ناپسند جاننا، بےجا تکلف اور سادگی کے
مخالف ہے،وعلی ھذا القیاس،
یہی حکم رہن،سہن
،سواری
اور برتنے
کے سامان وغیرہ میں ہو
گا۔
دوسری طرف
یہ پہلو بھی توجہ
طلب ہے کہ ان معاملات میں
ایسی کمی کرنا کہ لوگوں کی طرف سے انگلیاں
اٹھیں کہ
کتنی نکمی حالت
بنا رکھی ہے ،یہ سادگی نہیں،بلکہ کنجوسی ہے، جیسے مال و
دولت ہونے کے باوجود ہر وقت
ایسی حالت میں رہنا کہ غربت و فقیری چھلکے،اپنی
جائز ضروریات کو
بھی اچھے طریقے
سے پورا نہ کرنا،اپنے اہل و عیال پر خرچ نہ کرنا اور اِنہیں محتاجوں والی حالت پر چھوڑے رکھنا۔یہ
حالت بخل و کنجوسی
میں شامل ہے اور ناپسندیدہ ہے،لہٰذا دونوں جانب اعتدال
اور میانہ روی کو اختیار کرناہی بہترین
طریقہ ہے۔
مزید یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ
تکلف کا اعتبار اور معیار
زمانے ،طبقے اور علاقے کے اعتبار سے مختلف ہو سکتا ہے،کیونکہ
ممکن ہے کہ ایک چیز ایک طبقے یا شخص یا
علاقے والوں کے لیے بہت
زیادہ پُرتکلف ہو،لیکن دوسرے کے لیے
اس کی مالی حیثیت
کے لحاظ سے سادہ
ہو،لہٰذا جس کی جیسی
حیثیت ہے یا وہ جس ماحول میں ہے ،اس کے لیے سادگی
کا معیار بھی اسی لحاظ سے ہوگا،جیسے
ہوسکتا ہے کہ ایک چیز
فقیر کے حق میں اِسراف ہو جبکہ بادشاہ کے حق میں وہی بخل قرار پائے ۔
اب جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا ہر حالت میں سادگی اپنانا سنت ہےیا بعض خاص مواقع پرمہنگے،
قیمتی لباس پہننا،وغیرہ
بھی سنت اور مطلوبِ شرع ہیں؟تو اس کا جواب
یہ ہے کہ عمومی اور اکثر
حالات میں سادگی اپنانا حضور علیہ الصلاۃ و السلام کی
سنت ہے،البتہ کچھ خاص مواقع ، مثلاً: جمعہ، عیدین، و دیگر اہم مواقع پر یا کبھی کبھار اظہارِ نعمتِ خداوندی کے
لیے قیمتی لباس پہننا
،قیمتی غذائیں کھانا اوردیگر قیمتی چیزیں
برتنا، شرعاًمستحسن
اور اچھا عمل ہے،جبکہ تکبر
وشہرت سے پاک ہو۔ حضور
سیدِ دوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مبارک، مقدس معمول یہی تھا، چنانچہ جب مختلف علاقوں کے وُفود بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں
حاضر ہوتے ،تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بسا
اوقات خود بھی وفد کے آنے پر نہایت ہی قیمتی
لباس زیب تن فرما تے اور اپنے قریبی اصحاب ِ کرام
علیہم الرضوان کو
بھی حکم دیتے تھے،پھر ان مہمانوں کو اچھے سے اچھے مکانات
میں ٹھہراتے اور ان لوگوں
کی مہمان نوازی
اور خاطر مدارات کا خاص طورپرخیال فرماتے تھے۔
مذکورہ بالا تمام احکام پر دلائل یہ ہیں:
سادہ لباس
کی فضیلت بیان
کرتے ہوئے رسول پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا:”ومن ترك لبس ثوب
جمال وهو يقدر عليه،قال بشر:احسبه،قال:تواضعا،كساه
اللہ حلة الكرامة “یعنی
جو باوجودِ قدرت عمدہ کپڑے پہننا تواضع(عاجزی)کے طور پر چھوڑ دے گااللہ پاک اس کو کرامت کا حُلّہ (یعنی
جنّتی لباس) پہنائے
گا۔(سنن ابی
داؤد ،کتاب الادب، جلد 2، صفحہ316 ، مطبوعہ لاھور)
دوسری حدیث پاک میں ہے:’’عن
