مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: 6924- PIN
تاریخ اجراء: 12شعبان المعظم1443ھ16مارچ2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں
کہ آج کل سوشل میڈیا پہ ایک پوسٹ بہت زیادہ گردش کر رہی
ہے،جس میں کئی کتبِ احادیث کے حوالہ سے یہ روایت بیان کی گئی ہے:حضرتِ ابو سعید
خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’الغسل یوم الجمعۃ واجب علی
کل محتلم‘‘ترجمہ:جمعہ کے دن ہر بالغ شخص پر غسل کرنا
واجب ہے۔(بخاری شریف)لوگ اس کی وجہ سے کافی تشویش
میں مبتلا ہیں۔برائے کرم شرعی رہنمائی فرمائیں
کہ اس حدیث کے مطابق کیا واقعی جمعہ کے دن غسل کرنا واجب ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
اگر عذر نہ ہو،تو مسلمانوں
کو نمازِ جمعہ کے لیے پابندی کے ساتھ غسل کرنا چاہئے،اس کی
ترغیب کئی احادیث میں موجود ہے۔البتہ جمعہ کے دن
غسل کرنا واجب نہیں،بلکہ سنتِ غیرِ مؤکدہ ہے اور یہ بھی
ان افراد کے لیے ہے،جن پر جمعہ فرض ہے،لہٰذا جن پر جمعہ فرض
نہیں،مثلاً بچے اور عورتیں، ان کے حق میں یہ سنت
بھی نہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے غسلِ جمعہ کی ترغیب یوں ارشاد فرمائی ہے:’’اذاجاءاحدکم
الجمعۃ فلیغتسل‘‘ترجمہ:جب تم میں سے
کوئی نمازِ جمعہ پڑھنے آئے،تو اسے چاہئے کہ وہ غسل کرے۔ (صحیح البخاری، ج1،ص120،مطبوعہ
کراچی)
اس حدیثِ پاک کے
تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ
القوی ارشاد فرماتے ہیں:’’خیال رہے کہ غسل نمازِجمعہ کے
لیے سنت ہے،لہذا جن پرجمعہ فرض نہیں،ان کے لیے یہ غسل سنت
بھی نہیں،جیسا کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا
۔‘‘ (مرآۃ المناجیح،ج1،ص345،مطبوعہ،نعیمی کتب خانہ،گجرات)
تنویر الابصار مع
در مختار میں غسلِ جمعہ کا حکم یوں بیان کیا گیا ہے:’’(وسن
لصلاة جمعة و)لصلاة (عيد)
‘‘ترجمہ:نمازِ
جمعہ اور نمازِ عید کے لیے غسل مسنون ہے۔ (تنویر
الابصار مع در مختار،ج1،ص168،مطبوعہ دار الفکر)
اس کے تحت رد المحتار
میں ہے:’’هو من سنن الزوائد،فلا عتاب بتركه كما في القهستانی‘‘ترجمہ:یہ غسل سننِ زوائد میں سے ہے،لہذا اسے چھوڑنے پر
عتاب نہیں،جیسا کہ قہستانی میں ہے۔ (رد
المحتار، ج1،ص168، مطبوعہ دار
الفکر)
اب رہی سوال
میں بیان کردہ حدیث،تو علمائے کرام رحمہم
اللہ السلام نے اس کے مختلف جوابات
ارشاد فرمائے ہیں،جو درج ذیل ہیں:
(1)حدیثِ
پاک میں لفظِ ’’واجب‘‘سے مراد شرعی واجب نہیں کہ جس پر عمل کرنا
لازم اور اسے چھوڑنا گناہ ہوتا ہے،بلکہ اس
کا استعمال دیگر معانی میں ہوا ہے،جس کی تفصیل کچھ
یوں ہے:
(١لف)یہاں
لفظِ’’واجب‘‘تاکید کے لیے بولا گیا ہے اور عربی میں
اس کا استعمال تاکید کے لیے مشہور و معروف ہے۔جیسے کہا
جاتا ہے ’’حقک واجب علیّ‘‘تیرا حق مجھ پر واجب
یعنی اس کی تاکید ہےاور’’رعایۃ
فلان علینا واجبۃ‘‘فلاں کی رعایت ہم
پر واجب یعنی اس کی
تاکید ہے۔حدیثِ پاک
میں غسل کی تاکید کا مقصد یہ تھا کہ زمانہ ماضی
میں لوگوں کا رہن سہن موجودہ زمانے سے کافی مختلف تھا،وہ گرمی
کی شدت کے باوجود انتہائی محنت و مشقت والا کام کرتے اور اُون کا لباس
پہنے ہوتے تھے،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جمعہ کے
لیے غسل کر کے آنے کی تاکید کی،تاکہ پسینے کی
وجہ سے دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔
مذکورہ حدیثِ پاک کے تحت علامہ بدر الدین
عینی علیہ رحمۃ اللہ الغنی ارشاد فرماتے ہیں:’’(واجب)ای:متاكّد
فی حقه،كما يقول الرجل لصاحبه:حقك واجب علیّ، ای متاكّد،لا ان
المراد الواجب المحتم المعاقب عليه وشهد
لصحة هذا التاويل احاديث صحيحة غيره‘‘ترجمہ:جمعہ کا غسل
واجب یعنی جمعہ ادا کرنے والے کے حق میں اس کی
تاکید ہے ،جیسا کہ ایک شخص اپنے ساتھی سے یوں کہتا
ہے کہ تیرا حق مجھ پر واجب یعنی مؤکد ہے،اس سے مراد وہ واجب
نہیں،جس کی ادائیگی لازم ہوتی ہے اور (ادا نہ کرنے
کی صورت میں)اس پر سزا دی جاتی ہے اور اس تاویل کے
صحیح ہونے پر اس کے علاوہ کئی
صحیح حدیثیں گواہ ہیں۔ (عمدۃ القاری،ج6،ص153،مطبوعہ
دار احیاء التراث العربی،بیروت)
اور ملا علی
قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری ارشاد فرماتے ہیں:’’هذا
وامثاله تاكيد للاستحباب،كما يقال:رعاية فلان علينا واجبة ۔۔وسببه ان
القوم كانوا يعملون فی المهنة ويلبسون الصوف وثياب المهنة وكان المسجد ضيقا،متقارب
السقف،فاذا عرقوا تاذى بعضهم برائحة بعض، خصوصا فی بلادهم التی فی
غاية من الحرارة،فندبهم عليه الصلاة والسلام الى الاغتسال بلفظ الوجوب،ليكون ادعى الى
الاجابة‘‘ترجمہ:یہ اور اس کی مثل جتنی احادیث
ہیں،یہ مستحب کی تاکید کے لیے ہیں،جیسے
کہا جاتا ہے:فلاں کی رعایت ہم پر واجب ہے۔اس تاکید کا سبب
یہ تھا کہ لوگ مشقت والا کام کرتے
تھے،اون اور کام کاج کے کپڑے پہنے ہوتے،ان کی مسجد تنگ اور اس کی
چھت قریب ہوتی ،جب انہیں پسینہ آتا،تو بعض کو بعض کے
پسینے کی وجہ سے تکلیف ہوتی،خصوصاً ان علاقوں میں
جہاں انتہائی گرمی ہوتی،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے انہیں لفظِ وجوب کے ساتھ اس کا حکم دیا،تاکہ یہ عمل کی
طرف زیادہ راغب کرنے والا ہو جائے۔ (مرقاۃ
المفاتیح،ج2،ص487،مطبوعہ دار الفکر، بیروت ،لبنان)
(ب)یا پھر لفظِ ’’واجب‘‘ثابت کے معنی میں ہے اور
عربی میں یوں بھی
اس کا استعمال مشہور و معروف ہے،جیسے کہا جاتا ہے’’واجب فی
اخلاق الکریمۃ‘‘فلاں چیز اچھے اخلاق سے
ثابت ہے اور ’’واجب فی السنۃ‘‘فلاں معاملہ سنت سے ثابت ہے۔
مذکورہ حدیثِ پاک کے تحت ملا علی قاری علیہ
رحمۃ اللہ الباری ارشاد فرماتے ہیں:’’ (واجب) : ای:
ثابت لا ينبغی ان يترك، لا انه ياثم تاركه‘‘ترجمہ:یعنی
(ہر بالغ مسلمان، جس پر جمعہ فرض ہے،اس کے حق میں جمعہ کا غسل)شرعاً ثابت
ہے،اسے چھوڑنا، مناسب نہیں،نہ یہ کہ اس کو چھوڑنے والا گنہگار
ہوگا۔ (مرقاۃ المفاتیح،ج2،ص487، مطبوعہ دار الفکر،بیروت،لبنان)
اور مفتی احمد
یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد
فرماتے ہیں:’’اگرواجب بمعنی ثابت ہو،تو حدیث محکم ہے،منسوخ
نہیں۔‘‘(مراٰۃ المناجیح،ج1،ص345 ،مطبوعہ نعیمی
کتب خانہ،گجرات)
اس گفتگو سے واضح ہوا کہ حدیثِ پاک میں جمعہ کے غسل کے
ساتھ جو’’واجب‘‘ کا لفظ آیا ہے،اس سے مراد واجبِ شرعی نہیں کہ
جس کی وجہ سے غسل کو ضروری قرار دیا جائے۔
اس مؤقف کی تائیدحضرت
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی اس
روایت سے بھی ہوتی ہے ،جس
میں جمعہ کے دن غسل کے ساتھ مسواک کرنے اور خوشبو لگانے کا بھی تذکرہ
ہے،یعنی ان دونوں کے ساتھ بھی لفظِ ’’واجب‘‘آیا ہے۔علمائے کرام رحمہم
اللہ السلام نے فرمایا: مسواک کرنے اور خوشبو لگانے(جو بالاجماع واجب
نہیں)کے ساتھ بھی لفظِ ’’واجب‘‘آنا اس بات پہ واضح دلیل ہے کہ
یہاں ’’واجب‘‘شرعی معنی میں نہیں،اگر شرعی
معنی میں ہوتا،تو مسواک کرنا اور خوشبو لگانا بھی واجب ہوتا،حالانکہ
اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔
حضرتِ ابو سعید خدری
رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں
کہ:’’ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:الغسل یوم
الجمعۃ واجب علی کل محتلم والسواک ویمس من الطیب ما قدر
علیہ‘‘ترجمہ:بے شک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:جمعہ کےدن ہر بالغ شخص پر غسل کرنا،مسواک کرنا اورخوشبو(جس پر وہ قادر
ہو) لگانا واجب ہے۔ (سننِ نسائی،کتاب
الجمعۃ،باب الامر بالسواک یوم الجمعۃ،ج1،ص204، مطبوعہ لاھور)
اس طرح کی
روایات کے تحت علامہ عبد الرحمٰن بن احمد بن رجب الحنبلی
علیہ رحمۃ اللہ القوی
ارشاد فرماتے ہیں:’’ھذا مما استدل بہ جمھور العلماء
علی ان المراد بالوجوب ھاھنا تاکد الاستحباب،لانہ قرنہ بما لیس بواجب
اجماعا وھو الطیب والسواک‘‘ ترجمہ:یہ وہ
حدیث ہے،جس سے جمہور علماء نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ یہاں
وجوب سے مراد مستحب کی تاکید ہے،اس لیے کہ اسے ان چیزوں
کے ساتھ بھی ذکر کیا ہے،جو بالاجماع واجب نہیں اور وہ مسواک اور
خوشبو ہے۔ (فتح
الباری،ج8،ص120،مطبوعہ المدینۃ النبویہ)
(2)اگر بالفرض مان لیا جائے کہ’’واجب‘‘سے
مراد شرعی واجب ہی ہے،تو اس کے جوابات درج ذیل ہے:
(الف)یہ حدیث حضرتِ ابو
سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی دوسری
روایت سے منسوخ ہے کہ جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:جس نے جمعہ کے دن فقط وضو کیا،تو یہ بھی
ٹھیک ہے،البتہ غسل کرنا افضل ہے۔
علامہ بدر الدین
عینی علیہ رحمۃ اللہ الغنی ارشاد فرماتے ہیں:’’وبعض
اصحابنا قالوا: ان الحديث المذكور منسوخ بقوله صلى اللہ عليه وسلم:’’ من توضا يوم
الجمعة فبها ونعمت ومن اغتسل فهو افضل‘‘ واعترض بانه ضعيف،فكيف يحكم ان
الصحيح منسوخ به؟ قلت:هذا الحديث روی من سبعة انفس من الصحابة رضی اللہ
تعالى عنهم ۔۔وقال الترمذی: حديث حسن ۔۔ولئن سلمنا
ما قاله المعترض، فالاحاديث الضعيفة اذا ضم بعضها الى بعض اخذت قوة فيما اجتمعت
فيه من الحكم، كذا قاله البيهقی وغيره‘‘ترجمہ:ہمارے
بعض اصحاب نے فرمایا:بے شک مذکورہ حدیث حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے منسوخ ہے کہ’’جس نے جمعہ کے دن وضو کیا،تو
ٹھیک اور اچھا ہے اور جس نے غسل
کیا،تو یہ افضل ہے‘‘اس پر یوں اعتراض کیا گیا کہ’’یہ حدیث ضعیف ہے،تو یہ
حکم کیسے لگایا جا سکتا ہے کہ
صحیح حدیث اس سے منسوخ ہے؟میں نے کہا:یہ
حدیث سات صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم سے مروی ہے اورامام
ترمذی نے فرمایا :یہ حدیث حسن ہے۔اور اگر معترض
کی بات مان بھی لی جائے،تو احادیثِ ضعیفہ جب بعض
بعض کے ساتھ ملتی ہیں،تو جس حکم پر وہ متفق ہوتی ہیں،اس
میں قوت پکڑ لیتی ہیں،ایسے ہی امام بیہقی
وغیرہ نے فرمایا ہے۔ (عمدۃ القاری،ج6، ص165تا166، مطبوعہ دار
احیاء التراث العربی،بیروت)
اور مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ
اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں:’’اوراگر(واجب) بمعنی ضروری
ہے، تو منسوخ ہے۔‘‘ (مراٰۃ المناجیح،ج1،ص 345،مطبوعہ
نعیمی کتب خانہ،گجرات)
(ب)یہ حدیث خبرِ
واحد (اصولِ حدیث کی ایک خاص اصطلاح)ہے،اگر اس سے غسل کا وُجوب
ثابت کیا جائے، تو اس کی وجہ سے کتاب اللہ پر
زیادتی یعنی قرآنِ پاک کے حکم میں تبدیلی آجائے
گی،یوں کہ قرآنِ پاک میں بے وضو ہونے کی حالت میں نماز
کے لئے فقط وضو ضروری قرار
دیا گیا ہے،جبکہ اس حدیث میں غسل ضروری قرار دیا گیا ہےاورقاعدہ
یہ ہے کہ اگر خبرِ واحد کی وجہ سے کتاب اللہ کا حکم تبدیل ہو
رہا ہو،تو حدیث کو چھوڑ کر کتاب اللہ پر عمل کیا جائے گا،لہذا یہاں
بھی اس حدیثِ پاک کے حکم(غسل واجب ہونے)پر عمل نہیں کیا
جائے گا۔
بے وضو شخص کے لیے وضو کا حکم بیان کرتے ہوئے اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے:﴿یٰۤاَیُّہَا
الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی
الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمْ
وَاَیۡدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوۡا
بِرُءُوۡسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیۡنِ۔۔الخ﴾ترجمہ:اے ایمان والو!جب تم نماز کی طرف کھڑے
ہونے لگو،تو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور سروں کا مسح
کرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لو۔ (پ6،س المائدہ،آیت 6)
مذکورہ حدیثِ پاک
کی وجہ سے قرآنِ پاک کا حکم تبدیل ہونے کےحوالہ سے علامہ بدر
الدین عینی علیہ رحمۃ اللہ الغنی ارشاد
فرماتے ہیں:’’وقال المحققون من اصحابنا:ان حديث الكتاب خبر الواحد
فلا يخالف الكتاب، لانه يوجب غسل الاعضاء الثلاثة ومسح الراس عند القيام الى
الصلاة مع وجود الحدث، فلو وجب الغسل لكان زيادة على الكتاب بخبر الواحد وهذا لا
يجوز،لانه يصير كالنسخ،فافهم‘‘ ترجمہ:اور ہمارے اصحاب
میں سے محقّقین نے فرمایا:کتاب والی حدیث خبرِ واحد
ہے ،پس یہ کتاب اللہ(قرآنِ پاک) کے مقابلہ میں
نہیں آسکتی ،کیونکہ کتاب اللہ حدث کی موجودگی
میں نماز کی طرف کھڑے ہونے کے وقت تین اعضاء (چہرہ،کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ اور
ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں)دھونے اور سر کا مسح کرنے کو لازم قرار
دیتی ہے، پس اگر غسل واجب ہو،تو یہ کتاب اللہ
پر خبرِ واحد کے ذریعہ زیادتی ہوگی اور یہ جائز
نہیں،کیونکہ یہ حکمِ قرآنی کو منسوخ کرنے کی طرح ہو
جائے گا،پس تو سمجھ لے۔(عمدۃ القاری،ج6،ص166،مطبوعہ
دار احیاء التراث العربی،بیروت)
(3)
صحابہ کرام علیہم الرضوان کا بھی اس بات پہ اتفاق ہے کہ جمعہ کے دن
غسل کرنا واجب نہیں۔اس پر بخاری
وغیرہ کی وہ حدیث دلیل ہے،جس میں یہ تذکرہ ہے
کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ مصروفیت
کے سبب نمازِ جمعہ کے لیے غسل نہ کر سکےاورفقط وضو کر کے مسجد تشریف لے آئے، تو حضرت عمر رضی اللہ
تعالی عنہ نے ان سے یہ تو فرمایا کہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم جمعہ کے لیے غسل کا حکم دیا کرتے تھے،لیکن
انہیں غسل کے لیے واپس نہیں بھیجا۔
اس کے تحت علماء نے
فرمایا:اگر غسل واجب ہوتا،تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے
توجہ دلانے پر حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ غسل کرنے چلے
جاتے یا حضرت عمر خود انہیں بھیج دیتے،پھر یہ واقعہ
نمازِ جمعہ کے اجتماع میں پیش آیا،جس میں جلیل
القدر صحابہ کی ایک تعداد موجود تھی،اگر ان میں سے کسی
ایک کے نزدیک بھی واجب ہوتا،تو وہ اس بارے میں ضرور کلام فرماتے۔پس
جب حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نہ خود غسل کرنے گئے اور
نہ ہی انہیں اس کا حکم دیا گیا،تو اس کا واضح مطلب
یہ ہوا کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی جمعہ کے دن غسل کو واجب
نہ سمجھتے تھے۔
حضرت عثمان غنی
رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن
عمر رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ان
عمر ابن الخطاب بینما ھو قائم فی الخطبۃ یوم الجمعۃ،اذ
دخل رجل من المھاجرین الاولین من اصحاب النبی صلی اللہ
علیہ وسلم، فناداہ عمر:ایۃ ساعۃ ھذہ؟قال:انی
شغلت،فلم انقلب الی اھلی حتی سمعت التاذین،فلم ازد ان
توضات،فقال:والوضوء ایضا؟وقد علمت ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کان یامر بالغسل‘‘ترجمہ:بے شک حضرت عمر بن
خطاب رضی اللہ تعالی عنہ جمعہ کے دن خطبہ کے لیے کھڑے تھے،اچانک
پہلے ہجرت کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے
ایک شخص (حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ)آئے،پس حضرت عمر
رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں آواز دی کہ تاخیر سے
کیوں آئے ؟انہوں نے کہا:میں مصروف تھا،گھر آیا ہی تھا کہ
اذان سنی ،تو میں نے صرف وضو کیا(اور مسجد میں آگیا)،آپ
نے فرمایا:اور وضو بھی؟(یعنی تاخیر کےساتھ فقط وضو
کر کے آ گئے)،حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم غسل کا حکم دیا کرتے تھے۔(صحیح
البخاری،کتاب الجمعۃ،باب فضل الغسل یوم الجمعۃ،ج1،ص120، مطبوعہ کراچی)
اس حدیثِ پاک کے تحت
علامہ بدر الدین عینی علیہ رحمۃ اللہ الغنی ارشاد
فرماتے ہیں:’’وقد استدل بعضهم بقوله:’’كان يامر بالغسل‘‘ ان الغسل
يوم الجمعة واجب،وهذا الاستدلال ضعيف،لانه لو كان واجبا لرجع عثمان حين كلمه عمر
رضی اللہ تعالى عنه او لرده عمر حين لم يرجع،فلما لم يرجع ولم يؤمر بالرجوع
ويحضرهما المهاجرون والانصار دل على انه ليس بواجب وهذه قرينة على ان المراد من قوله
صلى الله عليه وسلم فی الحديث الذی فيه’’فليغتسل‘‘ليس امر الايجاب،بل
هو للندب‘‘ ترجمہ:بعض لوگوں نے اس فرمان’’حضور
صلی اللہ علیہ وسلم غسل کا حکم دیتے تھے‘‘سے استدلال کیا
ہے کہ بے شک جمعہ کے دن غسل کرنا واجب ہے اور یہ استدلال کمزور
ہے،کیونکہ اگر غسل واجب ہوتا،تو جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ
نے حضرتِ عثمانِ غنی رضی اللہ
سے گفتگو کی ،تو حضرتِ عثمان غسل کرنے کے لئے واپس چلے جاتے یا وہ خود
نہیں گئے،تو حضرت عمر انہیں بھیج دیتے۔پس جب وہ خود
نہیں گئے اور نہ ہی انہیں جانے کا حکم دیا گیا
،نیز ان کے پاس مہاجرین اور انصار صحابہ موجود تھے،تو یہ اس بات
پہ دلیل ہے کہ غسل واجب نہیں اور یہ اس بات پہ قرینہ ہے
کہ حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان’’جو
جمعہ کے لئے آئے وہ غسل کرے‘‘میں امر وجوب کے لئے نہیں،بلکہ استحباب
کے لئے ہے۔ (عمدۃ القاری،ج6،ص168،مطبوعہ دار
احیاء التراث،العربی،بیروت)
اور علامہ ابو الولید سلیمان بن خلف الاندلسی
علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں:’’ويقتضی
ذلك اجماع الصحابة على ان الغسل يوم الجمعة ليس بواجب وجوبا يعصی تاركه۔۔ولو
كان فيهم من يعتقد وجوبه لسارع الى الانكار على عثمان والامر بالقيام الى الاغتسال۔۔فهو
اجماع يجب التزامه والعمل به‘‘ترجمہ:مذکورہ واقعہ صحابہ
کرام علیہم الرضوان کے اجماع کا تقاضا کرتا ہے کہ بے شک جمعہ کے دن غسل واجب
نہیں کہ جس کو چھوڑنے والا گنہگار ہو،اگر صحابہ میں سے کوئی غسل
کے وجوب کا اعتقاد رکھتا،تو ضرور حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ
تعالی عنہ پر انکار اور انہیں غسل کے لئے جانے کا حکم دینے
میں جلدی کرتا۔پس یہ اجماع ہوا،اسے لازم پکڑنا اور اس پر
عمل کرنا واجب ہے۔ (المنتقی شرح مؤطا،ج1،ص185،مطبوعہ
مطبعۃ السعادۃ،مصر)
تنبیہ:بعض روایات میں غسلِ جمعہ کو غسلِ جنابت کے ساتھ تشبیہ بھی دی
گئی ہے،یعنی یہ کہا گیا ہے کہ جمعہ کا غسل جنابت کے
غسل کی طرح ہے،تو یاد رہے کہ اس سے مراد یہ نہیں کہ
یہ جنابت کے غسل کی طرح ضروری ہے،بلکہ مراد یہ ہے کہ اس
کا طریقہ جنابت کے غسل ہی کی طرح ہے۔
علامہ ابو عمر
یوسف بن عبد اللہ القرطبی المعروف ابن عبدالبر علیہ رحمۃ
اللہ الغنی ارشاد فرماتے ہیں:’’واما قول ابی
هريرة كغسل الجنابة فانه اراد الهيئة والكيفية ففی هذا جاء تشبيهه له بغسل
الجنابة، لا فی الفرض والوجوب بما ذكرنا من الدلائل مع انه محفوظ معلوم عن ابی
هريرة انه كان يامر بالغسل ولا يوجبه فرضا ويقول فيه كغسل الجنابة‘‘ترجمہ:بہرحال حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی
عنہ کا یہ کہنا کہ’’جمعہ کا غسل، جنابت کے غسل کی طرح ہے‘‘تو انہوں نے اس سے
طریقہ و کیفیت مراد لی ہے ،لہذااس میں غسل جنابت(کے
طریقے) کے ساتھ تشبیہ ہے،نہ
کہ فرض یا واجب ہونے میں،ان دلائل کی وجہ سے جو ہم نے ذکر کیے
،مزید یہ کہ حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے
منقول و مروی ہے کہ وہ غسل کا حکم
دیتے اور بطورِ لزوم اسے واجب
نہیں سمجھتے تھے،لیکن اس میں بھی کہتے تھے کہ یہ
غسل جنابت کے غسل کی طرح ہے۔ (الاستذکار، ج2،ص12، مطبوعہ دار
الکتب العلمیہ،بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیادوہاتھ سے مصافحہ کرناسنت ہے؟
عمامہ میں کتنے شملے چھوڑناسنت ہے؟
تلاوت کرنے والےکو سلام کیا جائے تو جواب دے یانہیں؟
کن کن مواقع پر سلام کرنا منع ہے؟
داڑھی کی حد کہاں سے کہاں تک ہے؟
جاتے وقت خدا حافظ کہنا
قبلہ کی طرف ٹانگیں پھیلانا،تُھوکناوغیرہ کیسا؟
عمامے کے کتنے شملے رکھنا سنت ہے اور شملے کا سائز کتنا ہونا چاہیے؟