Kya Zikr o Durood Mein Mashgool Shakhs Par Bhi Salam Ka Jawab Dena Wajib Hoga ?

کیا ذکر و درود میں مشغول شخص پر بھی سلام کا جواب دینا واجب ہوگا؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13155

تاریخ اجراء:15جمادی الاولیٰ1445ھ/30نومبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ  ایک بندہ ذکر و درود میں مصروف ہو  ، اگر کوئی شخص اسے سلام کرے، تو کیا ذکر و درود کو  روک کر سلام کا جواب دینا واجب ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی نہیں! پوچھی گئی صورت میں سلام کا جواب دینا واجب نہیں۔

    فتاوٰی عالمگیری میں ہے:”حكي عن الشيخ الإمام الجليل أبي بكر محمد بن الفضل البخاري أنه كان يقول فيمن جلس للذكر أي ذكر كان فدخل عليه داخل وسلم عليه : وسعه أن لا يرد ، كذا في المحيط۔“یعنی شیخ ، امامِ جلیل، ابو بکر محمد بن فضل بخاری علیہ الرحمہ سے یہ بات حکایت کی گئی ہے کہ وہ فرماتے تھے جو شخص کسی بھی قسم کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھا ہو پھر اس کے پاس آنے والا  شخص اسے سلام کرے، تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اسے سلام کا جواب نہ دے، ایسا ہی  محیط میں مذکور ہے۔(الفتاوٰی الھندیۃ، کتاب الکراھیۃ، ج 05، ص 326 ، مطبوعہ بیروت)

   تبیین الحقائق، بحر الرائق، فتاوٰی شامی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”و النظم للآخر“في شرح الشرعة: صرح الفقهاء بعدم وجوب الرد في بعض المواضع: القاضي إذا سلم عليه الخصمان، والأستاذ الفقيه إذا سلم عليه تلميذه أو غيره أوان الدرس، وسلام السائل، والمشتغل بقراءة القرآن، والدعاء حال شغله، والجالسين في المسجد لتسبيح أو قراءة أو ذكر حال التذكير۔“یعنی "شرح الشرعہ" میں مذکور ہے کہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق بعض مواقع پر سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے، جیسا کہ قاضی کو جب دونوں فریق سلام کریں، فقیہ استاد کہ جب اسے شاگرد یا کوئی اور شخص دورانِ درس  سلام کرے، مانگنے  والے کا سلام کرنا، قرآن کی تلاوت میں مشغول شخص کو سلام کرنا، دعا میں مشغول شخص کو سلام کرنا، مسجد میں تسبیح، قراءت یا  ذکر کرنے کے لیے بیٹھے ہوئے افراد کو  ذکر و وعظ کے وقت  سلام کرنا الخ۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ، ج 01، ص 618 ، مطبوعہ بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ” جن صورتوں میں سلام مکروہ ہے جیسے مصلی یا تالی یا ذاکر یا مستنجی یا آکل پر ان لوگوں کو اختیار ہے کہ جواب دیں یا نہ دیں ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ “  (فتاوٰی رضویہ، ج22،ص419، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بہار شریعت میں ہے:”جو شخص ذکر میں مشغول ہو اس کے پاس کوئی شخص آیا تو سلام نہ کرے اور کیا تو ذاکر (ذِکر کرنے والے)پر جواب واجب نہیں۔ “(بہارشریعت ، ج 03، ص462، مکتبۃ  المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم