مرکز الاقتصا د الاسلامی دار الافتاء اہلسنت (دعوت
اسلامی)
Islamic Economics
Centre Darulifta Ahlesunnat
(Dawat e islami)
از قلم: مولاناسید مسعود علی
عطاری مدنی متخصص فی
الفقہ الاسلامی دار الافتاء اہلسنت
حدیث پاک میں
ہے: ”عن السائب بن أبي
السائب : أنه كان شريك النبي صلى الله عليه و سلم في أول الإسلام في التجارة فلما
كان يوم الفتح قال : مرحبا بأخي و شريكي“
یعنی ابتدائے اسلام میں حضرت سائب بن ابو سائب مخزومی تجارت میں نبی اکرم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے شریک تھے۔ جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو حضور صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان الفاظ کے ساتھ ان کو مخاطب فرمایا:
”خوش آمدید میرے بھائی اور میرے شریک۔“ (مستدرک علی الصحیحین،
جلد2، صفحہ 69، دارالکتب العلمیہ)
ایک اور حدیث پاک میں ہے: ” عن ابی
ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رفعہ قال: ان اللہ تعالیٰ
یقول انا ثالث الشریکین ما لم یخن احدھما صاحبہ فاذا خانہ
خرجت من بینھما“
یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت
ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں دو شریکوں
کے درمیان تیسرا ہوں، جب تک ان میں سے کوئی اپنے ساتھی کے ساتھ خیانت نہ کرے، جب کوئی خیانت
کرتا ہے تو میں ان سے جدا ہوجاتا ہوں۔ (سنن ابی داؤد، کتاب
البیوع، باب الشرکۃ، حدیث 3383)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
بعثت مبارکہ کے وقت بھی لوگ آپس میں
عقدِ شرکت (Partnership) کیا
کرتے تھے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
اس کو باقی رکھا اور اس سے منع نہیں فرمایا ۔
بدائع الصنائع میں ہے: ”بعث رسول
اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم والناس یتعاملون بھذہ
الشرکۃ فقررھم علی ذلک حیث لم ینھھم و لم ینکر علیھم،
والتقریر احد وجوہ السنۃ “
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم کی بعثتِ مبارکہ کے وقت لوگ عقدِ شرکت کیا کرتے تھے حضور صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے لوگوں کو اس پر برقرار رکھا اور انہیں
اس سے منع نہیں فرمایا اور جب کوئی عمل حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم کے سامنے کیا جائے اور آپ اس سے منع نہ فرمائیں تو اس سے بھی
سنت کا ثبوت ہوتا ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد7، صفحہ 512)
دو یا دو سے زائد افراد کا مل کر کام کرنا شرکت(Partnership) کہلاتا ہے۔شرکت کی بعض
اقسام میں دونوں فریق کا سرمایہ ملانا ضروری ہوتا
ہے اور بعض میں دونوں بغیر
سرمایہ لگائے کام کرتے ہیں۔
شرکت کی
دو مرکزی اقسام ہیں :
1.
شرکتِ ملک (Joint Ownership)
2.
شرکتِ عقد (Contractual Partnership)
شرکت ملک سے مراد یہ ہے کہ ایک سے زائد
افراد کسی چیز کے مشترکہ طور پر مالک ہوں اور ان کے درمیان شرکت
کا عقد (Contract) نہ ہوا ہو جیسے
دو افراد نے شرکت کے طور پر کوئی چیز
خرید لی یا وراثت میں
دونوں کو ترکے کے طور پر کوئی چیز
ملی۔
شرکتِ عقد سے مراد یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد افراد نے باہم شرکت کا
عقد کیا ہو مثلاًایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ ميں تمہارا شریک (Partner)
ہوں ہم پارٹنر شپ (Partnership)میں
کام کرتے ہیں اور دوسرے نے اسے
منظور کرلیا۔اگر یہ شرکت راس المال (Capital)کو
ملا کر ہو تو اس کا مقصد اس راس المال (Capital)
کے ذریعے تجارت کرتے ہوئے نفع کمانا
ہوتا ہے ۔
شرکتِ عقد کی مختلف اقسام ہیں:
1.
شرکت بالمال (Partnership by
Capital)
2.
شرکت بالعمل (Partnership by Work)
3.
