مجیب:ابوتراب محمد علی عطاری
مصدق:مفتی
محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:pin-7342
تاریخ اجراء:02جمادی الاولی1445ھ17نومبر 2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے
میں کہ کعبہ شریف کی طرف پاؤں پھیلانے کا کیا حکم
ہے؟ زید کا کہنا ہے کہ عام حالت میں اور بالخصوص سوتے وقت کعبہ
شریف کی طرف پاؤں پھیلانا بلا کراہت جائز و درست ہے اور اس پر
چند مسائل سے استدلال کیا ہے، جن کی تفصیل یہ ہے:
(1) مریض قبلہ کی طرف
پاؤں پھیلا کر نماز پڑھے گا۔
(2) نزع کے عالَم میں قبلہ کی طرف
ٹانگیں پھیلانے کا حکم دیا گیا ہے۔
(3) غسلِ میت کے وقت بھی
یہی حکم ہے اور پھر
(4) جنازہ لے کر
چلنےمیں بھی اگر میت کے پاؤں قبلہ کی جانب ہونے میں
کچھ کلام نہیں۔ تو جب ان احکامات میں کعبہ کی طرف پاؤں
پھیلانے کی تلقین ہے، تو معلوم ہوا یہ ایسی
چیز نہیں جس کی شریعت میں ممانعت وارد ہو، لہٰذا
کسی بھی حالت میں قبلہ کی طرف پاؤں کر سکتے ہیں، تو
برائے کرم اس حوالے سے رہنمائی فرما دیجئے۔
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قبلہ کی
طرف پاؤں کرنے کا حکم ؟ چند چیزوں سے اعتراض اور
جواب
کعبہ معظمہ دینِ اسلام میں انتہائی عزت و اہمیت
کا حامل ہے، اسے شعائر اللہ (اللہ کی نشانیوں)
میں شمار کیا جاتا ہے، اس کی تعظیم کرنا
اور ادب بجا لانا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے، اس کے آداب میں سے ایک یہ
ہے کہ اس کی جانب پاؤں نہ پھیلائے
جائیں، اسی وجہ
سے فقہائے کرام نے فرمایا (بغیر عذرِ صحیح) جان بوجھ کر قبلہ شریف کی
طرف پاؤں پھیلانا ،ممنوع
ومکروہ ہے کہ اس میں قبلہ شریف کی بےادبی
ہے۔
اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد
فرماتا ہے:﴿وَمَنۡ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّہَا
مِنۡ تَقْوَی الْقُلُوۡبِ﴾ ترجمہ کنزالایمان :’’اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے ،تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے۔‘‘(پارہ17، سورۃ الحج، آیت
32)
تنویر الابصارمع
الدرمیں ہے:’’کرہ(مد رجلیہ فی نوم او
غیرہ الیھا)ای عمدالانہ اساءۃ ادب‘‘ترجمہ:جان بوجھ کر قبلہ کی طرف پاؤں کر کے سونا یااس کے علاوہ جان بوجھ کرقبلہ کی طرف پاؤں پھیلانا،مکروہ ہے،کیونکہ اس میں قبلہ
کی بے ادبی ہے۔(تنویر الابصارمع الدر،جلد2،صفحہ
515تا516،مطبوعہ پشاور)
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’ کعبہ
معظّمہ(قبلہ)کی طرف پاؤں
کر کے سونا،بلکہ اُس طرف پاؤں
پھیلانا، سونے
میں ہو خواہ جاگنے میں،لیٹے ہو خواہ بیٹھے میں،ہر طرح
ممنوع و بے ادبی ہے۔(فتاوی رضویہ،جلد23،صفحہ385،رضافاؤنڈیشن،لاھور)
زید کا سوال میں ذکر کردہ احکام کو
بنیاد بنا کر عام حالت میں اور بالخصوص سوتے وقت قبلہ کی طرف پاؤں پھیلانے کو بلا کراہت درست کہنا سراسر غلط ہے۔
زید کے بیان کردہ مسائل
کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
(1)مریض
کا نماز کے لیے قبلہ کی طرف پاؤں کرنا:
شرعی حکم یہ ہے کہ اگر مریض کھڑے ہو کر نماز پڑھنے پر قدرت
نہیں رکھتا، تو بیٹھ
کر نماز پڑھے، بیٹھنے
پر بھی قادر نہ ہو، تو لیٹ کر اشارہ سے پڑھے،اب چاہے تو داہنی یا بائیں کروٹ پر لیٹ کرجانبِ قبلہ منہ کر کے نماز پڑھے یا چِت لیٹ کر، البتہ دوسرا
طریقہ افضل
ہے ، لیکن مریض
اس صورت میں پاؤں قبلہ
کی جانب پھیلانے کی بجائے حتی الامکان اپنے گھٹنے کھڑے کرے گا اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو، اس کے لیے چُھوٹ ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ جس صورت میں مریض
کے پاؤں جانبِ قبلہ پھیلنے کا اندیشہ تھا، اسے صراحتاً متنبہ کرتے ہوئے گھٹنے
کھڑے کرنے کا حکم دیا
گیا، تو زید کا قیاس گویا اپنے مؤقف کے برخلاف مسئلہ پر ہے، نیز
جہاں رخصت کی صورت ہے، وہ بھی مرض
اور مشقت کی وجہ سے ہے، جو اسباب تخفیف میں سے ہے، لہٰذا
ان خاص صورتوں پر عمومی
مسائل کو قیاس کرنا ہرگز
درست نہیں۔
مریض کی نماز کے متعلق در مختار میں ہے: ’’(وإن تعذر القعود أومأ مستلقيا) على ظهره (ورجلاه نحو
القبلة) غير أنه ينصب ركبتيه لكراهة مد الرجل إلى القبلة ويرفع رأسه يسيرا ليصير
وجهه إليها (أو على جنبه الأيمن) أو الأيسر ووجهه إليها (والأول أفضل) على المعتمد‘‘ ترجمہ: اگر بیٹھنا
مشکل ہو، تو پیٹھ کے
بَل لیٹ کر اشارے سے
نماز پڑھے اور پاؤں قبلہ کی جانب کر دے، لیکن اپنے گھٹنے کھڑے رکھے
کہ قبلہ کی طرف پاؤں پھیلانا،مکروہ ہے اور اپنے سر کو قدرے
اونچا کرے تاکہ چہرہ قبلہ
کی طرف ہو جائے یا دائیں یا بائیں کروٹ لیٹ کر چہرہ قبلہ کی طرف کر کے نماز پڑھے اور
معتمد قول کے مطابق پہلا طریقہ افضل ہے۔( رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلوۃ،
باب صلاۃ المریض،
جلد 2، صفحہ 99، مطبوعہ بیروت)
درر الحکام
میں ہے: ’’ وفي المجتبى وينبغي للمستلقي أن ينصب ركبته إن قدر حتى
لا يمد رجليه إلى القبلة‘‘ ترجمہ: مجتبیٰ
میں ہے کہ چِت لیٹ
کر نماز پڑھنے والے کو چاہیے کہ حتی الامکان
اپنے گھٹنے کھڑے رکھے تاکہ اس کے پاؤں قبلہ کی طرف نہ پھیلیں۔(درر الحکام، کتاب الصلوۃ، باب صلاۃ المریض، جلد 1، صفحہ 129، مطبوعہ دار احیاء الکتب العربیہ)
چِت لیٹ کر نماز پڑھنا کیوں افضل ہے؟ اس کی علت البنایہ
شرح ہدایہ میں کچھ یوں ہے:’’ (لأن إشارة المستلقي تقع إلى هواء الكعبة) هذه إشارة إلى
أوجه المعقول، أراد أن المستلقي على قفاه إذا أومأ يقع إيماؤه إلى هواء الكعبة،
وقد علم أن شرط المصلي أن يصلي إلى القبلة، والصلاة بالإيماء ما له فعل غير
الإيماء والإيماء أن يقع إلى الكعبة بما قلنا، ألا ترى أنه لو حققه لذلك سجودًا
كان إلى القبلة ‘‘ ترجمہ: کیونکہ
چِت لیٹنے والے کا (رکوع و سجود کا اشارہ) کعبہ کی فضا کی
طرف ہو گا، یہ اشارہ ہے کہ یہ طریقہ زیادہ معقول ہے، اس علت سے یہ ارادہ کیا ہے کہ کمر کے بل لیٹنے والا جب اشارہ کرے گا ،تو اس کا اشارہ ہوائے کعبہ کی جانب ہو گا
اور یہ بات معلوم ہے کہ نمازی کا قبلہ کی
طرف منہ کر کے نماز پڑھنا شرط ہے اور اشارےکے ساتھ نماز پڑھنا فقط اس
شخص کے لیے ہے، جو اشارے کے علاوہ
کسی طرح نماز نہیں پڑھ سکتا، تو اس کا اشارہ بھی کعبہ کی
جانب ہی ہونا چاہیے جیسا
کہ ہم بیان کر چکے،کیا
تو نہیں دیکھتا کہ جب اسے سجود کی
قدرت ملے، تو وہ بھی قبلہ کی طرف ہی
ہو گا۔(البنایہ شرح ھدایہ، کتاب الصلاۃ،
باب صلاۃ المریض،
جلد 2، صفحہ 641، مطبوعہ بیروت)
(2) نزع کے وقت قبلہ کی طرف پاؤں کرنا:
شریعت نے رہنمائی
فرمائی ہے کہ جب کوئی نزع کے عالم میں ہو
اور موت کی علامات پائی جائیں، تو سنت یہ ہے کہ ایسے شخص کو دہنی کروٹ پر لٹا کر قبلہ کی طرف منہ کر دیں، البتہ یہ
بھی ہوسکتا ہے کہ چِت
(سیدھا کمر کے بَل) لٹائیں اور حتی الامکان
سر کو قدرے اونچا رکھیں، تاکہ منہ بھی
جانبِ قبلہ ہو جائے، البتہ
اگر قبلہ کو منہ کرنے میں دشواری
ہو کہ اسے اذیت ہو گی، تو جس حالت پر ہو، چھوڑ دیا جائے۔
یہاں بھی زید کا استدلال
ایسے مسئلہ پر ہے، جس میں سنت طریقہ پر عمل کرنے میں قبلہ کی جانب پاؤں ہی
نہیں ہوتے۔نیز دھڑ قبلہ کی جانب کرتے ہوئے چت لٹانے
والی صورت میں بھی شرع کو پاؤں قبلہ کی جانب کرنا
مطلوب نہیں، بلکہ مقصود چہرہ جانبِ قبلہ کرنا ہے، اسی وجہ سے سر
قدر ے اونچا کرنے کا حکم
دیا گیا ہے۔ اب یہاں بھی چِت
لٹا کر اس شخص کو گھٹنے کھڑے کرنے کا حکم دیا جا سکتا تھا، لیکن ہر ذی شعور اس وقت کی کیفیت
اور حساسیت کو بخوبی
جانتا ہے، حتی کہ خاص اس وقت میں مبتلا شخص کا کلمہ
پڑھنا شریعت کو بہت
مطلوب ہے، لیکن اس کے باوجود تلقین
کا طریقہ یہ بتایا کہ اس کے سامنے خود کلمہ پڑھیں، اس کو پڑھنے کا نہ کہا جائے ،تو ایسی صورت میں اسے گھٹنے کھڑے کرنے کا مکلف بنانا مشقت میں ڈالنا
ہے اور مشقت رخصت کا سبب ہے۔
نزع میں مبتلا شخص کو لٹانے کے متعلق جوہرۃ النیرہ میں ہے:’’(وإذا احتضر الرجل و وجه وجهه إلى القبلة على شقه الأيمن)
هذا هو السنة والمختار أنه يوضع مستلقيا على قفاه نحو القبلة لأنه أيسر لخروج روحه‘‘ ترجمہ:جب کسی
شخص کا آخری وقت آجائے،تو
اسے دہنی کروٹ پر لٹا کر چہرہ قبلہ
کی طرف کر دو، یہ سنت ہے اور یہ طریقہ بھی اختیار کیا جاتا ہے کہ
اسے کمر کے بل لٹا کر قبلہ کی جانب کر دیا جائے کہ اس طرح کرنے سے روح نکلنے میں آسانی ہوتی ہے۔(الجوھرۃ النیرہ، کتاب الصلاۃ،
باب الجنائز، جلد 1، صفحہ 101، المطبعۃ
الخیریہ)
بہار شریعت میں ہے:’’ جب موت کا
وقت قریب آئے اور علامتیں
پائی جائیں، تو
سنت یہ ہے کہ دہنی کروٹ
پر لٹا کر قبلہ کی طرف
مونھ کر دیں، اور
یہ بھی جائز ہے کہ چت لٹائیں
اور قبلہ کو پاؤں کریں
کہ یوں بھی قبلہ کو مونھ
ہو جائے گا، مگر اس صورت میں سر کو قدرے اونچا رکھیں
اور قبلہ کو مونھ کرنا دشوار ہو کہ اس کو تکلیف ہوتی ہو، تو جس حالت پر ہے ، چھوڑ
دیں۔‘‘(بھار شریعت، حصہ 4، صفحہ 808، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
تلقین کرنے کے متعلق عنایہ شرح ہدایہ میں ہے: ’’(ولقن الشهادتین)
تلقينها أن يقال عنده وهو يسمع، ولا يقال له قل لأن الحال صعب عليه فربما يمتنع عن
ذلك والعياذ بالله ‘‘ ترجمہ: نزع کی کیفیت
میں اس شخص کو شہادت کی تلقین
کی جائے، تلقین کا طریقہ یہ ہے
کہ اس کے پاس کلمہ پڑھا جائے
اور وہ سنے، اسے پڑھنے کا حکم نہ دیا جائے، کیونکہ
اس وقت وہ مشکل حال میں ہے، تو ممکن ہے العیاذ باللہ وہ اس کے پڑھنے سے منع کر دے۔(العنایہ شرح ھدایہ، کتاب الصلوۃ،
جلد 2، صفحہ 103، مطبوعہ دار
الفکر)
مشقت رخصت کا سبب ہے۔الاشباہ
والنظائر میں ہے:’’القاعدة الرابعة:(المشقة تجلب التيسير)۔۔ قال العلماء:
يتخرج على هذه القاعدة جميع رخص الشرع وتخفيفاته‘‘ ترجمہ:چوتھا قاعدہ یہ ہے کہ مشقت آسانی
لاتی ہے۔علماء
نے فرمایا:اس قاعدے
کی بنیاد پر تمام شرعی
رخصتیں اور تخفیفات
نکلتی ہیں ۔ (الاشباہ والنظائر،جلد1،صفحہ245تا246،مطبوعہ
دار الکتب العلمیہ،بیروت)
(3)غسل میت کے وقت قبلہ کو پاؤں کرنا:
شرعی حکم:میت کو غسل دیتے
وقت کس طرح لٹایا جائے؟ مذہبِ
اصح میں اس بارے میں کوئی صورت متعین
نہیں کی گئی، لہٰذا جہاں جو
صورت آسان ہو، اس کے مطابق عمل کیا جائے گا، خواہ
مشرق و مغرب کی طرف لٹائیں یا شمال و
جنوب کی طرف، ہر طرح درست ہے۔
زید کا مستدَل بہا مسئلہ ایسا ہےجس میں شریعت مطہرہ
نے (میت کے احوال و کیفیات اور موضعِ
غسل کے اعتبار سے مختلف صورتیں ہونے کی بناء پر) کوئی تخصیص
ہی نہیں فرمائی، بلکہ متعلقہ افراد
کی صوابدید پر چھوڑ
دیا کہ جس طرح آسانی
ہو، عمل کریں، تو جس مسئلے کی شرع کی جانب سے کوئی صورت متعین ہی نہیں،اس میں زید کا از خود ایک صورت متعین کر کے استدلال کرنا بلاشبہ
غلط ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’وكيفية الوضع عند بعض أصحابنا الوضع طولا كما في حالة
المرض إذا أراد الصلاة بإيماء ومنهم من اختار الوضع كما يوضع في القبر والأصح أنه
يوضع كما تيسر‘‘ ترجمہ: ہمارے بعض
اصحاب کے نزدیک میت کو غسل کے لیے قبلہ کی طرف لمبائی
میں یوں رکھا جائے گا ،جیسے مریض مرض کی حالت میں اشارے
سے نماز پڑھتا ہے اور بعض نے رکھنے
کا وہ طریقہ اختیار کیا ہے جیسے میت کو قبر میں رکھتے
ہیں اور اصح قول یہ ہے کہ جس طرح آسانی
ہو، ویسے ہی رکھا جائے۔(فتاوی
عالمگیری، کتاب الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 158، مطبوعہ دار الفکر)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا: ’’میّت کو نہلانے کے لیے
جو تختے پر لٹائیں ، تو شرقاً غرباً لٹائیں کہ قبلے کو ہوں، یا
جنوباً شمالاً کہ دہنی کروٹ کو ہو؟
تو آپ
رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً ارشاد فرمایا:”سب طرح درست
ہے، مذہبِ اصح میں اس باب میں کوئی تعیین
وقید نہیں، جو صورت میسر ہو اُس پر عمل کریں۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 9، صفحہ 91، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
(4) جنازہ
لےکر چلنے میں پاؤں قبلہ کی طرف ہونا:
شرعی حکم: جنازہ لے کر چلنے میں سرہانہ آگے ہونا چاہیے، کیونکہ سَر اشرف الاعضاء (تمام اعضائے بدن
میں زیادہ عزت والا) ہے اور اسے سامنے رکھنے میں اس کی
تعظیم ہے، لہٰذا
میت کو جس طرف بھی لے جانا ہو، سَر آگے
رکھا جائے۔
تفصیل: جنازہ لے جانے میں کسی ایک صورت پر تو عمل کرنا
ہی تھا، توشریعت
میں میت کی تعظیم کی
خاطر سرہانے کو مقدم رکھنےکا
حکم فرمایا گیا،
لہٰذا میت کو قبلہ
کی طرف لےکر جائیں
یا اس کے مخالف سمت، بہر صورت سرہانہ آگے رکھا جائے گا، اب اگر
یہاں بھی قبلہ کی جانب پاؤں کرنے سے بچانے کا حکم دیا جاتا، تو چلنے والوں کو حرج و مشقت میں مبتلا کرنا لازم آتا، کیونکہ مختلف راستوں، گلیوں سے گزرتے ہوئے قدم قدم پر سمتِ قبلہ کا خیال رکھنا بسا اوقات انتہائی مشکل ہو جاتا ، تو ضرور ت کے پیشِ نظر ممانعت بیان نہیں فرمائی گئی، لیکن
یہ رخصت فقط ضرورت تک ہی محدود رہے
گی، لہذا اس پر عام صورتوں
کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
جنازہ لےکر چلنے کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے: ’’ویقدم الراس فی
حال حمل الجنازۃ، لانہ
من اشرف الاعضاء فکان تقدیمہ اولی ولان معنی الکرامۃ فی
التقدیم‘‘ترجمہ: جنازہ اٹھانے (اور لے کر چلنے میں)
سر کو آگے رکھا جائے گا، کیونکہ
سر اشرف الاعضاء ہے، تو اس کو مقدم رکھنا اولیٰ ہے اور اس میں اس طرح کرنے میں
میت کی تعظیم بھی ہے۔(بدائع الصنائع، کتاب الصلوۃ،
جلد 1، صفحہ 309، مطبوعہ دار
الکتب العلمیہ، بیروت)
فتاوی رضویہ
میں ہے: ’’میت کو کسی طرف لے جانا ہو، بہرحال
سر آگے کی طرف رہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 9، صفحہ 425، رضا
فاؤنڈیشن، لاھور)
ضرورت کی وجہ سے ملنے
والی رخصت ضرورت
کی حد تک محدود رہتی ہے۔الاشباہ والنظائر میں ہے:”الضرورات تبیح المحظورات۔۔ما
ابیح للضرورۃ یقدر بقدرھا“ترجمہ:ضرورتیں ممنوع امور کو جائز کر دیتی
ہیں۔۔ جو کام ضرورت
کی وجہ سے مباح(جائز)قرار دیا گیا ہو،تو وہ ضرورت تک ہی محدود رہتا ہے۔(الاشباہ والنظائر، صفحہ 87، مطبوعہ کراچی)
اسی وجہ سے میت
کے معاملے میں بھی جہاں حرج نہیں تھا، وہاں اسی سابقہ حکم کے مطابق جانبِ قبلہ پاؤں کرنے سے منع کر
دیا گیا، جیسا کہ میت کو رکھنے کے حوالہ سے بہار
شریعت میں ہے:’’جب جنازہ
رکھا جائے، تو یوں نہ رکھیں کہ قبلہ کو پاؤں ہوں
یا سر، بلکہ آڑا رکھیں
کہ دہنی کروٹ قبلہ کو ہو۔‘‘ (بھار شریعت، حصہ 4، صفحہ 844، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اس تمام تر تفصیل سے واضح ہو گیا
کہ زید کا مذکورہ مسائل پر قیاس
کرنا قیاس مع الفارق کے قبیل
سے ہے، لہٰذا اسے چاہیے
کہ کوئی شرعی مسئلہ معتبر و معتمد
مفتیان کرام کی نگرانی
میں ہی بیان کرے، تاکہ لوگوں تک درست شرعی مسائل پہنچ سکیں، اسی میں عافیت
اور دینِ متین کی درست خدمت ہے، اللہ عزوجل عمل کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
کیادوہاتھ سے مصافحہ کرناسنت ہے؟
عمامہ میں کتنے شملے چھوڑناسنت ہے؟
تلاوت کرنے والےکو سلام کیا جائے تو جواب دے یانہیں؟
کن کن مواقع پر سلام کرنا منع ہے؟
داڑھی کی حد کہاں سے کہاں تک ہے؟
جاتے وقت خدا حافظ کہنا
قبلہ کی طرف ٹانگیں پھیلانا،تُھوکناوغیرہ کیسا؟
عمامے کے کتنے شملے رکھنا سنت ہے اور شملے کا سائز کتنا ہونا چاہیے؟