Imame Ke Kitne Shimle Rakhna Sunnat Hai Aur Shimle Ka Size Kitna Hona Chahye?

عمامے کے کتنے شملے رکھنا سنت ہے اور شملے کا سائز کتنا ہونا چاہیے؟

مجیب:مولانا شاکر مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-6878

تاریخ اجراء:25ربیع الثانی1441ھ/23دسمبر2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عمامے کےکتنے شملے رکھناسنت ہے،ایک یادو؟نیزیہ کہ شملہ کاسائزکیاہوناچاہیے یعنی کتنابڑااورکتناچھوٹاہوناچاہیے؟

          سائل:محمدتوقیر(فیصل آباد)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    عمامےکےایک یا دو شملے چھوڑنامستحب واولیٰ ہے۔شملہ بالکل نہ چھوڑنا،جائزتوہے،لیکن خلاف ِمستحب وترکِ اولیٰ ہے۔شملے کی کم سے کم مقدارچارانگل اورزیادہ سے زیادہ نصف پشت تک ہو،جس کی مقدارتقریبا ایک ہاتھ بنتی ہےاوریہی زیادہ صحیح ہے،البتہ بعض فقہائے کرام نے نشست گاہ تک رخصت دی ہے کہ فقط اتنالمباہوکہ بیٹھنے میں پیٹھ تلے نہ دبے۔

    اورجن بعض فقہائے کرام جیسے صدرالشریعہ علیہ الرحمۃ نے شملہ  نہ چھوڑنے کوخلافِ سنت قراردیاہے،اس خلافِ سنت سے مرادخلافِ مستحب ہے،جیساکہ بہت مرتبہ فقہاء سنت کامستحب پراورمستحب کاسنت پراطلاق کردیتے ہیں اورچونکہ مستحب کاترک خلافِ اولیٰ ہے،ناجائز وگناہ نہیں،لہذاشملہ رکھنا مستحب واولیٰ ہے اورنہ رکھناخلافِ اولیٰ ہے۔

    شملہ چھوڑنے کے مستحب وافضل ہونے کے بارے  میں شعب الایمان میں ہے:”حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک سیاہ رنگا ہواسوتی عمامہ باندھ رکھاتھا،تونبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے انہیں بلایااوران کاعمامہ کھول کرخوداپنے دست مبارک سے باندھااوراس کاشملہ چارانگل یااسے کچھ زائدلٹکایااورفرمایا:”ھکذایاابن عوف فاعتم فانہ اجمل واحسن“اے ابن عوف تم اس طرح عمامہ باندھاکرو،کیونکہ یہ زیادہ خوبصورت اورزیادہ بہترہے۔“

(شعب الایمان،ج08،ص210،مطبوعہ مکتبۃ الرشد(

 ایک شملہ رکھنے سے متعلق سنن ابی داؤدمیں ہے:”عن جعفر بن عمرو بن حریث عن أبیہ قال رأیت النبی صلی اللہ علیہ و سلم علی المنبروعلیہ عمامة سوداءقد أرخی طرفھا بین کتفیہ“ ترجمہ:حضرت جعفر بن عمرو بن حریث اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کومنبر پر دیکھا کہ آپ کے سرپر سیاہ عمامہ تھا،جس کاشملہ  آپ نے دونوں شانوں کے درمیان چھوڑا ہوا تھا۔

(سنن ابو داود،کتاب اللباس،باب فی العمائم،ج2،ص452، دارالفکر،بیروت)

    جامع ترمذی میں ہے:”عن ابن عمر قال کان النبی صلی اللہ علیہ و سلم اذا  اعتم سدل عمامتہ بین کتفیہ ،قال نافع وکان ابن عمر یسدل عمامتہ بین کتفیہ قال عبید اللہ ورأیت القاسم و سالما یفعلان ذلک“ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب عمامہ باندھتے ،تو اس کا شملہ دونوں کندھوں کےدرمیان چھوڑتے تھے۔ حضرت نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی شملہ دونوں کندھوں کے درمیان چھوڑتے تھے۔حضرت عبید اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے قاسم اور سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو دیکھا کہ وہ بھی شملہ دونوں کندھوں کے درمیان رکھتے تھے۔

(جامع ترمذی،کتاب اللباس،باب فی سدل العمامة بین الکتفین ،ج4،ص225،دار حیاء التراث العربی ،بیروت)

    اوردوشملے رکھنےکے بارے میں سنن ابی داؤدمیں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:”یقول عممنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فسدلھا بین یدی ومن خلفی“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عمامہ پہنایا،تو اس کا ایک شملہ آگےاورایک پیچھے چھوڑا۔

(سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی العمائم،ج2،ص453،دارالفکر ،بیروت)

    تحفۃ الملوک میں ہے:”ويستحب إرخاء طرف العمامة“ترجمہ:عمامے کاشملہ چھوڑنامستحب ہے۔

(حفۃ الملوک،صفحہ278،مطبوعہ دارالبشائرالاسلامیہ)

    موسوعہ کویتیہ میں ہے:”باستحباب إرخاء الذؤابة بين الكتفين يقول الحنفية والحنابلة وأكثر الشافعية “ترجمہ:فقہائے احناف،حنابلہ اوراکثرشافعیہ دونوں شانوں کے درمیان شملہ لٹکانے کے مستحب ہونے کے قائل ہیں۔        (موسوعہ فقھیہ کویتیہ،ج21،ص169،مطبوعہ وزارۃ الاوقاف)

    امام کمال الدین قدسی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:”ھومستحب مرجح فعلہ علی ترکہ کمایؤخذ من الاحادیث السابقۃ قدامر النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  عبدالرحمن بن عوف بالارسال،فقال:”ھکذافاعتم یاابن عوف “وعللہ بانہ اعرب واحسن،فھومستحب واولی ،وترکہ خلاف الاولی والمستحب۔والظاھران الامام النووی اراد بالمکروہ ما ورد فیہ نھی مقصود ولیس الترک مکروھا بھذا المعنی،واما ان اراد بالمکروہ ماتناول خلاف الاولی کما ھو اصطلاح متقدمی الاصولیین فلانسلم کون الترک غیرمکروہ بھذا المعنی،بل ھومکروہ بمعنی انہ خلاف الاولی والمستحب کمابیناہ“ترجمہ:عمامے کاشملہ لٹکانامستحب ہے اورشملہ لٹکانے کونہ لٹکانے پرترجیح حاصل ہے،جیساکہ سابقہ احادیث سے ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن عوف کوشملہ چھوڑنے کاحکم دیااورفرمایا:اے ابن عوف تم اسی طرح عمامہ باندھاکرو اوراس کی علت اعرب واحسن سے بیان فرمائی،پس شملہ چھوڑنامستحب اوراولیٰ ہے، جس کاترک خلافِ اولیٰ وخلاف ِمستحب ہےاورظاہریہ ہے کہ امام نووی کی کراہت سے مراد وہ ہے، جس کے متعلق حدیث میں ممانعت وارد ہوئی ہو،لہذاشملہ نہ لٹکانااس معنی میں مکروہ نہیں ہےاوراگرمکروہ سے مراد وہ ہے، جو خلافِ اولیٰ کوشامل ہوتاہے،جیساکہ متقدمین اصولیین کی اصطلاح ہے ،توپھرشملہ نہ لٹکانے کا مکروہ  نہ ہونابھی تسلیم نہیں کرتے ،بلکہ اس معنی میں تویہ مکروہ ہے،کیونکہ یہ خلافِ اولیٰ ومستحب کاترک ہے،جیساکہ ہم نے اسے بیان کیا۔

(صوب العمامۃ فی ارسال طرف العمامۃ،ص44،مطبوعہ دارالبشائرالاسلامیہ)

    شملہ نہ رکھنے کے خلافِ سنت ہونے کے بارے میں بہارشریعت میں ہے:”بعض لوگ شملہ بالکل نہیں لٹکاتے،یہ سنت کے خلاف ہے اوربعض شملہ کواوپرلاکرعمامہ میں گھرس دیتے ہیں،یہ بھی نہ چاہیے

(بھارشریعت،ج03،ص418،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    مستحب کوسنت کہنے کے بارے میں امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:”ان السنۃ ربماتطلق علی المستحب کعکسہ کما صرحوا بھما “بیشک سنت کاکبھی اطلاق مستحب پرہوتاہےاورمستحب کاسنت پرجیساکہ فقہائے کرام نے ان دونوں باتوں کی تصریح فرمائی ہے۔

                  (فتاوی رضویہ،ج05،ص601،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    شملہ کی مقدارکے بارے میں فتاوی رضویہ میں ہے:”شملے کی اقل مقدارچارانگشت(چارانگلیاں) ہے اورزیادہ سے زیادہ ایک ہاتھ اوربعض نے نشست گاہ تک رخصت دی یعنی اس قدرکہ بیٹھنے سے موضع جلوس(بیٹھنے کی جگہ) تک پہنچے اورزیادہ راجح یہی ہے کہ نصف پشت سے زیادہ نہ ہو،جس کی مقدارتقریباوہی ایک  ہاتھ ہے۔“

         (فتاوی رضویہ،ج22،ص182،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم