مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: 6924- PIN
تاریخ اجراء: 12شعبان المعظم1443ھ16مارچ2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں
کہ آج کل سوشل میڈیا پہ ایک پوسٹ بہت زیادہ گردش کر رہی
ہے،جس میں کئی کتبِ احادیث کے حوالہ سے یہ روایت بیان کی گئی ہے:حضرتِ ابو سعید
خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’الغسل یوم الجمعۃ واجب علی
کل محتلم‘‘ترجمہ:جمعہ کے دن ہر بالغ شخص پر غسل کرنا
واجب ہے۔(بخاری شریف)لوگ اس کی وجہ سے کافی تشویش
میں مبتلا ہیں۔برائے کرم شرعی رہنمائی فرمائیں
کہ اس حدیث کے مطابق کیا واقعی جمعہ کے دن غسل کرنا واجب ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
اگر عذر نہ ہو،تو مسلمانوں
کو نمازِ جمعہ کے لیے پابندی کے ساتھ غسل کرنا چاہئے،اس کی
ترغیب کئی احادیث میں موجود ہے۔البتہ جمعہ کے دن
غسل کرنا واجب نہیں،بلکہ سنتِ غیرِ مؤکدہ ہے اور یہ بھی
ان افراد کے لیے ہے،جن پر جمعہ فرض ہے،لہٰذا جن پر جمعہ فرض
نہیں،مثلاً بچے اور عورتیں، ان کے حق میں یہ سنت
بھی نہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے غسلِ جمعہ کی ترغیب یوں ارشاد فرمائی ہے:’’اذاجاءاحدکم
الجمعۃ فلیغتسل‘‘ترجمہ:جب تم میں سے
کوئی نمازِ جمعہ پڑھنے آئے،تو اسے چاہئے کہ وہ غسل کرے۔ (صحیح البخاری، ج1،ص120،مطبوعہ
کراچی)
اس حدیثِ
تنویر الابصار مع
در مختار میں غسلِ جمعہ کا حکم یوں بیان کیا گیا ہے:’’(وسن
لصلاة جمعة و)لصلاة (عيد)
‘‘ترجمہ:نمازِ
جمعہ اور نمازِ عید کے لیے غسل مسنون ہے۔ (تنویر
الابصار مع در مختار،ج1،ص168،مطبوعہ دار الفکر)
اس کے تحت رد المحتار
میں ہے:’’هو من سنن الزوائد،فلا عتاب بتركه كما في القهستانی‘‘ترجمہ:یہ غسل سننِ زوائد میں سے ہے،لہذا اسے چھوڑنے پر
عتاب نہیں،جیسا کہ قہستانی میں ہے۔ (رد
المحتار، ج1،ص168، مطبوعہ دار
الفکر)
اب رہی سوال
میں بیان کردہ حدیث،تو علمائے کرام رحمہم
اللہ السلام نے اس کے مختلف جوابات
ارشاد فرمائے ہیں،جو درج ذیل ہیں:
(1)حدیثِ
(١لف)یہاں
لفظِ’’واجب‘‘تاکید کے لیے بولا گیا ہے اور عربی میں
اس کا استعمال تاکید کے لیے مشہور و معروف ہے۔جیسے کہا
جاتا ہے ’’حقک واجب علیّ‘‘تیرا حق مجھ پر واجب
یعنی اس کی تاکید ہےاور’’رعایۃ
فلان علینا واجبۃ‘‘فلاں کی رعایت ہم
پر واجب یعنی اس کی
تاکید ہے۔حدیثِ
مذکورہ حدیثِ
اور ملا علی
قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری ارشاد فرماتے ہیں:’’هذا
وامثاله تاكيد للاستحباب،كما يقال:رعاية فلان علينا واجبة ۔۔وسببه ان
القوم كانوا يعملون فی المهنة ويلبسون الصوف وثياب المهنة وكان المسجد ضيقا،متقارب
السقف،فاذا عرقوا تاذى بعضهم برائحة بعض، خصوصا فی بلادهم التی فی
غاية من الحرارة،فندبهم عليه الصلاة والسلام الى الاغتسال بلفظ الوجوب،ليكون ادعى الى
الاجابة‘‘ترجمہ:یہ اور اس کی مثل جتنی احادیث
ہیں،یہ مستحب کی تاکید کے لیے ہیں،جیسے
کہا جاتا ہے:فلاں کی رعایت ہم پر واجب ہے۔اس تاکید کا سبب
یہ تھا کہ لوگ مشقت والا کام کرتے
تھے،اون اور کام کاج کے کپڑے پہنے ہوتے،ان کی مسجد تنگ اور اس کی
چھت قریب ہوتی ،جب انہیں پسینہ آتا،تو بعض کو بعض کے
پسینے کی وجہ سے تکلیف ہوتی،خصوصاً ان علاقوں میں
جہاں انتہائی گرمی ہوتی،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے انہیں لفظِ وجوب کے ساتھ اس کا حکم دیا،تاکہ یہ عمل کی
طرف زیادہ راغب کرنے والا ہو جائے۔ (مرقاۃ
المفاتیح،ج2،ص487،مطبوعہ دار الفکر، بیروت ،لبنان)
(ب)یا پھر لفظِ ’’واجب‘‘ثابت کے معنی میں ہے اور
عربی میں یوں بھی
اس کا استعمال مشہور و معروف ہے،جیسے کہا جاتا ہے’’واجب فی
اخلاق الکریمۃ‘‘فلاں چیز اچھے اخلاق سے
ثابت ہے اور ’’واجب فی السنۃ‘‘فلاں معاملہ سنت سے ثابت ہے۔
مذکورہ حدیثِ
اور مفتی احمد
یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد
فرماتے ہیں:’’اگرواجب بمعنی ثابت ہو،تو حدیث محکم ہے،منسوخ
نہیں۔‘‘(مراٰۃ المناجیح،ج1،ص345 ،مطبوعہ نعیمی
کتب خانہ،گجرات)
اس گفتگو سے واضح ہوا کہ حدیثِ
اس مؤقف کی تائیدحضرت
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی اس
روایت سے بھی ہوتی ہے ،جس
میں جمعہ کے دن غسل کے ساتھ مسواک کرنے اور خوشبو لگانے کا بھی تذکرہ
ہے،یعنی ان دونوں کے ساتھ بھی لفظِ ’’واجب‘‘آیا ہے۔علمائے کرام رحمہم
اللہ السلام نے فرمایا: مسواک کرنے اور خوشبو لگانے(جو بالاجماع واجب
نہیں)کے ساتھ بھی لفظِ ’’واجب‘‘آنا اس بات پہ واضح دلیل ہے کہ
یہاں ’’واجب‘‘شرعی معنی میں نہیں،اگر شرعی
معنی میں ہوتا،تو مسواک کرنا اور خوشبو لگانا بھی واجب ہوتا،حالانکہ
اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔
حضرتِ ابو سعید خدری
رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں
کہ:’’ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:الغسل یوم
الجمعۃ واجب علی کل محتلم والسواک ویمس من الطیب ما قدر
علیہ‘‘ترجمہ:بے شک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:جمعہ کےدن ہر بالغ شخص پر غسل کرنا،مسواک کرنا اورخوشبو(جس پر وہ قادر
ہو) لگانا واجب ہے۔ (سننِ نسائی،کتاب
الجمعۃ،باب الامر بالسواک یوم الجمعۃ،ج1،ص204، مطبوعہ لاھور)
اس طرح کی
روایات کے تحت علامہ عبد الرحمٰن بن احمد بن رجب الحنبلی
علیہ رحمۃ اللہ القوی
ارشاد فرماتے ہیں:’’ھذا مما استدل بہ جمھور العلماء
علی ان المراد بالوجوب ھاھنا تاکد الاستحباب،لانہ قرنہ بما لیس بواجب
اجماعا وھو الطیب والسواک‘‘ ترجمہ:یہ وہ
حدیث ہے،جس سے جمہور علماء نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ یہاں
وجوب سے مراد مستحب کی تاکید ہے،اس لیے کہ اسے ان چیزوں
کے ساتھ بھی ذکر کیا ہے،جو بالاجماع واجب نہیں اور وہ مسواک اور
خوشبو ہے۔ (فتح
الباری،ج8،ص120،مطبوعہ المدینۃ النبویہ)
(2)اگر بالفرض مان لیا جائے کہ’’واجب‘‘سے
مراد شرعی واجب ہی ہے،تو اس کے جوابات درج ذیل ہے:
(الف)یہ حدیث حضرتِ ابو
سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی دوسری
روایت سے منسوخ ہے کہ جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:جس نے جمعہ کے دن فقط وضو کیا،تو یہ بھی
ٹھیک ہے،البتہ غسل کرنا افضل ہے۔
علامہ بدر الدین
عینی علیہ رحمۃ اللہ الغنی ارشاد فرماتے ہیں:’’وبعض
اصحابنا قالوا: ان ال
اور مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ
اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں:’’اوراگر(واجب) بمعنی ضروری
ہے، تو منسوخ ہے۔‘‘ (مراٰۃ المناجیح،ج1،ص 345،مطبوعہ
نعیمی کتب خانہ،گجرات)
(ب)یہ حدیث خبرِ
واحد (اصولِ حدیث کی ایک خاص اصطلاح)ہے،اگر اس سے غسل کا وُجوب
ثابت کیا جائے، تو اس کی وجہ سے کتاب اللہ پر
زیادتی یعنی قرآنِ
بے وضو شخص کے لیے وضو کا حکم بیان کرتے ہوئے اللہ
مذکورہ حدیثِ
(3)
صحابہ کرام علیہم الرضوان کا بھی اس بات پہ اتفاق ہے کہ جمعہ کے دن
غسل کرنا واجب نہیں۔اس پر بخاری
وغیرہ کی وہ حدیث دلیل ہے،جس میں یہ تذکرہ ہے
کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ مصروفیت
کے سبب نمازِ جمعہ کے لیے غسل نہ کر سکےاورفقط وضو کر کے مسجد تشریف لے آئے، تو حضرت عمر رضی اللہ
تعالی عنہ نے ان سے یہ تو فرمایا کہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم جمعہ کے لیے غسل کا حکم دیا کرتے تھے،لیکن
انہیں غسل کے لیے واپس نہیں بھیجا۔
اس کے تحت علماء نے
فرمایا:اگر غسل واجب ہوتا،تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے
توجہ دلانے پر حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ غسل کرنے چلے
جاتے یا حضرت عمر خود انہیں بھیج دیتے،پھر یہ واقعہ
نمازِ جمعہ کے اجتماع میں پیش آیا،جس میں جلیل
القدر صحابہ کی ایک تعداد موجود تھی،اگر ان میں سے کسی
ایک کے نزدیک بھی واجب ہوتا،تو وہ اس بارے میں ضرور کلام فرماتے۔پس
جب حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نہ خود غسل کرنے گئے اور
نہ ہی انہیں اس کا حکم دیا گیا،تو اس کا واضح مطلب
یہ ہوا کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی جمعہ کے دن غسل کو واجب
نہ سمجھتے تھے۔
حضرت عثمان غنی
رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن
عمر رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ان
عمر ابن الخطاب بینما ھو قائم فی الخطبۃ یوم الجمعۃ،اذ
دخل رجل من المھاجرین الاولین من اصحاب النبی صلی اللہ
علیہ وسلم، فناداہ عمر:ایۃ ساعۃ ھذہ؟قال:انی
شغلت،فلم انقلب الی اھلی حتی سمعت التاذین،فلم ازد ان
توضات،فقال:والوضوء ایضا؟وقد علمت ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کان یامر بالغسل‘‘ترجمہ:بے شک حضرت عمر بن
خطاب رضی اللہ تعالی عنہ جمعہ کے دن خطبہ کے لیے کھڑے تھے،اچانک
پہلے ہجرت کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے
ایک شخص (حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ)آئے،پس حضرت عمر
رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں آواز دی کہ تاخیر سے
کیوں آئے ؟انہوں نے کہا:میں مصروف تھا،گھر آیا ہی تھا کہ
اذان سنی ،تو میں نے صرف وضو کیا(اور مسجد میں آگیا)،آپ
نے فرمایا:اور وضو بھی؟(یعنی تاخیر کےساتھ فقط وضو
کر کے آ گئے)،حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم غسل کا حکم دیا کرتے تھے۔(صحیح
البخاری،کتاب الجمعۃ،باب فضل الغسل یوم الجمعۃ،ج1،ص120، مطبوعہ کراچی)
اس حدیثِ
اور علامہ ابو الولید سلیمان بن خلف الاندلسی
علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں:’’ويقتضی
ذلك اجماع الصحابة على ان الغسل يوم الجمعة ليس بواجب وجوبا يعصی تاركه۔۔ولو
كان فيهم من يعتقد وجوبه لسارع الى الانكار على عثمان والامر بالقيام الى الاغتسال۔۔فهو
اجماع يجب التزامه والعمل به‘‘ترجمہ:مذکورہ واقعہ صحابہ
کرام علیہم الرضوان کے اجماع کا تقاضا کرتا ہے کہ بے شک جمعہ کے دن غسل واجب
نہیں کہ جس کو چھوڑنے والا گنہگار ہو،اگر صحابہ میں سے کوئی غسل
کے وجوب کا اعتقاد رکھتا،تو ضرور حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ
تعالی عنہ پر انکار اور انہیں غسل کے لئے جانے کا حکم دینے
میں جلدی کرتا۔پس یہ اجماع ہوا،اسے لازم پکڑنا اور اس پر
عمل کرنا واجب ہے۔ (المنتقی شرح مؤطا،ج1،ص185،مطبوعہ
مطبعۃ السعادۃ،مصر)
تنبیہ:بعض روایات میں غسلِ جمعہ کو غسلِ جنابت کے ساتھ تشبیہ بھی دی
گئی ہے،یعنی یہ کہا گیا ہے کہ جمعہ کا غسل جنابت کے
غسل کی طرح ہے،تو یاد رہے کہ اس سے مراد یہ نہیں کہ
یہ جنابت کے غسل کی طرح ضروری ہے،بلکہ مراد یہ ہے کہ اس
کا طریقہ جنابت کے غسل ہی کی طرح ہے۔
علامہ ابو عمر
یوسف بن عبد اللہ القرطبی المعروف ابن عبدالبر علیہ رحمۃ
اللہ الغنی ارشاد فرماتے ہیں:’’واما قول ابی
هريرة كغسل الجنابة فانه اراد الهيئة والكيفية ففی هذا جاء تشبيهه له بغسل
الجنابة، لا فی الفرض والوجوب بما ذكرنا من الدلائل مع انه محفوظ معلوم عن ابی
هريرة انه كان يامر بالغسل ولا يوجبه فرضا ويقول فيه كغسل الجنابة‘‘ترجمہ:بہرحال حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی
عنہ کا یہ کہنا کہ’’جمعہ کا غسل، جنابت کے غسل کی طرح ہے‘‘تو انہوں نے اس سے
طریقہ و کیفیت مراد لی ہے ،لہذااس میں غسل جنابت(کے
طریقے) کے ساتھ تشبیہ ہے،نہ
کہ فرض یا واجب ہونے میں،ان دلائل کی وجہ سے جو ہم نے ذکر کیے
،مزید یہ کہ حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے
منقول و مروی ہے کہ وہ غسل کا حکم
دیتے اور بطورِ لزوم اسے واجب
نہیں سمجھتے تھے،لیکن اس میں بھی کہتے تھے کہ یہ
غسل جنابت کے غسل کی طرح ہے۔ (الاستذکار، ج2،ص12، مطبوعہ دار
الکتب العلمیہ،بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیادوہاتھ سے مصافحہ کرناسنت ہے؟
عمامہ میں کتنے شملے چھوڑناسنت ہے؟
تلاوت کرنے والےکو سلام کیا جائے تو جواب دے یانہیں؟
کن کن مواقع پر سلام کرنا منع ہے؟
داڑھی کی حد کہاں سے کہاں تک ہے؟
جاتے وقت خدا حافظ کہنا
قبلہ کی طرف ٹانگیں پھیلانا،تُھوکناوغیرہ کیسا؟
عمامے کے کتنے شملے رکھنا سنت ہے اور شملے کا سائز کتنا ہونا چاہیے؟