شرکتِ وجوہ (Partnership by Goodwill)
شرکت بالمال سے مراد یہ ہے کہ تمام پارٹنرز سرمایہ لگاکر شرکت کریں
اور نفع نقصان میں شریک ہوں۔
شرکت بالعمل سے مراد یہ
ہے کہ دو افراد کام میں شرکت کریں جیسے دو درزی
مل کر بیٹھ گئے یا دو رئیل اسٹیٹ بروکر مل کر بیٹھ گئے کہ مل کر کام کریں
گےاور جو آمدنی ہوگی اسے آپس میں تقسیم کرلیں گے۔
شرکتِ وجوہ سے مراد یہ ہے کہ مثلاً دو افراد مال کے بغیر یوں شرکت کریں کہ اپنی وجاہت (Goodwill) کے ذریعے ادھار مال خرید کر لائیں
گے اور اس کو بیچ کر جو نفع (Profit) ہوگا آپس میں تقسیم کرلیں گے۔
شرکتِ عقد کی قسم شرکت
بالمال چونکہ زیادہ مروج ہے اس لئے
اس کے تعلق سے چند ضروری مسائل ملاحظہ ہوں۔
شرکت بالمال (Partnership by Capital) میں دونوں فریق کی طرف سے
رقم لگانا ضروری ہے۔ البتہ تمام پارٹنرز کی رقم برابر ہونا ضروری
نہیں ، کم وبیش بھی ہوسکتی ہے ، لہذا کوئی بھی
فرد شرکت (Partnership) میں جتنی چاہے رقم ملاسکتا ہے ،شرعاً کوئی
حدبندی نہیں۔
پارٹنر شپ میں یہ ضروری نہیں
کہ دونوں پارٹنر برابر کا وقت دیں اور برابر ہی کام کریں بلکہ ایک
پارٹنر کم وقت دے ، کم کام کرے اور دوسرا پارٹنر زیادہ وقت دے، زیادہ کام کرے تو اس میں
کوئی حرج نہیں۔
دونوں پارٹنرز کا سرمایہ
چاہے برابر ہو یا ایک پارٹنر
کا کم اور دوسرے کا زیادہ۔ نفع (Profit)کا اصول یہ ہے کہ نفع باہمی رضامندی
سے جتنا چاہیں مقرر کرسکتے ہیں لیکن فیصد (Percentage)میں ہی
مقرر کرنا ہوگا۔ البتہ اگر نقصان (Loss)ہوتا ہے تو وہ سرمایہ (Capital)کے تناسب (Ratio)سے ہی دونوں کو برداشت کرنا ہوگا۔ مثلاً ایک
پارٹنر کا سرمایہ 5,00,000 روپے اور دوسرے کا سرمایہ 15,00,000 روپے ہے تو یہ باہمی
رضامندی سے نفع سرمایہ کے تناسب سے
( ایک پارٹنر کا 25 فیصد اور دوسرے کا 75 فیصد بھی) طے کرسکتے ہیں اور اس سے ہٹ کر مثلاً
دونوں کا برابر برابر یا ایک پارٹنر کا 60 فیصد اور دوسرے کا 40
فیصد بھی طے کرسکتے ہیں
لیکن اگر نقصان ہو تو وہ دونوں
پارٹنرز کے درمیان سرمایہ کی فیصد کےا عتبار سے ہی
ڈالا جائے گا یعنی مذکورہ مثال میں 5,00,000 روپے سرمایہ والے کو 25 فیصد نقصان برداشت کرنا
ہوگا اور 15,00,000 روپے سرمایہ والے کو 75 فیصد نقصان برداشت کرنا ہوگا۔
کاروبار میں اخراجات (Expenses)نکال کر سرمایہ
(Capital)
سے زائد جو رقم بچے اسے نفع (Profit) کہتے ہیں اور اگر اخراجات (Expenses)نکال کر سرمایہ
(Capital)
سے بھی کم بچے تو یہ کمی نقصان (Loss) کہلاتی ہے ۔
اگر اخراجات (Expenses) نکال کر سرمایہ (Capital)
سے زائد رقم بچے تو اسے تمام پارٹنرز طے شدہ فیصد (Percentage)کے اعتبار سے آپس میں
تقسیم کرلیں گے۔
اگر اخراجات (Expenses) نکال کر سرمایہ (Capital)
سے زائد کچھ نہ بچا بلکہ صرف سرمایہ (Capital)
کے برابر ہی رقم بچی تو جس پارٹنر نے جتنا سرمایہ لگایا
تھا اتنی رقم اس کو دے دی
جائے گی۔
اگر اخراجات (Expenses) نکال کر سرمایہ (Capital)
سے کم رقم بچی تو جتنی کمی ہے وہ پہلے نفع (Profit)
سے پوری کی جائے گی یعنی جتنا نفع پارٹنرز لے چکے ہیں
وہ تناسب (Ratio)کے اعتبار سے اتنا نفع
واپس کریں گے کہ سرمایہ (Capital) کی رقم پوری ہوجائے۔ اگر لیا
ہوا نفع واپس کرنے کے بعد بھی کیپٹل
کی رقم پوری نہ ہو تو پھر یہ نقصان پارٹنرز کو انویسٹمنٹ (Investment)کے تناسب (Ratio)سے برداشت کرنا ہوگا یعنی جس کی جتنی
فیصد انویسٹمنٹ تھی اس کو نقصان بھی اتنا ہی فیصد
برداشت کرنا ہوگا۔
پارٹنر شپ میں نفع فیصد(Percentage) میں
طے کرنا ضروری ہے، فکس رقم نفع میں مقرر کرنا، جائز نہیں کیونکہ
یہ معلوم نہیں کہ نفع کتنا ہوگا ا ب اگر ٹوٹل نفع اتنا ہی ہوا
جتنا ایک پارٹنر کے لئے فکس کیا تھا تو سب کا سب ایک ہی پارٹنر
کو مل جائے گا مثلاً ایک پارٹنر کے
لئے پانچ ہزار روپے نفع مقرر کرلیا تھا اور نفع ہوا ہی ٹوٹل پانچ ہزار
تو دوسرے پارٹنر کو کچھ نہیں ملے گا۔ اسی لئے شریعتِ
مطہرہ نے فیصد کے حساب سے نفع مقرر کرنے کا حکم دیا تاکہ جتنا بھی
نفع ہو تمام پارٹنرز میں فیصد(Percentage) کے اعتبار سے تقسیم ہوجائے۔
جی نہیں! سرمایہ
کی فیصد طے کرنے کا مطلب نفع فکس کرنا ہی ہے مثلاً 50 لاکھ روپے سرمایہ
ہے اس کا اگر 30 فیصد
نفع مقرر کیا تو پندرہ لاکھ روپے
بنے جو کہ فکس نفع ہے اور نفع فکس کرنا، جائز نہیں۔ لہٰذا اس کے بجائے نفع کی فیصد مقرر کی
جائے یعنی جتنا بھی نفع ہوگا اس کا اتنا فیصد ملے گا اب
چاہے نفع کم ہو یا زیادہ اس کا جو تناسب (Ratio) فریقین کے لئے مقرر ہے وہ دیا جائے
گا اس طرح رقم فکس نہیں ہوگی۔
شرعی اصولوں کے مطابق شرکت قائم ہوجانے کے بعد دو یا
زائد افراد یا دوسرے الفاظ میں
دو فریق جو مل کر کام کرتے ہیں یہ ایک طرح سے ایک
کمپنی (Company)قائم کرتے ہیں
اب یہ کمپنی کے لئے جو کچھ خریدیں اور بیچیں گےاس کا حساب رکھیں
گے اور جب چاہیں یہ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کمپنی
کہاں کھڑی ہے یعنی نفع ہو رہا ہے یا نہیں ؟
رہی یہ بات کہ حساب کتاب ہر ڈیل (Deal)پر کرکے نفع تقسیم
کرنا ہے یا سال بعد یا کسی بھی موقع پر کرنا، یہ ایک اختیاری اور
انتظامی مسئلہ ہے فریقین
اس کو اپنی مرضی سے طے کر سکتے ہیں۔
اگر صرف ایک پارٹنر کے پاس سرمایہ ہے دوسرے کے پاس سرمایہ
لگانے کے لئےمال نہیں ہے اور دونوں نفع نقصان میں شرکت کی بنیاد
پر پارٹنر شپ کرنا چاہتے ہیں تو اس
کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جس کے پاس مال ہے وہ مثلاً اپنا آدھا مال
دوسرے پارٹنر کو بطورِ قرض دے دے اور قرض واپس کرنے کی کوئی ممکنہ مدت طے کر لیں
۔ اب دونوں پارٹنرز اپنی اپنی
طرف سے سرمایہ ملاکر پارٹنر شپ کرلیں
اور قرض لینے والا مقررہ مدت پر قرض واپس کر دے۔
جو پارٹنر کام نہیں
کر رہا یعنی اس نے سرمایہ تو ملایا ہے لیکن سلیپنگ
پارٹنر(Sleeping Partner) ہے وہ
اپنے سرمایہ (Capital)
کے تناسب سے زیادہ نفع مقرر نہیں کر سکتا مثلاً اس پارٹنر
نے 30 فیصد رقم ملائی اور کام بھی نہیں کر رہا تو یہ
نفع 30 فیصد تک ہی مقرر کرسکتا ہے اس سے زیادہ نفع اس کے لئے
مقرر نہیں کیا جاسکتا۔
پارٹنر شپ میں ہر پارٹنر کا کام کرنا
ضروری نہیں۔ ایک
پارٹنر کام کرے دوسرا کام نہ کرے یہ بھی جائز ہے، ایک زیادہ
کام کرے اور دوسرا کم کرے یہ بھی جائز ہے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ کام نہ کرنے
والا پارٹنر اپنے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ نفع کا تناسب مقرر نہیں
کرسکتا۔
جی نہیں! تنخواہ (Salary)ملازم (Employee)کو دی جاتی ہے پارنٹر کو نہیں۔ پارٹنر نفع میں حصہ دار ہوتا ہے اور اس
کے لئے نفع میں سے کچھ بھی
فکس کرنا، جائز نہیں۔ لہٰذا
پارٹنر زیادہ کام کرے تب بھی اس کے لئے تنخواہ مقرر نہیں کی
جاسکتی۔ البتہ زیادہ کام کرنے والے پارٹنر کے لئے
پارٹنر شپ کا معاہدہ کرتے وقت نفع کا تناسب زیادہ مقرر کیا جاسکتا ہے یا دورانِ معاہدہ بھی
نفع کے تناسب کو باہمی رضا مندی
سے کم زیادہ کیا جاسکتا ہے مثلا ً دونوں پارٹنرز نے پچاس پچاس لاکھ روپے سرمایہ لگایا
ہے لیکن ان میں سے ایک پارٹنر کام زیادہ کرے گا تو یہ
کیا جاسکتا ہے کہ زیادہ کام کرنے والے کا نفع مثلاً 65فیصد مقرر
کیا جائے اوردوسرے کا نفع 35 فیصد
مقرر کیا جائے۔ البتہ اگر نقصان ہو اتو وہ دونوں کو برابر ہی
برداشت کرنا ہوگا کیونکہ اس مثال میں
سرمایہ دونوں کا برابر ہے اور نقصان سرمایہ کے حساب سے ہی
اٹھانا پڑتا ہے۔
پارٹنر شپ کی مدت کے لیے کوئی حدبندی
(Time Frame)نہیں
ہے، باہمی رضامندی سے کوئی بھی مدت طے کی جاسکتی
ہے۔البتہ مدت طے کرنا ضروری نہیں ہے۔
چلتے کاروبار (Running
Business)میں شرکت (Partnership)کرنا،جائز نہیں
کیونکہ اس طریقہ کار میں شرکت کی بنیادی
شرائط نہیں پائی جاتیں۔
اگر پہلے سے کوئی کام چل رہا ہےاور اس
چلتے کام میں شرکت کرناچاہتے ہیں تو کسی ایک یا
زائد آئٹم میں شرکت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے پارٹنرشپ کر لیں اور ان کا الگ
سے حساب کتاب رکھا جائے۔ اگر کل کاروبار میں دوسرے کو شریک کرنا
ہے تو پھر سب سے پہلا کام توکلوزنگ (Closing)یعنی حساب
کتاب کرنا ہوگا کہ کتنا مال ہے کتنا سرمایہ ہے پھر اس کی مختلف صورتیں بنیں
گی، ممکن ہے کاروبار میں
رقم بالکل نہ ہو بلکہ صرف سامان ہو اور اس کے علاوہ بھی صورتیں بن سکتی
ہیں۔ ساری کلوزنگ (Closing)کرنے کے بعد پھر مستند مفتیانِ کرام سے رہنمائی
لی جائے کہ نقدی کی یہ تفصیل ہے اور اس کے علاوہ چیزوں
کی یہ تفصیل ہے۔ پھر
اس کی روشنی میں شرعی رہنمائی کی جا
سکتی ہے۔
اگر کوئی ایک پارٹنر (Partner)
ایگریمنٹ (Agreement)ختم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اس کے لئے دیگر
پارٹنرز کی رضا مندی ضروری نہیں، جبکہ
دوسرےپارٹنرز کو اس بات کا علم ہو۔ البتہ سرمایہ نکالنے کے لئے
کاروبار کی پوزیشن دیکھ کر فریقین باہمی رضا
مندی سے کسی مناسب وقت پر اتفاق کرلیں۔ اگرسرمایہ
ہاتھ میں نہ ہو بلکہ لوگوں سے وصول کرنا ہوتو ایک فریق اس بات
کا پابندنہیں کہ دوسرے فریق کو رقم
اپنی جیب سے ادا کرے، بلکہ جیسے جیسے رقم آتی
رہے گی دونوں فریق اپنا حصہ اس سے لیتے رہیں گے۔
نیز باہمی رضامندی
(Mutual Understanding)سے یہ طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا
ہے کہ ایک پارٹنر دوسرے پارٹنر کا
حصہ (Share) خرید
کر اس کو ادائیگی (Payment)کردے اور پوری کمپنی کو اپنی ملکیت
(Ownership) میں
لے لے۔
تجارت اور لین دین سے متعلق مسائل سیکھنے
کے لئے ہمیں جوائن کریں
ہر اتوار کوکراچی
کے وقت کے مطابق مغرب کی نماز
کے 30 منٹ بعد مدنی چینل پر
لائیو پروگرام ”احکام تجارت“ پیش کیا جاتا ہے جس میں
ماہر امور تجارت مفتی علی اصغر صاحب سوالات کے جوابات دیتے ہیں آپ اپنے سوالات براہ
راست اس پروگرام میں پوچھ سکتے ہیں
۔
فنانس پروفیشنلز
کے لئے عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ میں اسلامک فنانس سرٹیفکیٹ کورس کروایا
جاتا ہے ۔ کراچی سے باہر کے
لوگ اس کورس میں آن لائن شرکت کرتے ہیں ۔سال میں دو بار یہ
کورس ہوتا ہے
islamic.finance@dawateislami.net
پر آپ اپنی
رجسٹریشن کے لئے رابطہ کر سکتے ہیں ۔
ماہنامہ فیضان
مدینہ کے ہر شمارہ میں احکام تجارت پر سوال جواب موجود ہوتے ہیں
اس شمارے کے فتاوی دار الافتاء اہل
سنت کی ویب سائٹ پر بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔
دعوت اسلامی کے
زیر اہتمام بزنس کمیونیٹی کے لئے مختلف شہروں میں وقتا فوقتا مختلف
چیمبر آف کامرس یا دیگر مقامات پر تجارت کے تعلق سے اہم لیکچرز
کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ملک بھر میں دار
الافتاء اہل سنت کی 15 شاخیں آپ کے سوالات کے جوابات دینے کے
لئے موجود ہیں ان کی لوکیشن اور رابطہ نمبر دار الافتاء اہل سنت
کی ویب سائٹ پر موجود ہے ۔
اہم لنکس پر ہمیں
فالو کریں
www.youtube.com/@MuftiAliAsghar
www.facebook.com/MuftiAliAsghar
www.twitter.com/MuftiAliAsghar
دار الافتاء اہلسنت ملک بھر میں اب تک اپنی 15برانچوں کے
ساتھ آپ کو یہ سہولت فراہم کر رہا
ہے کہ آپ فون ،ای میل اور بالمشافہ طریقے سے اپنے دینی
مسائل پوچھ سکتے ہیں ۔لیکن
اب خاص تجارت و لین دین سے متعلق دعوت اسلامی کے اس شعبہ یعنی
مرکز الاقتصا د الاسلامی دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی) کے ذریعے
آپ پہلے سے وقت (Appointment)لے کر اپنے مسائل کے لئے میٹنگ طے کر سکتے ہیں
۔کراچی سے تعلق رکھنے والے افراد بالمشافہ آئیں گے جبکہ کراچی
سے باہر والے افراد آن لائن میٹنگ کی سہولت لے سکتے ہیں ۔
اپنے تجارتی اور لین دین سے متعلق مسائل جاننے کے لئے
takeappointment@daruliftaahlesunnat.net
ای میل پر
رابطہ کر کے آپ وقت (Appointment) لے سکتے ہیں۔اس
میل آئی ڈی پر سوالات کے
جوابات نہیں دئیے جاتے۔ای میل بھیجتے
وقت فون نمبر ،اپنی کمپنی کا نام ضرور لکھیں نیز آپ کو کس
دن اور کون سا وقت چاہیے اس کی
نشاندہی بھی ضرور کریں۔
Admin no:03037862512
Contact timing:11 AM to 4 PM
کام میں چار پاٹنر ہیں کیا چاروں کا برابر وقت دینا ضروری ہے؟
میرے بھائی میرے کاروبارمیں بلامعاہدہ شامل ہونے کے بعدکیا میرے شریک ہوگئے ؟
کیا ایسا ممکن ہے کہ کاروبار میں برابرکےشریک ہوں اگر چہ ایک پاٹنر کے پاس سرمایہ نہ ہو؟
صرف دکان کام کے لئے دے کرنفع لینا کیسا ہے؟
قرض کے بدلے کاروبار میں کیسے شرکت کی جائے؟
شرکت میں شرط فاسدہو تو کیا حکم ہے؟
مشترکہ کاروبار میں ایک پارٹنر کا پرسنل سامان پیچنا کیسا ؟
اُدھار میں چیز نقد قیمت سے مہنگی بیچنا کیسا؟