مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری
فتوی نمبر:Gul-2765
تاریخ اجراء:18جمادی الاخری1444ھ/11جنوری2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے
کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ عالم دین کی
تعظیم کے لئے کھڑے ہونا، جائز و مستحب عمل ہے۔ پوچھنا
یہ ہے کہ کیا کسی حدیث پاک میں اس کا حکم موجود ہے؟اگر ہے تو وہ حدیث پاک کیا ہے؟شرعی رہنمائی فرماد یں۔
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مختلف اَحادیث کریمہ سے یہ بات ثابت ہے
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف صحابہ
وصحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنھم کے لیے بذات خود قیام فرمایا اوربعض
احادیث میں ہے کہ دیگرصحابہ رضی اللہ
تعالیٰ عنھم کو بھی قیام
کا حکم فرمایا۔انہیں احادیث سے استدلال کرتے ہوئے علماء کرام نے یہ مسئلہ اپنی کتب میں
واضح انداز میں بیان فرمایا کہ دینی شخصیت
مثلانیک صالح عالم دین، مشائخ کرام، اساتذہ کرام ، والدین
اور نیک حکمران کی
تعظیم اور عزت کے لیے کھڑا
ہونا، جائز بلکہ مستحب عمل ہے۔
اختصار کے ساتھ چند احادیث درج ذیل
ہیں۔
نبی کریم صلی
اللہ علیہ و سلم کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکیلئے
قیام:
سنن
ابی داود میں ہے:”اذا دخلت عليه قام اليها فاخذ بيدها، وقبلها، واجلسها فی مجلسه “ترجمہ:حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم
کی بارگارہ میں حاضر ہوتیں، تو نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم قیام فرماتے، آپ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ پکڑتے ، ان کو
چومتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔(سنن ابی داؤد،
جلد4، صفحہ 355، مطبوعہ المکتبۃ
العصریۃ، بیروت)
علامہ
علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح کی
حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”(اذا دخلت عليه، قام اليها) ای: مستقبلا
ومتوجها۔۔۔فكانه صلى
اللہ عليه وسلم نزلها منزلة امه تعظيما
لها “ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ و
سلم کے پاس جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حاضر ہوتیں، تو نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے ان کے
استقبال میں کھڑے ہوتے ۔۔۔گویا
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی
اللہ عنہا کو اپنی والدہ کے مقام پر رکھتے ہوئے تعظیم کرتے تھے۔(مرقاۃ
المفاتیح، جلد7، صفحہ 2969، مطبوعہ بیروت)
مزید
شرح مصابیح لابن الملک میں ہے:” کانت اذا دخلت عليه، قام اليها ای:
النبی صلى اللہ عليه وسلم الى فاطمة تعظيمًا للہ تعالى، فانه
صلى اللہ عليه وسلم عرف قَدْرَها عند اللہ
تعالى “ترجمہ: حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم
کی بارگارہ میں حاضر ہوتیں، تو نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم،اللہ پاک کی خوشنودی کے لیے حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا کی تعظیم کے طورپرقیام فرماتے،
کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا کی اللہ پاک کے ہاں
قدر و منزلت کو پہچانتے تھے۔(شرح
مصابیح لابن الملک، جلد5، صفحہ 181، مطبوعہ ادارة الثقافة الاسلامية)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کیلئے کھڑے ہونے کا حکم فرمانا:
صحیح
بخاری میں” باب قول النبی صلى الله عليه وسلم: ”قوموا إلى سيدكم“کے تحت حدیث پاک ہے کہ” عن ابی سعيد، ان اهل قريظة نزلوا على حكم سعد،
فارسل النبی صلى اللہ عليه وسلم إليه فجاء، فقال: ” قوموا إلى سيدكم “ترجمہ: حضرت ابو سعید
خدری سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ جب بنی قریظہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے حکم پرہتھیار ڈال دئیے تو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم نے انہیں بلا بھیجا، جب وہ بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے، تو نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:اپنے سردارکے
لیے کھڑے ہوجاؤ۔ (صحیح بخاری،جلد
8، صفحہ 59، مطبوعہ دار طوق النجاۃ)
شارحین حدیث نے احادیث کریمہ سے یہ مسئلہ
ثابت کیا ہے کہ دینی شخصیت، والدین، عادل حکمران
اور اساتذہ کے لئے کھڑا ہونا، جائز ہے،
جیسا کہ شرح مصابیح لابن الملک میں ہے:” قال رسول اللہ
صلى اللہ تعالى عليه وسلم للانصار”
قوموا الى سيدكم “ ای الى افضلكم رجلا قيل: المراد به القيام للتوقير
والتعظيم: لاقترانه بلفظ: (سيدكم)، فيدل على ان التعظيم بالقيام جائز لمن يستحق
الاكرام كالعلماء والصلحاء “ترجمہ:رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اَنصار کو فرمایا کہ”اپنے سردار کے
لئے کھڑے ہو جاؤ“یعنی تم میں جو افضل شخص ہے اس کے اکرام کے لئے کھڑے ہو جاؤ۔بیان
کیا گیا ہے کہ یہ کھڑا ہونا حضرت سعد رضی اللہ عنہ
کی تعظیم و توقیر کے لئے تھاکیونکہ قیام کے حکم کے
ساتھ ملا ہوالفظ”سیدکم“اسی پر دلالت
کرتاہے۔لہٰذا یہ حدیث اس پردلالت کرتی ہے کہ جو اکرام کا مستحق ہے، جیسا کہ علماء
اور صلحاءان کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا ، جائزہے۔(شرح
مصابیح لابن الملک، جلد5، صفحہ 182، 183، مطبوعہ ادارة الثقافة الاسلامية)
مفاتیح
شرح مشکوۃ المصابیح میں ہے:”قوموا الى سيدكم“ای: قوموا من مكانكم لحرمة
سعد، وهذا دليل على جواز قيام
الجالسين الى من يدخل عليهم من اصحاب المناصب والاستاذين والصلحاء والابوين، ومن يستحق
الاحترام“ترجمہ:تم اپنے سردار یعنی حضرت سعد رضی
اللہ عنہ کی عزت کی وجہ سے اپنی جگہ سے کھڑے ہوجاؤ
۔یہ حدیث پاک اہل منصب،
اساتذہ، صلحاء، والدین اور جو بھی احترام کا مستحق ہے، اس کے
آنے کے وقت ، بیٹھے ہوئے لوگوں کے کھڑے ہونے کے جواز کی دلیل
ہے۔(مفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد4، صفحہ
413، مطبوعہ دار النوادر ، وزارة الأوقاف الكويتية)
حضرتِ طلحہ بن عبید
اللہ رضی اللہ عنہنے حضرتِ کعب رضی اللہ عنہ کے
لئے قیام کیا:
بخاری
شریف میں ہے:”وقال ابن مسعود: علمنی النبی صلى اللہ عليه وسلم التشهد
وكفی بين كفيه وقال كعب بن مالك دخلت المسجد فاذا برسول اللہ صلى اللہ عليه
وسلم فقام الی طلحة بن عبيد اللہ يهرول حتى صافحنی وهنانی “ ترجمہ : حضرت ابن
مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ و سلم نے ہمیں تشہد سکھائی اور میری
ہتھیلی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
دونوں ہتھیلیوں کے
درمیان تھی۔ حضرت کعب
بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا، تو نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم
تشریف فرما تھے اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ
عنہ میرے آنے پر کھڑے ہوئے ، میری طرف خوشی سے لپکے ا ور
مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارک باد دی۔(صحیح
البخاری،جلد 8، صفحہ 59، مطبوعہ دار
طوق النجاۃ)
صحیح
مسلم میں حضرتِ کعب رضی اللہ عنہ کی توبہ قبول ہونے کی
طویل حدیث پاک کا ایک حصہ ہےکہ”فقام طلحۃ بن عبید اللہ یھرول
حتی صافحنی وھنانی“ترجمہ:طلحہ بن
عبید اللہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئےا ور خوشی سے بھاگ کر مجھ سے
مصافحہ کیا اور مجھے مبارک باد دی۔(صحیح
مسلم، جلد 4، صفحہ1111، مطبوعہ بیروت)
امام
نووی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ حدیث پاک کے الفاظ کی شرح میں فرماتے ہیں:” فيه استحباب مصافحة القادم والقيام له إكراما
والهرولة إلى لقائه بشاشة و فرحا “ترجمہ:اس حدیثِ پاک سے آنے
والے شخص سے مصافحہ کرنے، اس کی تعظیم کرتے ہوئے قیام کرنے اور
خوشی و شادمانی سے بھاگ کر ملنے کا استحباب ثابت ہوتا ہے ۔(شرح
النووی علی مسلم، جلد17، صفحہ 96،
مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)البخاری، جلد9، صفحہ
16، مطبوعہ دار طوق النجاۃ،
بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیادوہاتھ سے مصافحہ کرناسنت ہے؟
عمامہ میں کتنے شملے چھوڑناسنت ہے؟
تلاوت کرنے والےکو سلام کیا جائے تو جواب دے یانہیں؟
کن کن مواقع پر سلام کرنا منع ہے؟
داڑھی کی حد کہاں سے کہاں تک ہے؟
جاتے وقت خدا حافظ کہنا
قبلہ کی طرف ٹانگیں پھیلانا،تُھوکناوغیرہ کیسا؟
عمامے کے کتنے شملے رکھنا سنت ہے اور شملے کا سائز کتنا ہونا چاہیے؟