سلام میں ’’وبرکاتہ‘‘کے بعد’’و مغفرتہ‘‘بھی کہنا چاہیے یا نہیں ؟

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7604

تاریخ اجراء:15ربیع الآخر 1443ھ/21نومبر 2021

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں  کہ جب کسی مسلمان سے ملاقات ہو، تو سلام کرتے ہوئے ’’ومغفرتہ‘‘  کا اضافہ کرنا چاہیے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سلام اور جواب، دونوں میں ”برکاتہ“ تک کہنا چاہیے،” ومغفرتہ “ کا اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجیدمیں ارشاد فرمایا:﴿ وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَااِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’اور جب تمہیں کسی لفظ سے سلام کیا جائے ،تو تم اس سے بہتر لفظ سے جواب دو یا وہی الفاظ کہہ دو۔ بیشک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے۔‘‘ (پارہ5، سورۃ النساء،آیت86)

    اِس کے تحت ابو السعود علامہ محمد بن محمد عَمادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:951ھ/1544ء) لکھتے  ہیں’’:بأن تقولوا وعليكم السلام ورحمة اللہ إن اقتصر المسلم على الأول وبأن تزیدوا  وبركاته إن جمعها المسلم وهي النهاية۔‘‘ترجمہ:یعنی اگر مسلمان صرف ”السلام علیکم“کہے تو تم کہو”وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ“ اور اگر وہ دونوں کو جمع کرے، (یعنی یوں کہے:السلام علیکم ورحمۃ اللہ) تو تم ”برکاتہ“ کا اضافہ کرو اور یہ انتہا ہے۔        (تفسیر ابی السعود، جلد2، صفحہ 211، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)

    شعب الایمان میں ہے:’’سلم عليه رجل، فقال: سلام عليك ورحمة اللہ وبركاته ومغفرته، فانتهره ابن عمر، وقال:حسبك إذا انتهيت إلى وبركاته۔ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو ایک شخص نے یوں سلام کیا:سلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ“ تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے اُسے ڈانٹا اور فرمایا کہ جب تم ”وبرکاتہ“ تک پہنچ جاؤ ،  تو اتنا   سلام   ہی تمہیں کافی ہے۔(شعب الایمان، جلد11، فصل فی کیفیۃ السلام، صفحہ 247، مطبوعہ مکتبۃ الرشد)

    علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) بحوالہ فتاویٰ تاتارخانیہ لکھتے  ہیں:الأفضل للمسلم أن يقول:السلام عليكم ورحمة اللہ وبركاته والمجيب كذلك يرد، ولا ينبغي أن يزاد على البركات شيء۔‘‘ترجمہ:مسلمان کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ یوں کہے:”السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اور جواب دینے والا بھی ایسے ہی کہے اور ”برکاتہ“ کے بعد کسی حرف کا اضافہ مناسب نہیں۔     (ردالمحتار مع درمختار، جلد9،کتاب الحظر والاباحۃ،  صفحہ683، مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاویٰ عالَمگیری میں ہے:’’لا ينبغي أن يزاد علی ‌البركات شيء، قال ابن عباس  رضي اللہ عنهما لكل شيء منتهى ومنتهى السلام البركات، كذا في المحيط۔‘‘ترجمہ: ”برکاتہ“ کے بعد کسی حرف کا اضافہ کیا جانا  مناسب نہیں۔ حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ارشاد فرمایا: ہر چیز کی ایک انتہاء ہے اور سلام کی انتہاء صیغہِ ”برکات“ پر ہے۔ (الفتاوى الھندیۃ، جلد5، الباب السابع فی السلام ، صفحہ325،مطبوعہ کوئٹہ)

    صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’بہتر یہ ہے کہ سلام میں رحمت و برکت کا بھی ذکر کرے یعنی اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکاتُہٗ کہے اور جواب دینے والا بھی وہی کہے بَرَکاتُہ، پر سلام کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اور الفاظ زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ (بھار شریعت، جلد3، حصہ16، صفحہ459،  مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    تحقیقِ مسئلہ:

    مطالعہِ احادیث سے تین روایتیں ایسی سامنے آتی ہیں، جن میں ”ومغفرتہ“ کا اضافہ ہے۔علمِ اصولِ حدیث کی روشنی میں تینوں روایات کے محدثین نے جوابات دیے  ہیں۔

پہلی روایت اور اُس کا جواب:

(1)ابو داؤد شریف میں ہے:’’ثم أتى آخر، فقال: السلام عليكم ورحمة اللہ وبركاتہ ومغفرتہ، فقال:أربعون۔ترجمہ:پھر ایک اور شخص آیا اور اُس نےکہا:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ۔ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:اِس کےلیے چالیس نیکیاں ہیں۔  (سنن ابی داؤد، جلد7، باب فضل من بدأ السلام، صفحہ 492، مطبوعہ الرسالۃ العالمیۃ، بیروت)

    یہ حدیث سنداً ضعیف ہے۔ اِس کی سند میں ایک راوی ”عبدالرحیم بن میمون“ ہے،جس کے متعلق امام ابو حاتم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا:یکتب حدیثہ ولایحتج بہ۔ترجمہ:اُس کی حدیث لکھی جائے گی، مگر استدلال نہیں کر سکتے۔(میزان الاعتدال، جلد2، صفحہ607، مطبوعہ دارالمعرفۃ، بیروت)

