کیا دعا کے بعد ہاتھ منہ پر پھیرنا سنت ہے؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1885

تاریخ اجراء:25محرم الحرام1442ھ/14ستمبر2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  کیا دعا کے بعد ہاتھ منہ پر پھیرنا سنت ہے ؟

سائل : محمد بلال ( صدر ، کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جی ہاں ! دعا کے بعد ہاتھ منہ پر پھیرنا سنت ہے اور اس میں حکمت یہ ہے کہ دعا مانگتے ہوئے گویا بندے کے ہاتھ خیر و برکت سے بھر جاتے ہیں ، تو اب حکم ہے کہ وہ خیر و برکت اپنے اعلیٰ و اشرف حصے یعنی چہرے پر اُلٹا لے ، تاکہ اس کے ذریعے وہ خیر و برکت سارے بدن میں سرایت کر جائے ۔

    جامع ترمذی میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ’’ كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رفع يديه في الدعاء لم يحطهما حتى يمسح بهما وجهه ‘‘ ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب دعا میں ہاتھ اٹھاتے ، تو چہرہ انور پر ہاتھ پھیرے بغیر نیچے نہ کرتے ۔

( جامع الترمذی ، ابواب الدعوات ، باب ماجاء فی رفع الایدی عند الدعاء ، ج 2 ، ص 649 ، مطبوعہ لاھور)

    ابو داؤد شریف میں حدیثِ پاک ہے : ’’ ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا دعا فرفع يديه مسح وجهه بيديه ‘‘ ترجمہ : حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب دعا فرماتے ، تو اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے ( اور ) ہاتھوں کو چہرہ انور پر پھیر لیتے ۔

( سنن ابی داؤد ، باب الدعاء ، ج 1 ، ص 219 ، مطبوعہ لاھور )

    اس حدیث شریف کی شرح میں علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ عند فراغه تفاؤلا وتيمنا أن كفيه ملئتا خيرا فأفاض منه على وجهه ‘‘ ترجمہ : یعنی دعا سے فارغ ہونے کے وقت ( ہاتھ چہرہ انور پر پھیرتے ) تاکہ نیک فال ہوسکے اور برکت حاصل کرنے کے لیے کہ ہاتھ خیر سے بھر گئے ہیں اور اس خیر کو چہرے پر ڈال لیا ہے ۔       

( فیض القدیر ، جلد 5 ، صفحہ 169 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

    ابو داؤد شریف میں ہی سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:’’ سلوا الله ببطون أكفكم ولا تسألوه بظهورها فاذا فرغتم فامسحوا بها وجوهكم ‘‘ ترجمہ : اللہ تعالیٰ سے اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے ساتھ سوال کرو ، ہاتھوں کی پشت کے ساتھ سوال نہ کرو اور جب دعا سے فارغ ہوجاؤ ، تو ہاتھوں کو چہرے پر پھیر لیا کرو ۔

( سنن ابی داؤد ، باب الدعاء ، ج 1 ، ص 218 ، مطبوعہ لاھور )

    مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:’’ کیونکہ پھیلے ہوئے ہاتھوں پر اﷲ کی رحمت اترتی ہے ۔ ان ہاتھوں کے منہ پر پھیر لینے سے رحمت منہ پر پہنچ جاتی ہے ۔ یہ عملی سنت بھی ہے ۔ اتباع سنت میں برکت ہے ۔ ‘‘

(مرأۃ المناجیح ، جلد 3 ج، ص 298 ، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز ، کراچی )

    اوریہی عمل صحابہ کرام علیہم الرضوان سے بھی ثابت ہے ۔ چنانچہ حضرت وہب بن کیسان رحمۃ اللہ علیہ تابعی بزرگ فرماتے ہیں:’’ رأيت ابن عمر و ابن الزبير يدعوان يديران بالراحتين على الوجه ‘‘ ترجمہ : میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر اور سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ جب  دعا کرتے ، تو اپنی ہتھیلیوں کو چہرے پر پھیر لیتے ۔

( الادب المفرد للامام البخاری ، باب رفع الایدی فی الدعاء ، صفحہ 214 ، مطبوعہ دار البشائر الاسلامیہ ، بیروت )

    اس عمل کے سنت ہونے سے متعلق در مختار میں ہے : ’’ والمسح بعده على وجهه سنة ‘‘ ترجمہ : دعا کے بعد ہاتھ منہ پر  پھیرنا سنت ہے ۔

 ( در مختار مع رد المحتار ، کتاب الصلوٰۃ ، ج 2 ، ص 264 ، مطبوعہ کوئٹہ )

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں:’’دعا کے بعد چہرے پرہاتھ پھیرنا مسنون ہوا کہ حصول مرادقبول دعا کی فال ہو ۔ گویادونوں ہاتھ خیروبرکت سے بھرگئے ، اس نے وہ برکت اعلیٰ و اشرف اعضاپراُلٹ لی کہ اس کے توسط سے سب بدن کو پہنچ جائے گی۔‘‘

( فتاویٰ رضویہ ، جلد 7 ، صفحہ 612 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم