مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-0065
تاریخ اجراء:22صفر المظفر1445ھ/09ستمبر2023ء
مرکزالاقتصادالاسلامی
Islamic Economics
Centre (DaruliftaAhlesunnat)
(دعوت
اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے
کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم تین دوست مل کر پارٹنر شپ کرنا چاہتے
ہیں ، رقم بھی سب کی برابر ہوگی اور نفع بھی تینوں
برابر بانٹیں گے، ہم میں سے دوپارٹنر
زدوکان پر پارٹ ٹائم وقت دیں گے جبکہ ایک پارٹنر مکمل وقت دے
گا اور کام بھی زیادہ کرے گا تو کیا اس پارٹنر کی نفع کے
علاوہ ماہانہ الگ سےکوئی تنخواہ (Salary)مقرر (fix) کی جاسکتی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں
زیادہ کام کرنے والے پارٹنر کی نفع کے علاوہ ماہانہ
سیلری(اجرت) فکس کرنا، جائز نہیں۔
مسئلے
کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ شریعت مطہرہ نے ملازم (Employee (رکھنے
کے جو اصول بیان فرمائے ہیں
ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنے
ہی کام کے لئے ملازم (Employee (نہیں
بن سکتا۔سیلری مقرر نہ
کیے جانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک پارٹنر کے لئے سیلری فکس
کرنا شرکت کے منافی(Against) ہے کیونکہ شراکت
داری (Partnership (ایک ایسا عقد (Agreement ( ہے جس میں تمام شراکت دار(Partners (اصل رقم اور نفع دونوں میں شریک ہوتے ہیں،مذکورہ طریقے کے
مطابق ایک پارٹنر کی تنخواہ (Salary ( مقرر (fix) کردینے کے بعد ممکن ہے کبھی کاروبار میں نفع فقط اتنا ہی ہو جتنی اس
ایک
شریک (Partner
(کی رقم مقرر (fix)کردی گئی، تب تو دیگر
شرکاء کی نفع میں بالکل
بھی شرکت نہیں ہوگی۔
مذکورہ
ناجائز صورت کا متبادل جائز طریقہ
پارٹنرشپ میں زیادہ کام کرنے والے پارٹنر کو زیادہ نفع
دینا چاہتے ہیں تو اس کی جائز صورت یہ ہے کہ باہمی
رضامندی(Mutual Understanding) سے زیادہ
کام کرنے والے پارٹنر کے لئے نفع(Profit) کا تناسب(Ratio) زیادہ مقرر
کرلیا جائےتو زیادہ کام کرنے والے کا زیادہ نفع لینا جائز
ہوجائے گا۔
سوال میں پوچھی گئی صورت کے ناجائز ہونے پر کتب فقہ سے
جزئیات ملاحظہ ہوں:
غایۃ البیان میں ہے:’’قال محمد: کل شى استاجر من صاحبه مما يكون عملا فانه لا يجوز وان عمله فلااجر له‘‘یعنی:امام محمد نے فرمایا کہ:کسی بھی
شریک کا مشترکہ سامان میں اجرت پر کام کرنا جائز نہیں اور اگر
اس نے بطور اجیر کام کیا تو اسے اجرت نہیں ملے گی۔(غاية البيان ، جلد13،صفحہ398،دارالضياء كويت)
غایۃ البیان ہی میں اس کی علت یوں
بیان کی گئی ہے کہ:’’لانه عامل
لنفسه، والانسان لايستحق على عمله لنفسه اجرا، لانہ لایتمیز نصیبہ من نصيب شريكه، لكونه
شائعا، فيكون
عاملا لنفسه فى كل جزء من المعقود عليه‘‘یعنی:یہ تو اپنا
ہی کام خود کرنا ہوا اور بندہ اپنا کام خود کرنے پر اجرت کا مستحق
نہیں ہوتا، نیز مشاع سامان ہونے کی وجہ سے بندہ اپنا اور اپنے
شریک کا حصہ الگ نہیں کرسکتاجس کی وجہ سے بطور اجارہ کیا
جانے والا ہر کام اس کا اپنے لئے کرنا قرار پائے گا۔(غاية البيان ، جلد13،صفحہ397،دارالضياء كويت)
درمختار میں ہے:’’(ولو)استاجرہ (لحمل طعام) مشترک (بینھما فلا اجرلہ) لانه لایعمل شیئا
لشریکہ الاویقع بعضہ لنفسہ فلایستحق الاجر ‘‘یعنی:اگر ایک شریک
مشترکہ سامان کو اٹھانے کے لئے اجیر بنا تو اس کو اجرت نہ ملے گی کیونکہ
جو کچھ اس نے اٹھایا اس میں شریک کے ساتھ اس کا اپنا حصہ بھی
ہے جس کی وجہ سے وہ اجرت کا مستحق نہیں ہوگا۔(درالمختار مع رد المحتار ، جلد9،صفحہ82، بيروت)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ
اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں:’’شریک کو مال مشترک میں تصرف
کرنے کےلئے اجیر کرنا اصلاً جائز نہیں۔‘‘(فتاوٰی رضویہ ،جلد16،صفحہ108،رضا فاؤنڈیشن لاھور)
بہارشریعت میں ہے:’’دوشخصوں میں غلہ مشترک ہے اس مشترک غلہ
کے اُٹھانے کے ليے ایک نے دوسرے کو اجیر کیا دوسرے نے اُٹھایا
اس کو کچھ مزدوری نہیں ملے گی کہ جو کچھ یہ اُٹھارہا ہے
اُس میں خود اس کا بھی ہے لہٰذا اس کاکام خود اپنے ليے ہو ا
مزدوری کا مستحق نہیں ہوا۔“(بهار شريعت،جلد03،صفحہ152، مكتبة المدينة، كراچى)
درمختار میں ہے:’’(شرطھا)
ای شرکۃ العقد (عدم مایقطعھا کشرط دراهم مسماۃ من الربح لاحدھما) لانہ قد لایربح غیر المسمی
(و حکمھا الشرکۃ فی الربح)‘‘یعنی:شرکت
عقد کی ایک شرط یہ ہےکہ شرکت میں کوئی
ایسی چیز نہ پائی جائے جو شرکت کو قطع کردے جیسے دو
شریکوں میں سے ایک کے لئے نفع میں سے معین(Fix) درہموں کی
شرط لگانا کیونکہ کبھی ان معین
درہموں کے علاوہ کوئی نفع ہی نہیں ہوتا اور شرکت عقد کا حکم نفع
میں شرکت ہے۔
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ عبارت کے تحت فرماتے
ہیں:’’فيلزم انتفاء حكمها لولم يربح غير المسمى‘‘یعنی:اگر معین دراہم
کے سوا کچھ نفع ہی نہ ہوا تو شرکت کا حکم ہی ختم ہوجائے گا۔(درالمختار مع رد المحتار ، جلد6،صفحہ468، بیروت)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے
ہیں:’’شرکت ایک عقد ہے جس کا مقتضٰی دونوں شریکوں
کا اصل و نفع دونوں میں اشتراک ہے، ایک شریک کے لئے معین
تعداد زر مقرر کرنا قاطع شرکت ہے کہ ممکن کہ اسی قدر نفع ہو تو کلی
نفع کا یہی مالک ہوگیا ، دوسرے شریک کو کچھ نہ ملا تو ربح
( نفع ) میں شرکت کب ہوئی۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد17،صفحہ371،رضا فاؤنڈیشن لاھور)
بہارشریعت میں ہے:’’یہ بھی ضرور ہے کہ ایسی
شرط نہ کی ہو جس سے شرکت ہی جاتی رہے مثلاًیہ کہ نفع دس
روپیہ میں لوں گا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کُل دس ہی روپے نفع
کے ہوں تو اب شرکت کس چیز میں ہوگی۔“(بهارشریعت،جلد2،صفحہ491،مکتبۃ المدینہ کراچی)
زیادہ کام کرنے والےکے لئے نفع میں سے زیادہ حصہ بھی
مقرر کیا جاسکتا ہے جیسا کہ بہار شریعت میں ہے:”اگر کام دونوں
کریں گے مگر ایک زیادہ کام کرےگا دوسرا کم اور جو زیادہ
کام کرےگا نفع میں اُس کا حصہ زیادہ قرار پایا یا برابر
قرار پایا یہ بھی جائز ہے۔“(بهار شريعت،جلد02،صفحہ499، مكتبة المدينة كراچى)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کام میں چار پاٹنر ہیں کیا چاروں کا برابر وقت دینا ضروری ہے؟
میرے بھائی میرے کاروبارمیں بلامعاہدہ شامل ہونے کے بعدکیا میرے شریک ہوگئے ؟
کیا ایسا ممکن ہے کہ کاروبار میں برابرکےشریک ہوں اگر چہ ایک پاٹنر کے پاس سرمایہ نہ ہو؟
صرف دکان کام کے لئے دے کرنفع لینا کیسا ہے؟
قرض کے بدلے کاروبار میں کیسے شرکت کی جائے؟
شرکت میں شرط فاسدہو تو کیا حکم ہے؟
مشترکہ کاروبار میں ایک پارٹنر کا پرسنل سامان پیچنا کیسا ؟
اُدھار میں چیز نقد قیمت سے مہنگی بیچنا کیسا؟