قبلہ کی طرف ٹانگیں پھیلانا،تُھوکناوغیرہ کیسا؟

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ رجب المرجب1441ھ

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ جان بُوجھ کر قبلہ شریف کی طرف ٹانگیں پھیلانا، تُھوکنا، پیشاب کرنا وغیرہ یہ سوچتے ہوئے کہ اس سے کچھ نہیں ہوتا، نہ ہی ایسا کرنا گناہ ہےاور اسی طرح انجانے میں ایسا کرنے کے بارے میں شرعی راہنمائی فرمائیں کہ ایسا کرنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     بغیرکسی صحیح عذرکےجان بُوجھ کرقبلہ شریف کی طرف ٹانگیں پھیلانا، تُھوکنا اور پیشاب کرنا شرعاً ممنوع و مکروہ افعال ہیں کہ اس طرح کرنے میں قبلہ شریف کی بےادبی ہے۔ان افعال میں ٹانگیں پھیلانے کا حکم مکروہ ہے، جبکہ تُھوکنے کی ممانعت زیادہ شدید ہے اور اسے حدیثِ مبارک میں اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کوایذا دیناقراردیا ہے اور علّامہ عینی  علیہ الرحمۃ نے تو علّامہ قرطبی مالکی علیہ الرحمۃ کے حوالے سےاسے مکروہِ تحریمی قرار دیا ہے اور قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے کی ممانعت تو صریح احادیث اور تصریحاتِ فقہائے احناف کے مطابق گناہ ہے اور اس پر متعدد احادیثِ طیّبہ موجود ہیں، بلکہ اس معاملے میں تو قبلہ کو پیٹھ کر کےبھی پیشاب یا پاخانہ کرنا،ناجائز و گناہ ہے،لہٰذا یہ کہنا کہ اس میں کوئی گناہ نہیں،بالکل غلط ہےاور انجانے سے مراد اگر قبلہ کی جہت معلوم نہ ہو نا ہے تو پھر گناہ نہیں، لیکن جیسے ہی معلوم ہو،تو فوراً شریعتِ مطہرہ کے حکم کے مطابق اپنے فعل کی اصلاح کر لے،لیکن اگر انجانے سے مراد شرعی مسئلے سے لاعلمی ہے،تو یہ کوئی عذر نہیں کہ دارالاسلام میں شرعی مسائل سے جہالت عذر نہیں ہوتی، بلکہ حکم یہ ہے کہ شرعی مسائل سیکھے۔یادرہے!یہ احکام اس صورت میں ہیں کہ کوئی بداعتقادی نہ ہو، ورنہ معاذ اللہ کسی کا یہ اعتقاد ہو کہ قبلہ کوئی ایسی تعظیم والی شئ نہیں ہےاور اس وجہ سے ان میں سے کسی فعل کا ارتکاب کرے، تو قبلہ شریف کو ہلکا جاننے کی وجہ سے اُس پر حکم کفر ہو گا، لیکن کسی مسلمان سے ایسی سوچ متصور نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم