مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor:12458
تاریخ اجراء: 10 ربیع الاول 1444 ھ/07 اکتوبر
2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں
کہ دائیں ہاتھ سے استنجا کرنا مکروہِ تنزیہی
ہے یامکروہ تحریمی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حدیثِ
مبارکہ میں داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ،جس
کی بنا پر فقہاء نے ارشاد فرمایا کہ
بلا عذرِ شرعی داہنے ہاتھ سے استنجا کرنا مکروہِ تحریمی
و گناہ ہے، ہاں اگر بائیں ہاتھ میں کوئی عذر ہو، تو اس صورت
میں کوئی حرج نہیں۔
بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے ، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اذا بال
احدکم فلا یاخذن ذکرہ بیمینہ ولا یستنجی
بیمینہ ولا یتنفس فی الاناء“یعنی تم میں سے جب کوئی
پیشاب کرے ، تو اپنے داہنے ہاتھ سے اپنی شرمگاہ کو ہرگز نہ پکڑے اور
نہ اپنے داہنے ہاتھ سے استنجا کرے اور نہ ہی (پانی پیتے
ہوئے)برتن میں سانس لے۔(صحیح
البخاری، حدیث 154، صفحہ 31،مطبوعہ:ریاض)
کنز الدقائق و بحر الرائق میں ہے:واللفظ فی الھلالین للکنز:”(لا بعظم وروث
وطعام ویمین )ای لایستنجی بھذہ الاشیاء
والمراد انہ یکرہ بھا کما صرح بہ الشارح والظاھر انھا کراھۃ
تحریم للنھی الوارد فی ذلک“یعنی ہڈی، گوبر ، کھانے اور سیدھے
ہاتھ سے استنجا نہ کرے اور مراد یہ ہے کہ ان کے ساتھ (استنجا) مکروہ ہے
،جیسا کہ شارح نے اس کی صراحت کی اور ظاہر یہ ہے کہ
یہ مکروہِ تحریمی ہے اس ممانعت کی وجہ سے جو اس معاملہ
میں وارد ہوئی۔(البحر الرائق،
جلد 1،صفحہ 420، مطبوعہ: کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں درِ مختار سے منقول ہے:”کرہ تحریما بیمین ولا عذر
بیسارہ۔ملخصا“یعنی
بائیں ہاتھ میں کوئی عذر نہ ہو تو دائیں ہاتھ سے (استنجا)
مکروہ تحریمہ ہے۔ملخصا۔ت۔ (فتاوی رضویہ، جلد4،صفحہ 577، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:”دہنے ہاتھ سے استنجا اگرچہ ممنوع و گناہ ہے، صحیح حدیث میں حضور اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نہی فرمائی کما اخرجہ احمد والشیخان عن ابی قتادۃ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(جیسا کہ امام احمد اور شیخین (امام بخاری و مسلم) رحمہم
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے اس حدیث
کو نقل کیا ہے۔ت) مگر جب عذر ہے ، تو کچھ مواخذہ نہیں فان الضرورات تبیح المحذورات“(فتاوی رضویہ،
جلد4،صفحہ 576، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیادوہاتھ سے مصافحہ کرناسنت ہے؟
عمامہ میں کتنے شملے چھوڑناسنت ہے؟
تلاوت کرنے والےکو سلام کیا جائے تو جواب دے یانہیں؟
کن کن مواقع پر سلام کرنا منع ہے؟
داڑھی کی حد کہاں سے کہاں تک ہے؟
جاتے وقت خدا حافظ کہنا
قبلہ کی طرف ٹانگیں پھیلانا،تُھوکناوغیرہ کیسا؟
عمامے کے کتنے شملے رکھنا سنت ہے اور شملے کا سائز کتنا ہونا چاہیے؟