    مشہور محدث علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:852ھ/1449ء) بیان کردہ حدیث کا ذکر یوں کرتے ہیں:أخرج أبوداود من حدیث سھل بن معاذ بن أنس الجهني عن أبيه بسند ضعيف۔‘‘ترجمہ:امام ابو داؤد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے سہل بن معاذ بن انس جُہنی  کی روایت ضعیف سند کے ساتھ نقل کی۔(فتح الباری  شرح صحیح بخاری ، جلد 6 ، باب بدء السلام، صفحہ  11، دار المعرفۃ  ، بیروت )

    اور علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ  جب اُس روایت کو ذکر کرتے ہیں، جس میں صرف ”وبرکاتہ“ تک سلام موجود ہےاور جس پر فقہائے احناف نے اعتماد کر کے مسئلہ بیان کیا، تو اُس روایت کے متعلق لکھا:’’أخرج أبو داود والترمذي والنسائي بسند قوي عن عمران بن حصين۔‘‘ترجمہ:امام ابو داؤد، امام ترمذی اور امام نسائی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہم نے حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ  سے قوی سند کے ساتھ اِس حدیث کو روایت کیا۔(فتح الباری  شرح صحیح بخاری ، جلد 6 ، باب بدء السلام، صفحہ  11، دار المعرفۃ  ، بیروت )

    دوسری روایت اور اُس کا جواب:

     (2)امام ابنُ السُنِّی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:364ھ/974ء) روایت کرتے ہیں:’’كان رجل يمر بالنبي صلى اللہ عليه وسلم يرعى دواب أصحابه، فيقول: السلام عليك يا رسول اللہ! فيقول له النبي صلى اللہ عليه وسلم: وعليك السلام ورحمة اللہ وبركاته ومغفرته ‌ورضوانه۔‘‘ترجمہ:ایک جانور چَرانے والے صاحِب،  نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے پاس سے گزرا کرتے تھے۔ جب گزرتے تو یوں سلام کرتے:السلام علیک یارسول اللہ۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  جواباً فرماتے:وعليك السلام ورحمة الله وبركاته ومغفرته ‌ورضوانه۔        (عمل الیوم واللیلۃ، صفحہ 151، باب منتھی رد السلام، مطبوعہ دار الارقم، بیروت)

    اِس حدیثِ مبارک پر تبصرہ کرتے ہوئے  علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:’’أخرج ابن السني في كتابه بسند واہ ۔‘‘ترجمہ: امام ابنُ السُنِّی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے  اپنی کتاب میں اِس حدیث کی  واہی یعنی  بہت کمزور سَنَد سے تخریج کی ہے۔(فتح الباری  شرح صحیح بخاری ، جلد 6 ، باب بدء السلام، صفحہ  11، دار المعرفۃ  ، بیروت )

    امام شرف الدین نَوَوِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:676ھ/1277ء) اِس روایت کا سَنَدِی معیار بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں:روينا في کتاب ‌ابن ‌السني، باسناد ضعیف عن أنس رضي اللہ عنه قال: ’’ كان رجل يمر بالنبي صلى اللہ عليه وسلم۔۔۔الخ۔‘‘ترجمہ:ہم نے امام ابنُ السُنِّی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب میں ضعیف سند کے ساتھ، حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کیا کہ ایک جانور چَرانے والے صاحب،  نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے پاس سے گزرا کرتے تھے۔الخ۔(الاذکار المنتخبۃ من کلام سید الابرار، باب کیفیۃ السلام، صفحہ 196، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

    تیسری  روایت اور اُس کا جواب:

     (3)شعب الایمان میں ہے:’’عن زيد بن أرقم، قال: كان النبي صلى اللہ عليه وسلم إذا سلم علينا، فرددنا عليه السلام قلنا:وعليك ورحمة اللہ وبركاته ومغفرتہ۔‘‘ترجمہ:حضرت زید بن ارقم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ جب نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ہمیں سلام کرتے تو ہم یوں جواب دیتے: وعليك ورحمة اللہ وبركاته ومغفرتہ ۔(شعب الایمان، جلد11، فصل فی کیفیۃ السلام، صفحہ 247، مطبوعہ مکتبۃ الرشد)

    اِس کے متعلق حافِظ ابنِ حجر عسقلانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لکھا:’’أخرج البيهقي في الشعب بسند ضعيف أيضا من حديث زيد بن أرقم۔‘‘ترجمہ:امام بیہقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شعب الایمان میں ضعیف سند کے ساتھ حضرت زید بن ارقم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی حدیث کی تخریج کی۔ (فتح الباری  شرح صحیح بخاری ، جلد 6 ، باب بدء السلام، صفحہ  11، دار المعرفۃ  ، بیروت )

    نتیجہ!

     (1)”وبرکاتہ“ تک سلام والی روایات سنداً قوی اور اِس پر اضافے والی ضعیف ہیں۔

     (2)چند روایات میں ”برکاتہ“ پر اضافہ ثابت ہے، جبکہ دیگر روایات میں اضافے پر ”ممانعت “ موجود  ہے ۔ اجازت و ممانعت دونوں کی روایات ہوں تو ممانعت کو ترجیح ہوتی ہے  ، اِسی وجہ سے فقہائے احناف نے بھی ”لاینبغی “یا ”الافضل للمسلم“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔

    لہٰذا  سلام اور جواب، دونوں میں ”برکاتہ“ تک کہنا چاہیے،” ومغفرتہ “ کا اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔

 

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم