Kisi Ne WhatsApp Par Salam Kiya To Jawab Dena Lazim Hai?

کسی نے WhatsApp پر سلام کیا ،تو جواب دینا لازم ہے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-2185

تاریخ اجراء: 30 جُمادَی الاُولیٰ 1443   ھ /04 جنوری 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص واٹس ایپ (WhatsApp)کے ذریعے سلام کرے ، تو کیا اس کا جواب دینا ضروری ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   واٹس ایپ (WhatsApp)پر کیے گئے سلام ، خواہ بول کر وائِس میسج  (voice message)کی صورت میں ہو یا لکھ کر ٹیکسٹ میسج (Text message )  کی صورت میں ، دونوں صورتوں میں اس کا جواب دینا لازم ہوتا ہے ۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ قلم ، پَین پینسل کے ذریعے کوئی چیز لکھنا زبان سے کلام کے ذریعے اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرنے کی طرح ہی ہے اور جس طرح انسان کے بنفسِ نفیس کسی چیز کے متعلق ایجاب و قبول کرنے کا حکم ہوتا ہے ، فقہائے کرام نے تحریر کے ذریعے بھی وہی حکم لگایا ہے ۔ اسی وجہ سے فقہائے کرام نے صراحت کی ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس خط وغیرہ میں لکھا ہوا سلام آیا ، تو اس لکھے ہوئے سلام کا جواب دینا لازم ہے۔جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے بہت ساری ایسی چیزیں وجود میں آگئی ہیں کہ ان کے ذریعے بھی انسان اپنے مافی الضمیر کا اظہار کر سکتا ہے اور فی زمانہ علمائے کرام نے ان کو بھی قلم اور خط کے حکم میں لیا ہے ۔ ان میں سے ایک چیز واٹس ایپ (WhatsApp) کے ذریعے پیغام رسانی کا معاملہ بھی ہے ، جس کے متعلق علمائے کرام کا فیصلہ ہے کہ خرید و فروخت ، طلاق ، وکالت وغیرہ وہ معاملات جن میں مجلس ایک ہونا شرط نہیں ، وہ معاملات واٹس ایپ (خواہ Text message ہو یا voice message ، اس ) کے ذریعے کیے گئے ، تو نافذ ہوجائیں گے ۔ یہی حکم سلام کے جواب میں بھی ہے کہ سلام کرنے والے اورجس کو سلام کیا جارہا ہے ، ان دونوں کی مجلس ایک ہونا شرط نہیں ( جیسا کہ اوپر خط کے ذریعے سلام سے متعلق گزرا ) ، تو واٹس ایپ کے ذریعے کسی نے سلام کیا ، تو اس کا سلام کرنا معتبر بھی ہوگا اور جس کے پاس یہ سلام پہنچا ، اس پرسلام بھیجنے والے کا حق متعلق ہوجائے گا اور اس پر سلام کا جواب دینا لازم ہوگا ۔

   البتہ واٹس ایپ پر کیے گئے سلام کا جواب دینے کے دو طریقے ہیں ۔ اگر اس کا جواب لکھ کر دے دیا ، تو بھی حق ادا ہوجائے گا اور اگر زبان سے جواب دے دیا ، اس طرح بھی ذمہ سے بری ہوجائے گا اور بہتر بھی یہی ہے کہ جیسے ہی کسی کا سلام موصول ہو ، تو فوراً زبان سے سلام کا جواب دیدے ، تاکہ تاخیر کی وجہ سے گنہگار بھی نہ ہو اور پھر واٹس ایپ کا جواب دیتے ہوئے بھی سلام کا جواب دے دینا چاہیے ، تاکہ وہ شخص کسی بدگمانی کا شکار بھی نہ ہو ۔

   سلام کا جواب دینے سے متعلق اللہ عز و جل قرآنِ مجید میں فرماتا ہے : ﴿ وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا ترجمہ کنزالایمان : ’’  اور جب تمہیں کوئی کسی لفظ سے سلام کرے ،تو تم اس سے بہتر لفظ جواب میں کہو یا وہی کہہ دو ۔ ‘‘

   اس آیتِ کریمہ کے  تحت تفسیرِ خزائن العرفان میں ہے : ’’ سلام کرنا سنّت ہے اور جواب دینا فرض ۔ ‘‘ ( پارہ 5، سورۃ النساء ، آیت 86 )

   سلام کا جواب دینا مسلمان کا حق ہے : ’’ حق المسلم على المسلم خمس: رد السلام، وعيادة المريض، وتشميت العاطس، واتباع الجنائز، وإجابة الدعوة ‘‘ ترجمہ : مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں : سلام کا جواب دینا ،بیمار کی عیادت کرنا ،جنازوں کے ساتھ جانا ،دعوت قبول کرنا ،چھینک کا جواب دینا۔ ( شعب الایمان ، جلد 11 ، صفحہ 444 ، مطبوعہ ریاض )

   قلم بھی ایک قسم کی زبان ہے ، چنانچہ علامہ عبد الرؤوف مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ان القلم احد اللسانين المعبرين عما في القلب ‘‘ ترجمہ : قلم بھی ایک قسم کی زبان ہے ، جو دلی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے ۔( فیض القدیر ،  جلد 4 ، صفحہ 336 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

   فقہِ حنفی کی مشہور کتاب الھدایہ میں ہے : ’’ والكتاب كالخطاب ‘‘ترجمہ : لکھنا بولنے کی طرح ہی ہے ۔

( الھدایہ ، کتاب البیوع  ، جلد 3 ، صفحہ 24 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ،بیروت )

   سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں : ’’ القلم احد اللسانین  ( یعنی : قلم بھی ایک زبان ہے۔) جو زبان سے کہے پراحکام ہیں، وہی قلم پر ۔ ‘‘      ( فتاویٰ رضویہ ، جلد 14 ، صفحہ 607 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   لکھے ہوئے سلام کا جواب دینے سے متعلق علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ ويجب رد جواب كتاب التحية کرد السلام ‘‘ ترجمہ : تحیت والے خط کے سلام کا جواب دینا ( اُسی طرح ) واجب ہے ، جیسا کہ ( زبان سے ) سلام کا جواب دینا ۔

   اس کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ لأن الكتاب من الغائب بمنزلة الخطاب من الحاضر   والناس عنه غافلون ط أقول المتبادر من هذا أن المراد رد سلام الكتاب لا رد الكتاب لكن في الجامع الصغير للسيوطي رد جواب الكتاب حق كرد السلام قال شارحه المناوي أي إذا كتب لك رجل بالسلام في كتاب ووصل إليك وجب عليك الرد باللفظ أو بالمراسلة ‘‘ ترجمہ : کیونکہ غائب شخص کی طرف سے آیا ہوا خط ایسے ہی ہے ، جیسا کہ سامنے موجود بندے کا کلام ، جبکہ لوگ اس مسئلے سے غافل ہیں ۔ ( علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ) میں کہتا ہوں کہ اس سے متبادر یہی ہے کہ اس خط کے سلام کا جواب دینا لازم ہے ، نہ کہ لکھ کر بھیجنا ، لیکن امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی جامع الصغیر میں ہے کہ خط والے سلام کا جواب دینا بھی ایسا ہی حق ہے ، جیسا کہ ( زبان سے ) سلام کا حکم ہے ۔ اس کے شارح علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی جب تجھے کسی شخص نے لکھ کر سلام بھیجا اور وہ خط تیرے پاس پہنچ گیا ، تو زبان کے ذریعے یا خط کے ذریعے ( دونوں میں سے کسی ایک کے ذریعے ) جواب دینا لازم ہے ۔ ( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الحظر و الاباحۃ ، فصل فی البیع ، جلد 9 ، صفحہ 685 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   اسی طرح صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں : ’’خط میں سلام لکھا ہوتا ہے اس کا بھی جواب دینا واجب ہے اور یہاں جواب دو طرح ہوتا ہے، ایک یہ کہ زبان سے جواب دے، دوسری صورت یہ ہے کہ سلام کا جواب لکھ کر بھیجے۔ مگر چونکہ جواب سلام فوراً دینا واجب ہے، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ،تو اگر فوراً تحریری جواب نہ ہو ،جیسا کہ عموما ً یہی ہوتا ہے کہ خط کا جواب فوراً ہی نہیں لکھا جاتا ، خواہ مخواہ کچھ دیر ہوتی ہے ، تو زبان سے جواب فوراً دے دے، تاکہ تاخیر سے گناہ نہ ہو۔ اسی وجہ سے علامہ سید احمد طحطاوی نے اس جگہ فرمایا: ’’ وَالنَّاسُ عَنْہُ غَافِلُوْنَ‘‘ یعنی لوگ اس سے غافل ہیں۔      اعلیٰ حضرت قبلہ قُدِّسَ سِرُّہ جب خط پڑھا کرتے ، تو خط میں جو السَّلام عَلَیْکُمْ لکھا ہوتا ہے ، اس کا جواب زبان سے دے کر بعد کا مضمون پڑھتے۔  ‘‘ ( بھارِ شریعت ، حصہ 16 ، جلد 3 ، صفحہ 463 ، 464 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   سلام کے جواب میں تاخیر کرنے سے متعلق صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’سلام کا جواب فوراً دینا واجب ہے، بلاعذر تاخیر کی ، تو گنہگار ہوا اور یہ گناہ جواب دینے سے دفع نہ ہوگا بلکہ توبہ کرنی ہوگی۔‘‘( بھارِ شریعت ، حصہ 16 ، جلد 3 ، صفحہ  460 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   نوٹ : جس طرح بنفسِ نفیس موجود شخص کے کیے گئے سلام میں بھی صرف اُسی سلام کا جواب دینا لازم ہوتا ہے ، جو تحیت کے لیے ہو ( یعنی بنیادی طور زیارت اور ملاقات کے لیے آیا ہو ، اپنے کسی اور کام کے لیے نہ آیا ہو ) ، اگر تحیت نہ ہو ، جیسا کہ بھیک مانگنے والا شخص یا قاضی کے پاس مقدمہ (Case)لے کر اور مفتی کے پاس مسئلہ معلوم کرنے کے لیے آئے ہوئے افراد سلام کریں ، تو ان کے سلام کا جواب دینا لازم نہیں ہوتا ( کہ یہ افراد ملاقات اور ملنے کے لیے نہیں آئے تھے ، بلکہ کسی اور کام کے لیے آئے تھے ، اس لیے یہ تحیت نہ ہوئی )، اسی طرح کسی چیز میں لکھے ہوئے یا واٹس ایپ وغیرہ میں کیے گئے سلام کا جواب لازم ہونے کے لیے سلامِ تحیت ہونا ضروری ہے ( کہ معنیٔ ملاقات یعنی حال احوال دریافت کرنے، تعلقات رکھنے، بڑھانے کے لیے میسج (Message)کیا ہو ، اپنے کسی اور کام کے لیے میسج نہ کیا ہو ) ، بصورتِ دیگر ( کہ کوئی مسئلہ معلوم کرنے یا کسی اور مقصد کے لیے میسج کیا ، تو یہ تحیت نہیں کہ اس کا مقصد مسئلہ وغیرہ معلوم کرنا ہے ، حال احوال دریافت کرنا نہیں ، لہٰذا  یہ تحیت نہ ہوئی اور )اس سلام کا جواب دینا بھی لازم نہیں ہوگا ، البتہ سلامِ تحیت کے علاوہ سلام کا جواب دینے نہ دینے کا اختیار ہے ۔

