مشترکہ کاروبار میں ایک پارٹنر کا پرسنل سامان پیچنا کیسا ؟ |
مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر:aqs:1400 |
تاریخ اجراء:06محرم الحرام1440ھ/17ستمبر2018ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ دو شخص آپس میں پارٹنر ہیں ، ایک دکان پر بیٹھتا ہے ۔ اب جو گاہک دکان پر آتا ہے ، وہ مشترک ہی ہوتا ہے ، مگر دکان پر بیٹھنے والے پارٹنر کے کچھ جاننے والے لوگ اسے فون یا واٹس اپ پر سامان کا کہتے ہیں (جن کو دکان سے کوئی غرض نہیں ہوتی ، وہ اس شخص کو گھریلو طور پر جانتے ہیں )، تو یہ ان کے ساتھ پرسنل ڈیل کرتا ہے اور پھر اپنے پیسوں سے وہی سامان مارکیٹ سے لا کر اُن لوگوں کو دے دیتا ہے ، مالِ شرکت سے کچھ بھی نہیں دیتا ، آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ اِس پارٹنر کا اس طرح کرنا کیسا ہے اور اس نفع کا کیا حکم ہے ؟ نوٹ ! دونوں کا مشترکہ کام سونے کا ہے اوراسی طرح کے لاکٹ ،سیٹ وغیرہ لوگ فون پر اس جاننے والے کوکہتے ہیں اور ایک پارٹنر باہر سے ہی اسے خرید کر بیچ دیتا ہے۔ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
پوچھی گئی صورت میں اُس شریک کا اس طرح ڈیل کرنا ، جائز نہیں اور اس کا نفع بھی مشترک ہی ہوگا ، کیونکہ شرکت کے معاہدے کے بعد جس قسم کے مال پر شرکت کا معاہدہ ہو چکا ہو ، اسی قسم کا مال خریدنے بیچنے کی صورت میں وہ چیز شرکت کی ہی کہلاتی ہے اور اس کا نفع دونوں شریکوں میں تقسیم ہوتا ہے ، اکیلے خرید و فروخت کرنے والے شریک کا نہیں ہوتا اگرچہ خریدتے بیچتے وقت اپنے لیے خریدنے بیچنے پر گواہ بھی بنا لیے ہوں ۔ بحر الرائق میں محیط کے حوالے سے ہے : ”و لو اشتری من جنس تجارتھما و اشھد عند الشراء انہ یشتریہ لنفسہ فھو مشترک بینھما لانہ فی النصف بمنزلۃ الوکیل بشراء شیء معین و لو اشتری مالیس من تجارتھما فھو لہ خاصۃ لان ھذا النوع من التجارۃ لم ینطو علیہ عقد الشرکۃ “ترجمہ : اور اگر ایسی چیز خریدی ، جو شریکین کی تجارت کی جنس سے ہی ہے اور اس پر گواہ ( بھی) بنا لیے کہ یہ چیز وہ اپنے لیے خرید رہا ہے ، ( پھر بھی ) وہ چیز دونوں میں مشترک ہوگی ، کیونکہ یہ ( خریدنے والا شخص ) معین چیز کے خریدنے میں وکیل کے درجے میں ہے اور اگر ایسی چیز خریدتا ہے ، جو ان کی ( شرکت کے معاہدے والی ) تجارت کی قسم سے نہیں ہے ، تو ( اس صورت میں ) وہ خریدی ہوئی چیز اس خریدنے والے شریک کی ہی ہوگی ، کیونکہ شرکت کا معاہدہ تجارت کی اس قسم کے لیے مانع نہیں ہے ۔( البحر الرائق ، کتاب الشرکۃ ، جلد 5 ، صفحہ 294 ، مطبوعہ کوئٹہ ) بہارِ شریعت میں ہے : ”ایک نے کوئی چیز خریدی ۔ اس کا شریک کہتا ہے کہ یہ شرکت کی چیز ہے اور یہ کہتا ہے میں نے خاص اپنے واسطے خریدی اور شرکت سے پہلے کی خریدی ہوئی ہے ، تو قسم کے ساتھ اس کا قول معتبر ہے اور اگر عقدِِ شرکت کے بعد خریدی اور یہ چیز اُس نوع میں سے ہے ، جس کی تجارت پر عقدِ شرکت واقع ہوا ہے ، تو شرکت ہی کی چیز قرار پائے گی اگرچہ خریدتے وقت کسی کو گواہ بنالیا ہوکہ میں اپنے لیے خریدتا ہوں ، کیونکہ جب اِس نوع تجارت پر عقدِ شرکت واقع ہوچکا ہے ، تو اسے خاص اپنی ذات کے لیے خریداری جائز ہی نہیں ، جو کچھ خریدے گا ، شرکت میں ہوگا اوراگر وہ چیز اُس جنسِ تجارت سے نہ ہو ، تو خاص اس کے لیے ہوگی۔“ (بہارِ شریعت ، حصہ 10 ، جلد 2 ، صفحہ 500 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی) |
وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
کام میں چار پاٹنر ہیں کیا چاروں کا برابر وقت دینا ضروری ہے؟
میرے بھائی میرے کاروبارمیں بلامعاہدہ شامل ہونے کے بعدکیا میرے شریک ہوگئے ؟
کیا ایسا ممکن ہے کہ کاروبار میں برابرکےشریک ہوں اگر چہ ایک پاٹنر کے پاس سرمایہ نہ ہو؟
صرف دکان کام کے لئے دے کرنفع لینا کیسا ہے؟
قرض کے بدلے کاروبار میں کیسے شرکت کی جائے؟
شرکت میں شرط فاسدہو تو کیا حکم ہے؟
اُدھار میں چیز نقد قیمت سے مہنگی بیچنا کیسا؟
کسی کو کاروبار کے لیے رقم دی اور اس کے کاروبار کے طریقے کا علم نہیں ، تو نفع کا حکم؟