مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: 6924- PIN
تاریخ اجراء: 12شعبان المعظم1443ھ16مارچ2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں
کہ آج کل سوشل میڈیا پہ ایک پوسٹ بہت زیادہ گردش کر رہی
ہے،جس میں کئی کتبِ احادیث کے حوالہ سے یہ روایت بیان کی گئی ہے:حضرتِ ابو سعید
خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’الغسل یوم الجمعۃ واجب علی
کل محتلم‘‘ترجمہ:
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
اگر عذر نہ ہو،تو مسلمانوں
کو
حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے غسلِ
اس حدیثِ پاک کے
تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ
القوی ارشاد فرماتے ہیں:’’خیال رہے کہ غسل
تنویر الابصار مع
در مختار میں غسلِ
اس کے تحت رد المحتار
میں ہے:’’هو من سنن الزوائد،فلا عتاب بتركه كما في القهستانی‘‘ترجمہ:یہ غسل سننِ زوائد میں سے ہے،لہذا اسے چھوڑنے پر
عتاب نہیں،جیسا کہ قہستانی میں ہے۔ (رد
المحتار، ج1،ص168، مطبوعہ دار
الفکر)
اب رہی سوال
میں بیان کردہ حدیث،تو علمائے کرام رحمہم
اللہ السلام نے اس کے مختلف جوابات
ارشاد فرمائے ہیں،جو درج ذیل ہیں:
(1)حدیثِ
پاک میں لفظِ ’’واجب‘‘سے مراد شرعی واجب نہیں کہ جس پر عمل کرنا
لازم اور اسے چھوڑنا گناہ ہوتا ہے،بلکہ اس
کا استعمال دیگر معانی میں ہوا ہے،جس کی تفصیل کچھ
یوں ہے:
(١لف)یہاں
لفظِ’’واجب‘‘تاکید کے لیے بولا گیا ہے اور عربی میں
اس کا استعمال تاکید کے لیے مشہور و معروف ہے۔جیسے کہا
جاتا ہے ’’حقک واجب علیّ‘‘تیرا حق مجھ پر واجب
یعنی اس کی تاکید ہےاور’’رعایۃ
فلان علینا واجبۃ‘‘فلاں کی رعایت ہم
پر واجب یعنی اس کی
تاکید ہے۔حدیثِ پاک
میں غسل کی تاکید کا مقصد یہ تھا کہ زمانہ ماضی
میں لوگوں کا رہن سہن موجودہ زمانے سے کافی مختلف تھا،وہ گرمی
کی شدت کے باوجود انتہائی محنت و مشقت والا کام کرتے اور اُون کا لباس
پہنے ہوتے تھے،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں
مذکورہ حدیثِ پاک کے تحت علامہ بدر الدین
عینی علیہ رحمۃ اللہ الغنی ارشاد فرماتے ہیں:’’(واجب)ای:متاكّد
فی حقه،كما يقول الرجل لصاحبه:حقك واجب علیّ، ای متاكّد،لا ان
المراد الواجب المحتم المعاقب عليه وشهد
لصحة هذا التاويل احاديث صحيحة غيره‘‘ترجمہ:
اور ملا علی
قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری ارشاد فرماتے ہیں:’’هذا
وامثاله تاكيد للاستحباب،كما يقال:رعاية فلان علينا واجبة ۔۔وسببه ان
القوم كانوا يعملون فی المهنة ويلبسون الصوف وثياب المهنة وكان المسجد ضيقا،متقارب
السقف،فاذا عرقوا تاذى بعضهم برائحة بعض، خصوصا فی بلادهم التی فی
غاية من الحرارة،فندبهم عليه الصلاة والسلام الى الاغتسال بلفظ الوجوب،ليكون ادعى الى
الاجابة‘‘ترجمہ:یہ اور اس کی مثل جتنی احادیث
ہیں،یہ مستحب کی تاکید کے لیے ہیں،جیسے
کہا جاتا ہے:فلاں کی رعایت ہم پر واجب ہے۔اس تاکید کا سبب
یہ تھا کہ لوگ مشقت والا کام کرتے
تھے،اون اور کام کاج کے کپڑے پہنے ہوتے،ان کی مسجد تنگ اور اس کی
چھت قریب ہوتی ،جب انہیں پسینہ آتا،تو بعض کو بعض کے
پسینے کی وجہ سے تکلیف ہوتی،خصوصاً ان علاقوں میں
جہاں انتہائی گرمی ہوتی،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے انہیں لفظِ وجوب کے ساتھ اس کا حکم دیا،تاکہ یہ عمل کی
طرف زیادہ راغب کرنے والا ہو جائے۔ (مرقاۃ
المفاتیح،ج2،ص487،مطبوعہ دار الفکر، بیروت ،لبنان)
(ب)یا پھر لفظِ ’’واجب‘‘ثابت کے معنی میں ہے اور
عربی میں یوں بھی
اس کا استعمال مشہور و معروف ہے،جیسے کہا جاتا ہے’’واجب فی
اخلاق الکریمۃ‘‘فلاں چیز اچھے اخلاق سے
ثابت ہے اور ’’واجب فی السنۃ‘‘فلاں معاملہ سنت سے ثابت ہے۔
مذکورہ حدیثِ پاک کے تحت ملا علی قاری علیہ
رحمۃ اللہ الباری ارشاد فرماتے ہیں:’’ (واجب) : ای:
ثابت لا ينبغی ان يترك، لا انه ياثم تاركه‘‘ترجمہ:یعنی
(ہر بالغ مسلمان، جس پر
اور مفتی احمد
یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد
فرماتے ہیں:’’اگرواجب بمعنی ثابت ہو،تو حدیث محکم ہے،منسوخ
نہیں۔‘‘(مراٰۃ المناجیح،ج1،ص345 ،مطبوعہ نعیمی
کتب خانہ،گجرات)
اس گفتگو سے واضح ہوا کہ حدیثِ پاک میں
اس مؤقف کی تائیدحضرت
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی اس
روایت سے بھی ہوتی ہے ،جس
میں
حضرتِ ابو سعید خدری
رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں
کہ:’’ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:الغسل یوم
الجمعۃ واجب علی کل محتلم والسواک ویمس من الطیب ما قدر
علیہ‘‘ترجمہ:بے شک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:
اس طرح کی
روایات کے تحت علامہ عبد الرحمٰن بن احمد بن رجب الحنبلی
علیہ رحمۃ اللہ القوی
ارشاد فرماتے ہیں:’’ھذا مما استدل بہ جمھور العلماء
علی ان المراد بالوجوب ھاھنا تاکد الاستحباب،لانہ قرنہ بما لیس بواجب
اجماعا وھو الطیب والسواک‘‘ ترجمہ:یہ وہ
حدیث ہے،جس سے جمہور علماء نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ یہاں
وجوب سے مراد مستحب کی تاکید ہے،اس لیے کہ اسے ان چیزوں
کے ساتھ بھی ذکر کیا ہے،جو بالاجماع واجب نہیں اور وہ مسواک اور
خوشبو ہے۔ (فتح
الباری،ج8،ص120،مطبوعہ المدینۃ النبویہ)
(2)اگر بالفرض مان لیا جائے کہ’’واجب‘‘سے
مراد شرعی واجب ہی ہے،تو اس کے جوابات درج ذیل ہے:
(الف)یہ حدیث حضرتِ ابو
سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی دوسری
روایت سے منسوخ ہے کہ جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:جس نے
علامہ بدر الدین
عینی علیہ رحمۃ اللہ الغنی ارشاد فرماتے ہیں:’’وبعض
اصحابنا قالوا: ان الحديث المذكور منسوخ بقوله صلى اللہ عليه وسلم:’’ من توضا يوم
الجمعة فبها ونعمت ومن اغتسل فهو افضل‘‘ واعترض بانه ضعيف،فكيف يحكم ان
الصحيح منسوخ به؟ قلت:هذا الحديث روی من سبعة انفس من الصحابة رضی اللہ
تعالى عنهم ۔۔وقال الترمذی: حديث حسن ۔۔ولئن سلمنا
ما قاله المعترض، فالاحاديث الضعيفة اذا ضم بعضها الى بعض اخذت قوة فيما اجتمعت
فيه من الحكم، كذا قاله البيهقی وغيره‘‘ترجمہ:ہمارے
بعض اصحاب نے فرمایا:بے شک مذکورہ حدیث حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے منسوخ ہے کہ’’جس نے
اور مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ
اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں:’’اوراگر(واجب) بمعنی ضروری
ہے، تو منسوخ ہے۔‘‘ (مراٰۃ المناجیح،ج1،ص 345،مطبوعہ
نعیمی کتب خانہ،گجرات)
(ب)یہ حدیث خبرِ
واحد (اصولِ حدیث کی ایک خاص اصطلاح)ہے،اگر اس سے غسل کا وُجوب
ثابت کیا جائے، تو اس کی وجہ سے کتاب اللہ پر
زیادتی یعنی قرآنِ پاک کے حکم میں تبدیلی آجائے
گی،یوں کہ قرآنِ پاک میں بے وضو ہونے کی حالت میں
بے وضو شخص کے لیے وضو کا حکم بیان کرتے ہوئے اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے:﴿یٰۤاَیُّہَا
الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی
الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمْ
وَاَیۡدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوۡا
بِرُءُوۡسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیۡنِ۔۔الخ﴾ترجمہ:اے ایمان والو!جب تم
مذکورہ حدیثِ پاک
کی وجہ سے قرآنِ پاک کا حکم تبدیل ہونے کےحوالہ سے علامہ بدر
الدین عینی علیہ رحمۃ اللہ الغنی ارشاد
فرماتے ہیں:’’وقال المحققون من اصحابنا:ان حديث الكتاب خبر الواحد
فلا يخالف الكتاب، لانه يوجب غسل الاعضاء الثلاثة ومسح الراس عند القيام الى
الصلاة مع وجود الحدث، فلو وجب الغسل لكان زيادة على الكتاب بخبر الواحد وهذا لا
يجوز،لانه يصير كالنسخ،فافهم‘‘ ترجمہ:اور ہمارے اصحاب
میں سے محقّقین نے فرمایا:کتاب والی حدیث خبرِ واحد
ہے ،پس یہ کتاب اللہ(قرآنِ پاک) کے مقابلہ میں
نہیں آسکتی ،کیونکہ کتاب اللہ حدث کی موجودگی
میں
(3)
صحابہ کرام علیہم الرضوان کا بھی اس بات پہ اتفاق ہے کہ
اس کے تحت علماء نے
فرمایا:اگر غسل واجب ہوتا،تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے
توجہ دلانے پر حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ غسل کرنے چلے
جاتے یا حضرت عمر خود انہیں بھیج دیتے،پھر یہ واقعہ
حضرت عثمان غنی
رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن
عمر رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ان
عمر ابن الخطاب بینما ھو قائم فی الخطبۃ یوم الجمعۃ،اذ
دخل رجل من المھاجرین الاولین من اصحاب النبی صلی اللہ
علیہ وسلم، فناداہ عمر:ایۃ ساعۃ ھذہ؟قال:انی
شغلت،فلم انقلب الی اھلی حتی سمعت التاذین،فلم ازد ان
توضات،فقال:والوضوء ایضا؟وقد علمت ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کان یامر بالغسل‘‘ترجمہ:بے شک حضرت عمر بن
خطاب رضی اللہ تعالی عنہ
اس حدیثِ پاک کے تحت
علامہ بدر الدین عینی علیہ رحمۃ اللہ الغنی ارشاد
فرماتے ہیں:’’وقد استدل بعضهم بقوله:’’كان يامر بالغسل‘‘ ان الغسل
يوم الجمعة واجب،وهذا الاستدلال ضعيف،لانه لو كان واجبا لرجع عثمان حين كلمه عمر
رضی اللہ تعالى عنه او لرده عمر حين لم يرجع،فلما لم يرجع ولم يؤمر بالرجوع
ويحضرهما المهاجرون والانصار دل على انه ليس بواجب وهذه قرينة على ان المراد من قوله
صلى الله عليه وسلم فی الحديث الذی فيه’’فليغتسل‘‘ليس امر الايجاب،بل
هو للندب‘‘ ترجمہ:بعض لوگوں نے اس فرمان’’حضور
صلی اللہ علیہ وسلم غسل کا حکم دیتے تھے‘‘سے استدلال کیا
ہے کہ بے شک
اور علامہ ابو الولید سلیمان بن خلف الاندلسی
علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں:’’ويقتضی
ذلك اجماع الصحابة على ان الغسل يوم الجمعة ليس بواجب وجوبا يعصی تاركه۔۔ولو
كان فيهم من يعتقد وجوبه لسارع الى الانكار على عثمان والامر بالقيام الى الاغتسال۔۔فهو
اجماع يجب التزامه والعمل به‘‘ترجمہ:مذکورہ واقعہ صحابہ
کرام علیہم الرضوان کے اجماع کا تقاضا کرتا ہے کہ بے شک
تنبیہ:بعض روایات میں غسلِ
علامہ ابو عمر
یوسف بن عبد اللہ القرطبی المعروف ابن عبدالبر علیہ رحمۃ
اللہ الغنی ارشاد فرماتے ہیں:’’واما قول ابی
هريرة كغسل الجنابة فانه اراد الهيئة والكيفية ففی هذا جاء تشبيهه له بغسل
الجنابة، لا فی الفرض والوجوب بما ذكرنا من الدلائل مع انه محفوظ معلوم عن ابی
هريرة انه كان يامر بالغسل ولا يوجبه فرضا ويقول فيه كغسل الجنابة‘‘ترجمہ:بہرحال حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی
عنہ کا یہ کہنا کہ’’
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیادوہاتھ سے مصافحہ کرناسنت ہے؟
عمامہ میں کتنے شملے چھوڑناسنت ہے؟
تلاوت کرنے والےکو سلام کیا جائے تو جواب دے یانہیں؟
کن کن مواقع پر سلام کرنا منع ہے؟
داڑھی کی حد کہاں سے کہاں تک ہے؟
جاتے وقت خدا حافظ کہنا
قبلہ کی طرف ٹانگیں پھیلانا،تُھوکناوغیرہ کیسا؟
عمامے کے کتنے شملے رکھنا سنت ہے اور شملے کا سائز کتنا ہونا چاہیے؟