   لکھے ہوئے سلام میں بھی زبان سے کیے گئے سلام کی طرح تحیت والا ہونا ضروری ہے ، چنانچہ علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ ويجب رد جواب كتاب التحية کرد السلام ‘‘ ترجمہ : تحیت والے خط کے سلام کا جواب دینا ( اُسی طرح ) واجب ہے ، جیسا کہ ( زبان سے ) سلام کا جواب دینا ۔ ( الدر المختار مع رد المحتار ، کتاب الحظر و الاباحۃ ، فصل فی البیع ، جلد 9 ، صفحہ 685 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   بھیک مانگنے والے کے سلام کا جواب دینے سے متعلق امام برہان الدین ابن مازہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ وإذا قال السائل على الباب: السلام عليكم لا يجب رد السلام؛ لأن هذا ليس بسلام تحية بل هو شعار لسؤالهم   ‘‘ ترجمہ : دروازے پر بھیک مانگنے والے نے آکر سلام کیا ، تو اس سلام کا جواب دینا لازم نہیں ، کیونکہ یہ سلامِ تحیت نہیں ہے ، بلکہ ان کے سوال کی ایک علامت ہے ۔ ( المحیط البرھانی ، کتاب الاستحسان و الکراھیۃ ، الفصل الثامن ، جلد 8 ، صفحہ 17 ، مطبوعہ ادارۃ القرآن ، کراچی )

   اسی طرح قاضی کو مسندِ قضاء پر بیٹھے ہوئے مقدمہ لے کر آئے افراد نے سلام کیا ، تو اس سلام کا جواب دینا لازم نہیں ہے ، چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے : ’’ فأما القاضي فإنما جلس للفصل، والحكم لا للزيارة فلا يسلمون عليه، وإن سلموا مع هذا في مجلس الحكم فلا بأس أن يرد عليهم السلام، وهذا إشارة إلى أنه لا يجب عليه رد السلام بل يتخير إن شاء رد، وإن شاء لم يرد ‘‘ ترجمہ : قاضی جب لوگوں کے معاملات حل کرنے کے لیے بیٹھا ہو ، محض ملاقات کے لیے نہ بیٹھا ہو ، تو لوگ اس کو سلام نہ کریں اور اگر لوگوں نے اسی مجلس میں سلام کیا ، تو قاضی کے لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ سلام کا جواب دیدے ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قاضی پر جواب دینا لازم نہیں ہے ، بلکہ اسے اختیار ہے ، چاہے تو جواب دیدے اور چاہے نہ دے ۔ ( الفتاویٰ الھندیہ ، کتاب ادب القاضی ، الباب السابع ، جلد 3 ، صفحہ 321 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   یہی حکم مفتی کے پاس مسئلہ پوچھنے والوں کے سلام کا ہے ، چنانچہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ أن الخصوم إذا دخلوا على المفتي لا يسلمون عليه ۔۔۔۔ مفادہ ان کل محل لایشرع فیہ السلام لایجب ردہ ‘‘ ترجمہ : مفتی صاحب کے پاس مسئلہ پوچھنے والے افراد بھی مفتی صاحب کو سلام نہ کریں ۔۔۔ ( اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ) جس جگہ سلام کرنا مشروع نہیں ، وہاں کیے گئے سلام کا جواب دینا لازم نہیں ۔( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الصلوٰۃ ، باب مایفسد الصلوٰۃ ، جلد 2 ، صفحہ 452 تا 454 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   سلام صرف ملاقات کرنے والوں کی تحیت ہے اور ملاقات کے علاوہ کیا گیا سلام ، تحیت میں شامل نہیں ، نہ ہی اس کا جواب دینا لازم ہوتا ہے ، جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے : ’’ السلام تحية الزائرين والذين جلسوا في المسجد للقراءة والتسبيح او لانتظار الصلاة ما جلسوا فيه لدخول الزائرين عليهم فليس هذا اوان السلام فلا يسلم عليهم ولهذا قالوا لو سلم عليهم الداخل وسعهم ان لا يجيبوه“ ترجمہ : سلام ملاقات کرنے والوں کی تحیت کے لئے ہوتا ہے اور جو لوگ مسجد میں تلاوت قرآن، تسبیحات یا نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں ، وہ ملاقات کے لیے نہیں بیٹھے ہوتے ، لہٰذا یہ سلام کا موقع نہیں ، تو آنے والا شخص اِنہیں سلام نہ کرے ، اسی وجہ سے فقہاء نے فرمایا ہے کہ اگر آنے والے شخص نے اِن مذکورہ لوگوں کو سلام کیا ، تو اِنہیں اختیار ہے کہ اس کا جواب نہ دیں۔(الفتاوی الھندیہ، کتاب الکراھیۃ ، الباب السابع ، جلد5، صفحہ325، مطبوعہ کوئٹہ)

   اسی طرح صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ سلام اس لیے ہے کہ ملاقات کرنے کو جو شخص آئے ، وہ سلام کرے کہ زائر اور ملاقات کرنے والے کی یہ تحیت ہے، لہٰذا جو شخص مسجد میں آیا اور حاضرین مسجد تلاوت قرآن و تسبیح ودرود میں مشغول ہیں یا انتظارِ نماز میں بیٹھے ہیں تو سلام نہ کرے کہ یہ سلام کا وقت نہیں۔ اسی واسطے فقہا یہ فرماتے ہیں کہ ان کو اختیار ہے کہ جواب دیں یا نہ دیں۔ ہاں اگر کوئی شخص مسجد میں اس لیے بیٹھا ہے کہ لوگ اس کے پاس ملاقات کو آئیں ، تو آنے والے سلام کریں۔ ‘‘( بھارِ شریعت ، حصہ 16 ، جلد 3 ، صفحہ 462 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   لہٰذا جب واٹس ایپ پر بھی تحیت کے علاوہ اپنے کسی مقصد کے لیے سلام کیا ، تو وہ سلام کے محل میں نہیں ہوگا کہ حقیقتاً وہ سلام کے علاوہ اُس مقصد کو حاصل کرنے کا محل ہے ، تو اس سلام کا جواب دینا بھی لازم نہیں ہوگا ، جیسا کہ محیط برہانی میں ہے : ’’ ان الرد جواب السلام والسلام انما یستحق  الجواب اذا کان فی اوانہ، اما اذا کان فی غیر اوانہ فلا ‘ ‘ ترجمہ : واپس سلام کہنا سلام کا جواب دینا ہے اور  سلام ، جواب دیے جانے کا اُسی وقت مستحق ہوتا ہے کہ جب یہ اپنے وقت میں ہو ، اگر اپنے وقت میں نہ ہو ، تو اس کا جواب دینا واجب نہیں ۔( المحیط البرھانی ، کتاب الاستحسان و الکراھیۃ ، الفصل الثامن ، جلد 8 ، صفحہ 21 ، مطبوعہ ادارۃ القرآن ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم