Roti Gir Jaye Tu Utha Kar Chomna Kaisa ?

روٹی گر جائے تو اٹھا کر چومنا کیسا؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Fsd-8466

تاریخ اجراء: 06 صفر المظفر1445ھ/24 اگست 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ جب کبھی بچے یا بڑے کے ہاتھ سے روٹی گِرجائے، تو اُسے اٹھا کر چُوما جاتا ہے اور چومنے کا مقصد رزقِ الہی کی تعظیم ہوتا ہے۔ سوال یہ ہےکہ یوں روٹی کو چومنا کیسا ہے؟ کیا اِس میں کوئی شرعی ممانعت تو نہیں، کیونکہ  ہمارے ایک فیملی  ممبر یوں روٹی چومنے پر اعتراض کرتےہیں اور اِسےدرست نہیں سمجھتے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   گِری ہوئی روٹی کو اٹھا کر چوم لینے میں شرعاً کوئی حرج اور مضائقہ نہیں، بلکہ فقہائے کرام نے   بغرضِ تعظیم چومنے کو اچھا اور مستحسن قرار دیا ہے، لہذا اِسے غلط کہنا یا سمجھنا درست نہیں۔ ایک مسلمان یقیناً روٹی کو خدا کا عطا کردہ قابلِ قدرواحترام  رزق اور نعمت سمجھ کر چُومتا ہے اور یوں نعمتِ خداوندی کی قدردانی کرتے ہوئے چوم لینا قطعاً قابلِ اعتراض نہیں، بلکہ ہمارا دینِ متین رزق اور بالخصوص روٹی کی  تعظیم واِکرام اور اَدب واحترام کا درس دیتا ہے۔ سیرتِ نبویہ میں اِس کی واضح عملی تعلیمات موجود ہیں۔

   چنانچہ ابو عبدالله امام محمد بن ماجہ  قُزوینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:273ھ/887ء) روایت نقل کرتے ہیں:’’عن عائشة قالت: دخل النبي صلى اللہ عليه وسلم البيت فرأى كسرة ملقاة، فأخذها فمسحها ثم أكلها، وقال: يا عائشة! أكرمي كريمك، فإنها ما نفرت عن قوم قط فعادت إليهم‘‘ ترجمہ:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، آپ فرماتی ہیں کہ  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مکان میں تشریف لائے۔ روٹی کا ٹکڑ اپڑا ہوا دیکھا،اُس کو لے کر پونچھا، پھر تناول فرما لیا اور فرمایا: عائشہ!اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (روٹی)جب کسی قوم سے بھاگی ہے،  تو لوٹ کر نہیں آئی۔(یعنی اگر ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رزق چلا جاتا ہے،  تو پھر واپس نہیں آتا۔)(سنن ابن ماجہ، 04/451، مطبوعه دار الرسالۃ العالمیہ )

   مذکورہ بالا روایت عملی درس تھا، اب بصورتِ امر واضح فرمان پڑھیے کہ جس میں روٹی کے اکرام واحترام کا حکم دیا گیا، چنانچہ ابو عبداللہ علامہ حکیم ترمذی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:320ھ/932ء) نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’أكرموا الخبز‘‘ترجمہ:اے لوگو! روٹی کا احترام کرو۔(نوادر الاصول فی احادیث الرسول، 02/332، ط: دار الجیل، بیروت)

   مشکوٰۃ المصابیح“ میں ہے:’’عن أبي هريرة قال: رأيت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إذا أتي بباكورة الفاكهة وضعها على عينيه وعلى شفتيه وقال: «اللهم كما أريتنا أوله فأرنا آخره» ثم يعطيها من يكون عنده من الصبيان‘‘ ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے۔ آپ فرماتےہیں کہ میں نے  رسولِ خدا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو دیکھا کہ جب آپ کی بارگاہ میں نیا موسمی پھل پیش کیا جاتا، تو آپ اُسے آنکھوں  پر لگاتے ، ہونٹوں  پر رکھ کر چومتے اور دعا کرتے:اللَّهُمَّ كَمَا أَرَيْتَنَا أَوَّلَهُ فَأَرِنَا آخِرَهُ ۔(دعا پڑھنے کے بعد) وہ پھل  اپنے پاس موجود کسی بچے کو عطا فرما دیتے ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 02/913، ط: المکتب الاسلامی، بیروت)

   اِس  روایت کے تحت مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1391ھ /1971ء) لکھتے ہیں : ’’اس حدیث سے چند مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو چومنا،آنکھوں سے لگانا سنت ہے، لہذا قرآن شریف،حدیث شریف،حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے تبرکات چومنا سنت سے ثابت ہے،بعض روٹی چو متے ہیں،اُن کی دلیل یہ حدیث ہے۔‘‘(مراٰۃ المناجیح، 04/360،  ضیاء القرآن پبلی کیشنز)

   علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1252ھ/1836ء) نقل کرتے ہیں:’’ كون تقبيل الخبز بدعة فصحيح ولكن البدعة لا تنحصر في الحرام بل تنقسم إلى الأحكام الخمسة ولا شك أنه لا يمكن الحكم على هذا بالتحريم لأنه لا دليل على تحريمه ولا بالكراهة لأن المكروه ما ورد فيه نهي خاص ولم يرد في ذلك نهي، والذي يظهر أن هذا من البدع المباحة فإن قصد بذلك إكرامه لأجل الأحاديث الواردة في إكرامه فحسن‘‘ترجمہ:روٹی چومنے کا بدعت ہونا اپنی جگہ درست ہے، لیکن ہر بدعت صرف ”حرام“ ہی  نہیں ہوتی، بلکہ یہ پانچ احکام واقسام میں منقسم ہوتی ہے اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ روٹی چومنے  پر حرام ہونے کا حکم لگانا، قطعاً ممکن نہیں، کیونکہ اِس کی حرمت پر کوئی دلیل نقلی موجود نہیں، یونہی کراہت کا حکم بھی نہیں لگایا جا سکتا، کیونکہ مکروہ کا حکم تب ہوتا ہے کہ جب اُس کے متعلق بالخصوص نَہی وارِد ہو اور روٹی چومنے کے متعلق کوئی ممانعت بھی وارِد نہیں، لہذا یہ چیز واضح ہوئی کہ روٹی چومنا مباح بِدعات میں سے ہے اور ہاں اگر کوئی شخص روٹی کے اِکرام وتعظیم  میں وارِد احادیث کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بقصدِ تعظیم چومتا ہے تو یہ بدعتِ حسنہ یعنی اچھی  بدعت ہے۔(العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ، 02/576، ط: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)

   امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1340ھ/1921ء) نے لکھا:’’قد نصوا علی استحسان تقبیل المصحف وایدی العلماء ارجلھم والخبز‘‘ ترجمہ:فقہائے اسلام نے قرآن مبین، علمائے دین کے ہاتھوں اور قدموں، نیز  روٹی چومنے کے مستحسن اور اچھا ہونے پر واضح نصوص وارِد فرمائیں۔(فتاویٰ رضویہ، 22/475،ط: رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم