Khane Ke Baad Chalees Qadam Chalna Sunnat Hai Ya Nahi?

کھانے کے بعد چالیس قدم  چلناسنت ہے یانہیں ؟

مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3161

تاریخ اجراء:05ربیع الثانی1446ھ/09اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا کھانے کے بعد چالیس قدم  چلنا سنت ہے ؟ رہنمائی فرما دیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   تلاش ِ بسیار کے باوجود ہمیں اس کے سنت ہونے کی صراحت نہیں مل سکی، لہذا بغیرثبوت اسےسنت نہیں کہا جا سکتا۔البتہ! بعض  بزرگوں نے  اطباء کے حوالے سے لکھا کہ  رات کے کھانے کے بعد   کچھ چہل قدمی کرنی چاہیے،اگرچہ سو قدم ہی ہو۔ اوربعض متاخرین نے چالیس قدم کو مستحسن  (اچھا)کہا ہے۔

   احیاء علوم الدین (احیاء العلوم) میں ہے : قال الحجاج لبعض الأطباء: صف لي صفة آخذ بها ولا أعدوها، قال: لا تنكح من النساء إلا فتاة، ولا تأكل من اللحم إلا فتياً، ولا تأكل المطبوخ حتى يتم نضجه، ولا تشربن دواء إلا من علة، ولا تأكل من الفاكهة إلا نضيجها، ولا تأكلن طعاماً إلا أجدت مضغه ، وكل ما أحببت من الطعام، ولا تشربن عليه، فإذا شربت فلا تأكلن عليه شيئاً، ولا تحبس الغائط والبول ، وإذا أكلت بالنهار فنم، وإذا أكلت بالليل فامش قبل أن تنام، ولو مائة خطوة. وفي معناه قول العرب: تغد تمد، تعش تمش، يعني:تمدد“ ترجمہ: حجاج نے ایک طبیب سے کہا کہ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جسے میں اختیار کروں اور اس سے تجاوز نہ کروں۔ طبیب نے کہا: جوان عورت سے نکاح کرو، جو ان جانور کا گوشت کھاؤ، کسی چیز کو اس وقت تک نہ کھاؤ جب تک وہ اچھی طرح پک نہ جائے، بغیر بیماری کے دوانہ پیو، پھل خوب پکا ہواکھاؤ، کھانا اچھی طرح چبا کر کھاؤ، اپنی پسند کا کھانا کھاؤ، کھانے کے بعد پانی نہ پیو اور جب پانی پیو تو اس پر کچھ نہ کھاؤ، پیشاب پاخانہ نہ رو کو، دن میں کھاؤ تو سو جاؤ اور رات کو کھانےکے بعد کچھ چہل قدمی کر لو اگر چہ 100 قدم ہی ہو۔ عربوں کے مقولے:”تَغَدَّ تَمَدَّ تَعش تَمش یعنی دن کا کھانا کھا کر سو جاؤ اور شام کا کھانا کھا کر کچھ دیر چل لو کا یہی مطلب ہے۔(احیاء علوم الدین،ج 2،ص 19،دار المعرفۃ،بیروت)

   اس کی شرح میں محمد بن محمد حسینی زبیدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:واستحسن بعض المتأخرين الاقتصار على أربعين خطوة“ ترجمہ: اور بعض متاخرین  نے    چالیس قدم چلنے پر اکتفاء کرنے کو مستحسن  قرار دیا  ہے۔(إتحاف السادة المتقين بشرح إحياء علوم الدين، ج 5، ص 269، مؤسسة التاريخ العربي، بيروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم