Paida Hone Wale Bache Ki Khatna Karne Ka Hukum

پیدا ہونے والے بچہ کی ختنہ کروانے کا حکم

مجیب: محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-455

تاریخ اجراء:       21محرم الحرام1444ھ/20اگست2022 ء                                                                                                                

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   پیدا ہونے والے بچہ کی ختنہ کروانے کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     ختنہ شعائرِ اسلام میں سے  ایک نفیس سنت عمل ہے ،جس کے ذریعے مسلم اور غیر مسلم کے مابین امتیاز ہوجاتا ہے۔ختنے  کی کم از  کم مدت  7 سال ہے، یعنی جب بچہ 7سال کا ہوجائے، تو  سنت طریقہ  یہ ہے کہ اس کا ختنہ کروایا جائے،اور زیادہ سے زیادہ مدت 12سال ہے  کہ  ختنہ کروانے میں اس سے زیادہ تاخیر کرنا  شرعاً ممنوع  ہے،البتہ  اگر کسی  نے  بچے کی پیدائش کے  ساتویں دن کے بعد( یعنی 7 سال سے پہلے)  ختنہ کروالیا،  تو   یہ منع نہیں ہے ۔

   بہارِ شریعت میں ہے:”    ختنہ سنت ہے اور یہ شعارِ اسلام میں ہے کہ مسلم وغیرمسلم میں اس سے امتیاز ہوتا ہے اسی لیے عرف عام میں اس کو مسلمانی بھی کہتے ہیں ...، ختنہ کی مدت سات سال سے بارہ سال کی عمر تک ہے اور بعض علما نے یہ فرمایا کہ ولادت سے ساتویں دن کے بعد ختنہ کرنا جائز ہے۔“( بہارِ شریعت ،جلد3، حصہ 16، صفحہ 589، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

     حکیم الامت، مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”    ختنہ کا سنّت طریقہ یہ ہے ساتویں برس بچہ کا ختنہ کرادیا جائے، ختنہ کی عمر سات سال سے بارہ برس تک ہے، یعنی بارہ برس سے زِیادہ دیر لگا نا منع ہے،  اور اگر سات سال سے پہلے ختنہ کردیا گیا جب بھی حرج نہیں۔(اسلامی زندگی، صفحہ26 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم