مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-8470
تاریخ اجراء: 06 صفر المظفر1445ھ/24 اگست 2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین
اِس مسئلے کے بارے میں کہ لیبارٹریز (Laboratories) میں پیشاب ٹیسٹ
کے لیے ڈِبیہ (Container)یا بوتل اور خون ٹیسٹ کے لیے ٹیوب(Tube)
ہوتی ہے۔ مریض کا ٹیسٹ کرنے کے لیے اُسے ڈبیہ
یا بوتل دی جاتی ہے اور وہ اُس میں پیشاب کرتا یا
اُس کا خون لے کر ٹیوب میں رکھا جاتا ہے۔ پھر لیب والے
اُسی ڈبیہ یا ٹیوب پر ٹیسٹ کروانے والے کا نام
لکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بعض نام مقدس کلمات پر مشتمل ہوتے ہیں،
مثلاً ”محمد عمران، محمد عبداللہ“ وغیرہا۔ ایسے ناموں کو پیشاب
والی ڈبی یا خون والی ٹیوب پر لکھنا کیسا ہے؟
کیا یہ بےادبی ہے؟ نیز اِس سے بچنے کا کیا طریقہ
اختیار کیا جائے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اسلامی طرزِ زندگی مکمل طور پر ادب سے عبارت ہے۔ ہمارا
دین ہمیں مُقدّسات، شعائر دینیہ اور کلمات وحروف کے احترام کا درس دیتا
ہے۔ احادیثِ مبارکہ اور سیرتِ نبویہ میں اِس
کی واضح تعلیمات موجود ہیں۔فقہائے اسلام نے ایسے
درجنوں مسائل بیان فرمائے کہ جہاں آیاتِ قرانیہ، مقدس نام ،بلکہ
عام کلمات وحروف کی بھی تعظیم
کا حکم دیا گیا،
نیز کسی ایسی
جگہ پر کتابت کرنے یا
کسی چیز پر کتابت ہو جانے
کی صورت میں اُس کے ایسے استعمال سے روکا گیا کہ جس سے
اُن کلمات وحروف کی بے ادبی
کا اندیشہ ہو۔اس باب کےتمام مسائل میں یہی جامع
ضابطہ کارفرما ہوتا ہے۔ اِس کلام
کی روشنی میں صورتِ مسئولہ کا جواب یہ ہے کہ پیشاب
والی ڈبیہ پر ٹیسٹ کروانے والے کا نام لکھنا، خواہ
اردو میں ہو یا انگلش میں ممنوع و بے ادبی ہے اور خصوصا ً
اگر اسم جلالت ”اللہ“ یا اسم مقدس ”محمد“ کے سابقہ یا لاحقہ کے ساتھ
ہو ،تو سخت بے ادبی والا
کام ہے۔ ایک عام سا مسلمان بھی اس کی حساسیت
سمجھتے ہوئے اِسے انتہائی بے
ادبی کا کام کہے گا، لہذا
شرعی نقطہِ نظر سے یوں نام لکھنا نہایت برا ہے۔ بے
توجہی کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ اس کی نزاکت کا احساس نہ ہو ورنہ
غور کریں، تو شدید قبیح ہے، یونہی خون والی
ٹیوب پر بھی نام نہ لکھا جائے کہ اِس میں بھی بے
ادبی کا پہلو موجود ہے اور خون بھی پیشاب ہی کی طرح ناپاک ہے۔پھر ڈبیہ یا
ٹیوب پر مقدس نام لکھنے میں دوسری ممکنہ خرابی یہ
بھی ہوتی ہے کہ ٹیسٹ کے بعد اِن چیزوں کو کچرے میں پھینکا جاتا ہے، جو جداگانہ
قابلِ مذمت حرکت ہے۔
حل:ٹیکنالوجی کی ترقی سب جانتے
ہیں۔آج ہر چیز پر بارکوڈ لگا نظر آتاہے۔مارکیٹ
میں”Barcode Generators“موجود ہیں،جو بارکوڈ جنریٹ کر دیتے
ہیں۔کسی بھی مریض کا میڈیکل
ریکارڈ رکھنے کے لیے اُس مشین سے بارکوڈ جنریٹ کر کے اُس
پیشاب والی ڈبیہ یا خون والی ٹیوب پر
لگایا جا سکتا ہے اور اُسی کو سکین کرنے سے مریض کا مکمل
تعارف معلوم ہو سکتا ہے۔ نام وغیرہ لکھنے کی حاجت ہی نہ
رہے گی۔ یونہی سیریل نمبر بھی لگائے جا
سکتے ہیں کہ ڈبی پر صرف نمبر ہو اور کمپیوٹر یا فائل
میں مکمل ریکارڈ وتعارف موجود رہے۔ الغرض مختلف ذرائع سے اِس بے
ادبی سے بچا جا سکتا ہے۔
مقدس تحریرات والفاظ کے ادب کے متعلق نبی
اکرم صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا انداز یہ تھا، جسے ابو داؤد امام سلیمان بن
اشعث سجستانی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ(وِصال:275ھ/889ء) نے نقل کیا:’’ عن أنس،
قال: كان النبي صلى اللہ عليه وسلم إذا
دخل الخلاء وضع خاتمه‘‘ ترجمہ:حضرت انس رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے،آپ فرماتے ہیں کہ جب نبی اکرم صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بیت الخلاء جانے کا ارادہ فرمایا، تو اپنی انگوٹھی مبارک کو اُتار
لیا ۔(سنن ابی داؤد، جلد01، صفحہ 15، مطبوعہ دار الرسالۃ العالمیہ،
بیروت)
نبی اکرم صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عمل کی وجہ اور چند دیگر مسائل
بیان کرتےہوئے معروف حنفی فقیہ علامہ
اَحمد طَحْطاوی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1231ھ/1815ء) نےلکھا:’’ لأن نقشه محمد رسول اللہ۔۔۔ قال ابن حجر
استفيد منه أنه يندب لمريد التبرز أن ينحى كل ما عليه معظم من اسم اللہ تعالى أو
نبي أو ملك فإن خالف كره لترك التعظيم اهـ وهو الموافق لمذهبنا كما في شرح المشكاة
قال بعض الحذاق ومنه يعلم كراهة استعمال نحو ابريق في خلاء مكتوب عليه شيء من ذلك اهـ
وطشت تغسل فيه الأيدي ‘‘ترجمہ:کیونکہ اُس انگوٹھی پر ”محمد رسول اللہ“ منقوش تھا۔ علامہ ابن حجر رَحْمَۃُ اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: اِس حدیث سے یہ مسئلہ مستفاد ہوا کہ بیت
الخلاء جانے والے شخص کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ اپنے جسم سے ہر قابلِ
تعظیم شے کو علیحدہ کردے (یا جیب وغیرہ میں
ڈھانپ لے)، جیسے اللہ تعالیٰ کا نام یاکسی نبی
و فرشتے کا نام ، البتہ اگر وہ اس کی
مخالفت کرے، تو ترکِ تعظیم کی وجہ سے کراہت کامرتکب ہوگا۔ (علامہ
ابنِ حجر رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ) کا کلام ہمارے مذہبِ احناف کے موافق بھی ہے،
جیسا کہ ”مشکوٰۃ “
کی شرح میں ہے۔ بعض ماہرینِ فقہ نے
فرمایا:اِسی مسئلہ سے بیت الخلاء میں موجود ایسے
برتن کے استعمال کی کراہت بھی معلوم ہوئی کہ جس پر کچھ لکھا
گیاہو، یونہی ایسا طَشْت کہ جس میں ہاتھ
دھوئے جاتے ہوں۔(حاشیۃ
الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ310، مطبوعہ دار الکتب
العلمیہ، بیروت، لبنان)
اِس عبارت
میں ”الاِبریق
المکتوب“ کی
صورت میں ہمارے مسئلہ کی بڑی واضح قریبی نظیر
ہے کہ اُس برتن پر کچھ لکھنا کہ جو موضع
نجاست میں رکھا جائے گا، نیز اُس کے نجاست سے مُجاوِر ہونے کے
بھی قوی امکانات ہیں، لہذا فقہاء نے بیت الخلاء میں
استعمال ہونے والے برتن پر کچھ لکھنے اور لکھے ہونے کی صورت میں
استعمال ممنوع قرار دیا کہ دونوں صورتوں میں یقیناً الفاظ وحروف کی بے ادبی ہے۔
علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:’’ قدمنا قُبَيْل
باب المياه عن الفتح أنه تكره كتابة
القرآن وأسماء اللہ تعالى على الدراهم
والمحاريب والجدران وما يفرش، وما ذاك إلا لاحترامه، وخشية وطئه ونحوه مما فيه
إهانة‘‘ترجمہ: ہم ’’بابُ المِیاہ ‘‘سے کچھ پہلے ”فتح القدیر “کے حوالے سے یہ بیان کر چکے ہیں کہ قرآن اور اللہ
تعالیٰ کے اسماء کو دراہم، محرابوں، دیواروں اور نیچے
بچھائی جانے والی چیزوں پر لکھنا مکروہ ہے، یہ کراہت محض
احترام باقی رکھنے اور پاؤں سے روندے جانے یا اس کی مثل
دیگر اہانت والے کاموں کے اندیشے کی وجہ سے ہے ۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد 05،کتاب
الصلوٰۃ، صفحہ 381 ،
مطبوعہ دار الثقافۃ والتراث، دمشق)
اسمائے الٰہی ، انبیائے کرام
ورُسُلِ عظام کے ناموں کا ادب واحترام تو
بہت بلند ہے، فقہائے کرام نے تواُن اشیاء
کی تعظیم کا بھی حکم دیاہے کہ جن پر حروف لکھے ہوں، اگرچہ
وہ الفاظ مقدس نہ ہوں ،جیسے فرعون،
ابوجہل یا نمرود وغیرہ کا نام لکھا ہو، کیونکہ حروف وکلمات کا احترام ضروری
ہے، چنانچہ ”الفتاویٰ الھندیۃ“ میں ہے:’’إذا كتب اسم فرعون أو كتب أبو جهل على غرض يكره أن يرموا إليه؛ لأن لتلك
الحروف حرمة‘‘ترجمہ:جب ہدف پر فرعون یا ابو جہل کا نام
لکھا جائے ،تو اُس کی طرف کسی چیز کو نشانہ بنا کر مارنا، مکروہ
ہے، کہ فی نفسہ حروف تو قابلِ احترام ہی ہیں۔(الفتاوى الھندیۃ، جلد05، صفحہ323،مطبوعہ
کوئٹہ)
پیشاب والی ڈبیہ یا خون والی ٹیوب
پر مقدس نام لکھنا، یقیناً وعرفاً
بے ادبی کا کام ہے اور ادب یا بے ادبی کا دارومدار عرف پر
ہی ہوتا ہے، چنانچہ امام کمال الدین ابنِ ہُمَّامرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:861ھ/1456ء)
لکھتےہیں: ’’فيحال على
المعهود ۔۔۔ حال قصد التعظيم‘‘ترجمہ:تعظیم
مقصود ہونے کے وقت اُسے عرف پر محمول کیا جائے گا۔(فتح
القدیر، جلد01، صفحہ292، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1340ھ/1921ء)
نے لکھا: تعظیم و بے تعظیمی میں بڑا
دخل عرف کو ہے۔(فتاویٰ
رضویہ، جلد23،صفحہ391،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
کیادوہاتھ سے مصافحہ کرناسنت ہے؟
عمامہ میں کتنے شملے چھوڑناسنت ہے؟
تلاوت کرنے والےکو سلام کیا جائے تو جواب دے یانہیں؟
کن کن مواقع پر سلام کرنا منع ہے؟
داڑھی کی حد کہاں سے کہاں تک ہے؟
جاتے وقت خدا حافظ کہنا
قبلہ کی طرف ٹانگیں پھیلانا،تُھوکناوغیرہ کیسا؟
عمامے کے کتنے شملے رکھنا سنت ہے اور شملے کا سائز کتنا ہونا چاہیے؟