کن کن مواقع پر سلام کرنا منع ہے؟ |
مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر:Kan:12117 |
تاریخ اجراء:05ربیع الثانی 1438ھ/جنوری2017ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو سلام کرنا کیسا ہے کیونکہ کچھ لوگ سنتیں ،نوافل اور بعض ذکر و اذکار کررہے ہوتے ہیں جبکہ آنے والے اکثر بہت اُونچی آواز میں سلام کرتے ہیں نیزاس کے علاوہ کن کن مواقع پر سلام کرنا منع ہے ؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
مسجد میں جولوگ تلاوت ِ قرآن ،تسبیح ودُرود ،وظائف میں مشغول ہوں ،یانماز کے انتظار میں بیٹھے ہوں، تومسجد میں آنے والا اُنہیں سلام نہ کرے اسلئے کہ یہ سلام کا وقت نہیں ، ایسے موقع پراگر کسی نے سلام کردیا تو جس کو سلام کیا ہے اُس کو اختیار ہےکہ سلام کا جواب دے ،یا نہ دے۔ہاں اگر کوئی شخص مسجد میں اس لیے بیٹھا ہے کہ لوگ اس کے پاس ملاقات کو آئیں تواس سے ملاقات کرنے کے لئے آنے والے اسے سلام کریں گے۔ مزید چند مقامات کہ جہاں سلام کرنا ممنوع ہے اُن کے متعلق مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں:کوئی شخص تلاوت میں مشغول ہے یا درس و تدریس یا علمی گفتگو یا سبق کی تکرار میں ہے تو اس کو سلام نہ کرے۔ اسی طرح اذان و اقامت و خطبہ جمعہ و عیدین کے وقت سلام نہ کرے۔ سب لوگ علمی گفتگو کررہے ہوں یا ایک شخص بول رہا ہے باقی سن رہے ہوں،دونوں صورتوں میں سلام نہ کرے، مثلاً عالم وعظ کہہ رہا ہے یا دینی مسئلہ پر تقریر کررہا ہے اور حاضرین سن رہے ہیں، آنے والا شخص چپکے سے آکر بیٹھ جائے سلام نہ کرے۔ (بہارِ شریعت جلد3،صفحہ 462،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) |
وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
کیادوہاتھ سے مصافحہ کرناسنت ہے؟
عمامہ میں کتنے شملے چھوڑناسنت ہے؟
تلاوت کرنے والےکو سلام کیا جائے تو جواب دے یانہیں؟
داڑھی کی حد کہاں سے کہاں تک ہے؟
جاتے وقت خدا حافظ کہنا
قبلہ کی طرف ٹانگیں پھیلانا،تُھوکناوغیرہ کیسا؟
عمامے کے کتنے شملے رکھنا سنت ہے اور شملے کا سائز کتنا ہونا چاہیے؟
کیا دعا کے بعد ہاتھ منہ پر پھیرنا سنت ہے؟