أبي أمامة،قال:ذكر أصحاب رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم
يوما عنده الدنيا،فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم:ألا تسمعون،ألا تسمعون ،إن البذاذة
من الايمان، إن البذاذة
من الايمان“ترجمہ:حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہ بیان کرتے
ہیں کہ ایک دن رسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس آپ کے اصحاب دنیا کا تذکرہ
کر رہے تھے،تو رسول پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا : کیا سنتے
نہیں ہو؟ کیا سنتے نہیں ہو؟سادگی کی حالت میں ہونا ایمان سے ہے، سادگی
کی حالت میں ہونا ایمان سے ہے۔
(سنن ابی داؤد ،کتاب
الترجل، جلد 2، صفحہ220 ، مطبوعہ لاھور)
سادگی کے لیے عربی میں
ایک لفظ "البذاذۃ "استعمال ہوتا ہے،جیساکہ مذکورہ بالا حدیث پاک میں ذکر ہوا،اس کے معنی اور مراد
کے متعلق”التمہید لابن عبد البر“،”ریاض الصالحین“، ”المیسر فی شرح المصابیح لشهاب الدين توربشتی “ میں اور” بریقہ محمودیہ
فی شرح طریقہ محمدیہ “میں
ابو سعیدالخادمی محمد بن مصطفی نقشبندی
حنفی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہ (سال
وفات: 1176ھ) لکھتے
ہیں:” « البذاذة»بفتح الباء رثاثة
الهيئة وخلوقة الثياب وقيل الدون من الثياب«من الايمان»مع القدرة على النفيسة بلا وجدان كراهة في القلب “یعنی "البذاذة"باء کے فتحہ کے ساتھ ہے ،جس کا لغوی
معنی ہے: شکستہ حال
ہونا ،پرانے کپڑوں والا ہونا ۔اور
مراد یہ ہےکہ اعلیٰ
اور نفیس کپڑے پہننے
پر قدرت ہونےکے باوجود معمولی
لباس اس طرح پہننا کہ دل میں کوئی ناپسندیدگی
نہ ہو، یہ سادگی ہے۔ (بریقہ محمودیہ شرح طریقہ محمدیہ،جلد2، صفحہ 223 ، مطبوعہ مطبعة
الحلبي)
اور”الزهدلاحمد بن حنبل“،”تحفة الابرار للقاضی بیضاوی“،”شرح المصابیح
لابن الملک“،”المفاتیح فی شرح المصابیح“، ”مرقاۃ المفاتیح“،مرقاۃ الصعود“،” شرح سنن ابو داؤد لابن رُسلان“ میں ہے،واللفظ لتحفۃ الابرار:’’والمعنى: أن الرثاثة في اللباس والتحرز عن التأنق في التزين من
أخلاق أهل الايمان“ترجمہ: مراد
یہ ہےکہ لباس میں بہت معمولی کو
اختیار کرنا اور زیب و زینت
میں زیادہ خوش نمائی،
چمک دمک سے بچنا اہلِ ایمان کے اخلاق میں سے ہے۔(تحفة الأبرار شرح مصابيح السنة، جلد 3،صفحہ 144، وزارة الأوقاف
والشؤون الاسلامية ،كويت)
اسی حدیث پاک کے تحت مفتی
محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1391ھ/
1971ء) لکھتےہیں:”معمولی
لباس پھٹے پرانے کپڑے پہننے سے شرم و عار نہ ہونا کبھی پہن بھی لینا مؤمن متقی
کی علامت ہے،ہمیشہ
اعلیٰ درجہ کے
لباس پہننے کا عادی بن
جانا کہ معمولی لباس پہنتے شرم آئے طریقہ متکبرین کا ہے،یہاں ایمان سے مراد کمالِ ایمان ہے۔“(مراٰۃ المناجیح،جلد6، صفحہ104،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ،
گجرات)
لباس کے علاوہ،کھانے،پینے ،رہن سہن،وغیرہ دیگر اُمور
میں بھی یہی مراد
ہے،یعنی ان میں بھی بے جا تکلفات سے بچنا
سادگی ہے۔چنانچہسادگی
کی تعریف بیان کرتے
ہوئے شیخ الحدیث
،علامہ عبدالمصطفٰی
اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہ لکھتے ہیں:”سادگی:خوراک' پوشاک' سامان ِ زندگی، رہن سہن ہر چیز
میں بے جا تکلفات سے بچنا ۔“ اور زندگی کے ہر شعبہ میں سادگی رکھنا یہ بہت ہی پیاری
عادت اور نہایت ہی نفیس خصلت
ہے۔ سادہ طرز زندگی
میں امیری ہو یا فقیری ہر
جگہ ہر حال میں راحت ہی راحت ہے۔اس عادت والا آدمی
نہ کسی پر بوجھ بنتا ہے،نہ
خود قسم قسم کے بوجھوں سے زیر بار ہو تا ہے۔۔۔ہر مسلمان مرد
اور عورت کو چاہیے کہ سادگی
کی زندگی بسر کر کے رسول اﷲ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلّم کی
اس سنتِ کریمہ پر عمل کرے
اور دنیا و آخرت کی راحتوں
اور سعادتوں سے سرفراز
ہو۔‘‘(جنتی زیور، صفحہ 140 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،
کراچی )
پراگندگی،میلا کچیلا ہونے کا نام سادگی نہیں،چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:911ھ/1505ء) نے ”مرقاة الصعود “میں لکھا ،یونہی
فتح الودود میں ہے:”وقال الخطابي :كره
رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم الافراط في التنعم والدهن والترجيل وأمر بالقصد في ذلك،وليس معناه ترك الطهارة والتنظيف، فإن الطهارة
والنظافة في الدين ‘‘ ترجمہ :
امام خطابی علیہ الرحمۃ نے فرمایا : نبی پاک صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ناز و نعمت میں، تيل لگانے،
کنگھا کرنے ،وغیرہ اُمور میں افراط
یعنی حد سے بڑھنے سے منع فرمایا ہے اور اس میں میانہ
روی کا حکم دیاہے اور"البذاذۃ "(سادگی)سے یہ مراد نہیں کہ طہارت و پاکیزگی اور صفائی،ستھرائی کو چھوڑ دیا جائے،کیونکہ طہارت اور نظافت کاحکم تو دینِ اسلام
میں موجود ہے۔(فتح الودود في
شرح سنن أبي داود،جلد 4، صفحه 159 ، مطبوعه مصر)
شمس الاَئمہ،امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ(سالِ
وفات:483ھ/1090ء) اور علامہ مَجْدُ الدین مُوْصَلی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ
وفات:683ھ/1284ء)نے جو اس بارے میں کلام
کیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ لباس کے معاملے
میں وہی حکم ہے
جو کھانے،پینے
اور دیگر اُمور میں ہے
یعنی ہر معاملہ میں حد سے زیادہ بڑھنے اور کمی کرنے سے بچے۔اور
اس سب کی اصل وہ حدیث پاک
ہے جس میں نبی پاک
صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دو کپڑوں سے منع فرمایا ہے۔(1)ایسا اعلیٰ و عمدہ لباس جس
کی طرف انگلیاں اٹھیں
۔ (2) اور دوسرا اتنا کم تر لباس
کہ جس کی طرف انگلیاں اٹھیں،کیونکہ ایک میں اسراف ہے اور دوسرے میں بخل و کنجوسی
ہے،جبکہ کاموں میں بہترین
میانہ روی ہے،لہٰذا عمومی
حالات میں صاف،ستھرا دُھلا لباس پہنے اور نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس فرمان «البذاذة من الايمان» پر عمل کرتے ہوئے ہر بار نئے لباس کا تکلف نہ کرے،البتہ مخصوص مواقع،جیسے عید ،جمعہ یا دیگر اہم امور میں
یا بغیر
ناموری اور تکبر
کی نیت کے فقط اظہارِ نعمتِ خداوندی
کی نیت سے پہن
لینے میں کوئی حرج نہیں ،چنانچہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کچھ مخصوص لباس تھے
جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اہم مواقع پر پہنا کرتے تھے۔البتہ ہر وقت اس کا
تکلف کرنے میں لوگوں
میں شیخی وناموری کا
عنصر پایا جاتا ہے،نیز اس میں
فقراء و محتاج لوگوں کے رنج وملال کا سامان
بھی ہے ،لہٰذا
اولیٰ یہی ہے کہ ہر وقت
زیب و زینت اور عمدہ و اعلیٰ
چیزوں کو اپنانے اور استعمال کرنے سے بچاجائے۔
عبارت یہ ہے:’’(قال وأمر اللباس
نظير الأكل في جميع ما ذكرنا) يعني أنه كما نهى عن الاسراف والتكثير من الطعام
فكذلك نهى عن ذلك في اللباس والأصل فيه ما روي «أن النبي صلى اللہ عليه وسلم:نهى عن الثوبين»والمراد أن لا
يلبس نهاية ما يكون من الحسن والجودة في الثياب على وجه يشار إليه بالأصابع أو
يلبس نهاية ما يكون من الثياب الخلق على وجه يشار إليه بالأصابع،فإن
أحدهما يرجع إلى الاسراف والآخر يرجع إلى التقتير وخير الأمور أوسطها فينبغي أن
يلبس في عامة الأوقات الغسيل من الثياب، ولا يكلف الجديد الحسن عملا بقوله صلى اللہ عليه وسلم«البذاذة من الايمان»إلا أنه لا بأس بأن يلبس أحسن ما يجد من
الثياب في بعض الأعياد والأوقات والجمع ،لما روي عن النبي صلى اللہ عليه وسلم :أن كان له جبة
أهداها إليه المقوقس فكان يلبسها في الأعياد والجمع وللوفود ينزلون إليه،وروي أنه كان
لرسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قباء مكفوف
بالحرير وكان يلبس ذلك في الأعياد والجمع»ولأن
في لبس ذلك في بعض الأوقات إظهار النعمة قال
صلى اللہ عليه وسلم :إذا أنعم اللہ
على عبد أحب أن يرى أثرها عليه»، وفي التكلف لذلك في جميع الأوقات معنى الصلف
وربما يغيظ ذلك المحتاجين والتحرز عن ذلك أولى وكذا في زمان الشتاء لا ينبغي أن
يظاهر بين جبتين أو ثلاثة إذا كان يكفيه لدفع البرد جبة واحدة، فإن ذلك يغيظ
المحتاجين، وهو منهي عن اكتساب سبب يؤذي غيره ومقصوده
يحصل بما دون ذلك۔(المبسوط ، جلد 30،
صفحہ268، مطبوعہ
دار المعرفہ،بيروت)(الاختیار ، جلد4، صفحہ177، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)
صدر
الشریعہ مفتی محمد امجد علی
اعظمی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’اتنا لباس جس
سے ستر عورت ہوجائے اور گرمی سردی
کی تکلیف سے بچے
فرض ہے اور اس سے زائد جس سے زینت مقصود ہو اور یہ کہ جبکہ اﷲ(عزوجل)نے دیا
ہے تو اُس کی نعمت کا اظہار کیا جائے،یہ
مستحب ہے۔ خاص موقع پر مثلاً جمعہ یا عید کے دن عمدہ کپڑے پہننا مباح ہے۔ اس قسم
کے کپڑے روز نہ
پہنے ،کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اِترانے لگے اور غریبوں کو جن کے پاس ایسے کپڑے
نہیں ہیں نظر حقارت سے دیکھے،
لہٰذا اس سے بچنا
ہی چاہیےاور تکبر
کے طور پر جو لباس ہو وہ ممنوع ہے۔‘‘(بھارِ شریعت ، جلد3،حصہ16، صفحہ409،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)
ہر زمانے اور مختلف طبقے کے لوگوں کے لحاظ سے تکلف کا
اعتبار بھی مختلف ہو گا،چنانچہ شاه
ولی اللہ محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہ(سالِ وفات:1176ھ) لکھتے
ہیں:”قال:ولا اختلاف بين قوله صلى اللہ عليه وسلم :"إن البذاذة من الايمان"
وبين قوله صلى اللہ عليه وسلم:"إن اللہ يحبّ أن
يُرى أثر نعمته على عبده" لأن هناك شيئين مختلفين في الحقيقة قد يشتبهان بادئ
الرأي، أحدهما مطلوب،والآخر مذموم، فالمطلوب: ترك
الشحّ، ويختلف باختلاف طبقات الناس، فالذي هو في الملوك شحّ ربما يكون إسرافاً في
حقّ الفقير، وتركُ عادات البدو، واللاحقين بالبهائم، واختيارُ النظافة، ومحاسنُ
العادات، والمذموم: الإمعان في التكلّف، والمراءاة،
والتفاخر بالثياب، وكسر قلوب الفقراء، ونحو ذلك، وفي ألفاظ الحديث إشارات إلى هذه المعاني،كما لا يخفى على المتأمّل “ترجمہ:نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس فرمانِ مبارک " سادگی
ایمان سے ہے " اور اس فرمانِ مبارک "
بے شک اللہ پاک بندے پر اپنی نعمت کے اثر کو
دیکھنا پسند فرماتا ہے
" کے درمیان کوئی اختلاف و تضاد نہیں
ہے ، کیونکہ حقیقتاً
یہاں دو مختلف چیزیں ہیں ، اگرچہ ظاہری نظر میں آپس
میں اشتباہ پیدا
ہوتاہے۔ اصل یہ
ہے کہ یہاں ایک چیز شرعاًمطلوب ہے اور دوسری
مذموم ہے۔جو شے مطلوب ہے وہ یہ ہےکہ بخل کو ترک کیا جائے اور اس کا اعتبار مختلف طبقات کے لوگوں
کے حساب سے مختلف ہوگا ، کوئی چیز بادشاہ کے حق میں
بخل قرار پاتی ہے ، لیکن وہی فقیر کے حق میں
اسراف سمجھی جاتی
ہے ، اسی طرح اَن پڑھ دیہاتیوں
اور چرواہوں کی عادات کو چھوڑ
دینامطلوب ہےاور نظافت اور اچھی عادات کو اختیار کرنا مطلوب ہے ، جبکہ تکلفات میں مگن رہنا ، دکھاوا
، لباس میں تفاخر اور فقراء کے دلوں کو توڑنا مذموم ہے ۔ حدیثِ
پاک کے الفاظ میں اِنہی
معانی کی طرف اشارہ
ہے ، جیسا کہ غوروفکر
کرنے والے پر مخفی نہیں
۔ (حجة اللہ البالغة، جلد 2، صفحہ
189،مطبوعہ دار الجيل، بيروت ، لبنان)
خاص مواقع،مثلاً: جمعہ، عیدین، و دیگر اہم مواقع پر یا کبھی کبھار اظہارِ نعمتِ خداوندی کے لیے عمدہ
لباس پہننا ،عمدہ غذائیں کھانا اوردیگر عمدہ چیزیں برتنا ،شرعاً جائز ،بلکہ مستحسن اور اچھا عمل ہے جبکہ تکبروناموری نہ ہو،چنانچہ حدیث پاک میں ہے:’’قال رسول اللہ صلى اللہ
عليه وسلم: إن اللہ يحب أن يرى أثر نعمته على عبده “ترجمہ:رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا : بے شک
اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اپنی نعمت کے اثر کو
دیکھنا پسند فرماتا ہے۔(سنن الترمذی ،ابواب الاستیذان۔۔۔الخ،
جلد2 ، صفحہ 570، مطبوعہ لاھور)
اس حدیث پاک کے تحت مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1391ھ/ 1971ء)لکھتےہیں:’’جسے رب
تعالیٰ نے مال دیا ہے تو وہ بخل کی بنا پر بہت ہلکے کپڑے
نہ پہنے،بلکہ کبھی اچھے کپڑے پہنے
تاکہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اظہار
ہو اور فقراء اسے غنی سمجھ
کر اس سے کچھ مانگ بھی سکیں،اگر
اللہ نے عالم دین بنایا ہے ،تو عالمانہ لباس پہنے تاکہ حاجتمند لوگ
اس سے مسئلے پوچھ سکیں،رب
کی نعمت کا اظہار بھی شکر ہے،اس کی نعمت چھپانا کُفران ہے۔یہ
حدیث اس کے خلاف نہیں کہ معمولی کپڑے پہننا ایمان
سے ہے۔وہاں
تکبر،تکلف کی ممانعت تھی،یہاں
شکر اور اظہارِنعمت الٰہی کا حکم ہے،ایک ہی چیز
ایک نیت سے بری
ہوتی ہے دوسری نیت سے اچھی۔“(مراٰۃ المناجیح، جلد6، صفحہ106، مطبوعہ
نعیمی کتب خانہ،
گجرات)
نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عمل
مبارک سے بھی یونہی ثابت ہے ،چنانچہ وفود کےآنے پر نہایت قیمتی پوشاک زیب تن
فرماتے تھے،جیساکہ علّامہ عبدالرحمن ابنِ جوزی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہ نے لکھا:” کان طول رداء رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم اربعۃ اذرع وعرضہ ذراعین و
نصف وکان لہ ثوب اخضر یلبسہ
للوفود اذا قدموا علیہ‘‘ترجمہ :رسول
الله صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چادر مبارك کی
لمبائی چار گز اور چوڑائی اڑھائی گز تھی اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی
ایک چادر سبز رنگ کی تھی جسے وفود
سے ملاقات کے وقت زیبِ تن فرماتے تھے۔(الوفا ءباحوال المصطفیٰ ،ابواب
لباسہ ، صفحہ 581 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)
سیرتِ مصطفیٰ میں مدارج النبوۃ
کے حوالہ سے ہے:”حضور
سید ِعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قبائل
سے آنے والے وفدوں کے استقبال، اوران کی ملاقات کا خاص طورپر اہتمام فرماتے تھے۔ چنانچہ ہر وفد کے آنے پر آپ علیہ الصلاۃ
و السلام نہایت
ہی قیمتی پوشاک
زیب تن فرما کر کاشانہ اقدس سے نکلتے اور اپنے خصوصی اصحاب رضی اللہ
تعالیٰ عنہم کو
بھی حکم دیتے تھے کہ بہترین لباس پہن کر آئیں ، پھر ان مہمانوں کو اچھے سے اچھے مکانوں میں ٹھہراتے اور ان لوگوں کی مہمان نوازی اور خاطر مدارات
کا خاص طورپرخیال فرماتے تھے
اور ان مہمانوں سے ملاقات کے
لئے مسجد نبوی
میں ایک ستون سے ٹیک لگا کر نشست فرماتے پھر ہر
ایک وفد سے نہایت ہی خوش روئی اور خندہ پیشانی کے ساتھ گفتگو
فرماتے اور ان کی حاجتوں اور حالتوں
کو پوری توجہ کے ساتھ سنتے اور پھر ان کو ضروری
عقائد و احکامِ اسلام کی تعلیم و تلقین بھی فرماتے اور ہر وفد کو ان کے درجات و
مراتب کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ نقد یا سامان بھی تحائف
اور انعامات کے طور پر عطا فرماتے۔(سیرت مصطفیٰ ،صفحہ 507)(مدارج النبوت،قسم سوم،باب نھم،جلد2،صفحہ 359، مطبوعہ مرکز اھلسنت ، مختصراً)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیادوہاتھ سے مصافحہ کرناسنت ہے؟
عمامہ میں کتنے شملے چھوڑناسنت ہے؟
تلاوت کرنے والےکو سلام کیا جائے تو جواب دے یانہیں؟
کن کن مواقع پر سلام کرنا منع ہے؟
داڑھی کی حد کہاں سے کہاں تک ہے؟
جاتے وقت خدا حافظ کہنا
قبلہ کی طرف ٹانگیں پھیلانا،تُھوکناوغیرہ کیسا؟
عمامے کے کتنے شملے رکھنا سنت ہے اور شملے کا سائز کتنا ہونا چاہیے؟