مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-114
تاریخ اجراء:05جمادی الاولی1445ھ/20نومبر2023ء
مرکزالاقتصادالاسلامی
Islamic Economics
Centre (DaruliftaAhlesunnat)
(دعوت
اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں
کہ میں اپنی دوکان پر چوکر(Husk) (جانوروں کا چارہ)
وغیرہ بیچ کر اپنا کام چلا رہا ہوں ۔ میرا کزن مجھے کچھ انویسٹمنٹ(Investment) یوں دے رہا ہے کہ اس رقم سے صرف کھاد خرید
کر اپنی دوکان پر رکھوں ، جس کی
ایک بوری نقد 13 ہزار روپے کی
خرید کر مارکیٹ میں 4 مہینے کے ادھار پر 16 ہزار روپے کی
بیچی جاتی ہے۔ کھاد کی خرید و فروخت، اس کو دوکان
میں رکھنا ، کسٹمر سے پیسوں کی وصولی وغیرہ سب کام میں کروں گا اور ان
کاموں کے عوض ان سے کسی قسم کا کوئی نفع اور عوض وصول نہیں کروں گا اور ان کے مال کا حساب کتاب الگ رکھوں گا ۔ میرا اس میں صرف یہ فائدہ ہو
جائے گا کہ میری دوکان پر ایک آئٹم کا اضافہ ہو جائے گا جس کی
وجہ سے زیادہ کسٹمر میرے پاس آئیں گے۔ تو کیا اس کی شرعا اجازت ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
کسی کو انویسٹمنٹ(Investment) اس
شرط پر دینا کہ کام سارا کا سارا وہ
کرے گا اور تمام کا تمام نفع انویسٹر (Investor)کا
ہوگا ، کام کرنے والے کو اپنے کام کے عوض کچھ بھی نہیں ملے گا ، شرعی اصطلاح میں ابضاع /بضاعت
کہلاتا ہے ، فی نفسہٖ یہ
جائز ہے۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ کا اپنے
کزن کی انویسٹمنٹ(Investment)سے کھاد خرید
نا اور اسے مارکیٹ میں رائج شرعی طریقے کے مطابق ادھار یا
نقد بیچنا اور ضروری اخراجات نکالنے
کے بعد مکمل نفع اپنے کزن کو دے دینا اور اپنے کام اور اپنی کسی سروس کا
کوئی معاوضہ نہ لینا، بالکل جائز
ہے۔
لیکن یہاں اس بات کا خیال رہے کہ آپ
چونکہ کزن کے وکیل بن کر ان کے مال میں خریدو فروخت کا تصرف
کریں گے لہٰذا عقد بیع کے حقوق مثلاً
پیمنٹ کی وصولی وغیرہ
کا تعلق آپ سے ہوگا۔ آپ کے
قبضہ میں ان کا مال امانت ہوگا۔ آپ کی طرف سے کسی قسم کی کوتاہی (Negligence) کے بغیر مال ہلاک ہوگیا یا مال
میں نقصان ہوگیا تو آپ پر کسی قسم کا کوئی تاوان نہیں
ہوگا۔ ان کے مال کا جتنا نفع ہوا ہے، اس تمام کے حقدار آپ کے کزن
ہوں گے ۔ اگر کوئی نئی صورت حال پائی گئی تو مختلف صورتوں
پر مزید احکام شرعیہ
لاگو ہو سکتے ہیں ۔
علامہ محقق اِبن عابدین شامی
علیہ الرحمہ ”اِبضاع “ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :” وهو ان يكون المال للمبضع، والعمل من
الآخر، ولا ربح للعامل“یعنی:ابضاع یہ ہے کہ
ایک شخص کا مال اور دوسرے کا کام ہو جب کہ کام کرنے والا نفع نہ لے ۔(رد المحتار مع در مختار، جلد05، صفحہ
657، مطبوعہ بیروت)
المبسوط میں ہے:”ولو کان قال: على ان ما رزق اللہ تعالى
فی ذلك من شیء فهو كله لرب المال، فهذه بضاعة مع المضارب وليس له فيها
ربح، ولا اجر، ولا ضمان عليه فی المال ان هلك؛ لانه ما ابتغى عن عمله عوضا فيكون
هو فی العمل معينا لصاحب المال۔۔۔ فيكون المال فی يده امانة “ یعنی: اگر رقم
دیتے ہوئے یہ طے ہوا کہ اس رقم سے اللہ جو رزق عطا فرمائے گا وہ صرف انویسٹر
کا ہو گا تو یہ”بضاعت “ ہے، جس میں اس کا نہ کوئی نفع ہو گا نہ کوئی
اُجرت ہو گی، اور مال ہلاک ہونے کی صورت میں ضمان بھی نہیں ہوگا کیونکہ کام
کرنے والے نے اپنے کام کا کوئی عوض طلب نہیں کیا جس کے باعث کام
کرنے والا مال کے مالک کا محض معین و
مددگار ہوگا جب کہ مال اس کے پاس امانت قرار پائے گا ۔(المبسوط، جلد22، صفحہ24، دار المعرفة بيروت)
بطورِ بضاعت، کسی کو اپنا مال دینا جائز ہے جیسا
کہ درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:”لو قال المبضع لاحد خذ هذه الالف الدرهم بضاعة وبع واشتر
بها لی جاز“ یعنی: اگر بضاعت
پر کام کروانے والے نے کسی سے کہا کہ یہ ہزار درہم بطورِ بضاعت لے لو اور
اس سے میرے لیے خرید و فروخت کرو تو یہ جائز ہے۔( درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام،
جلد 3، صفحہ367، دار الکتب العلمیہ)
ابضاعاً مال لینے والا وکیل ہوتا ہے ، اور اس کے قبضہ میں
مال امانۃً ہوتا ہے ۔ فقہ حنفی کی مشہور کتاب مجلۃ الاحكام
العدلیہ میں ہے:”واذا شرط كون الربح تماما عائدا الی صاحب راس المال فيكون راس المال فی
يد العامل بضاعة والعامل مستبضع ومن کون المستبضع فی حکم الوكيل المتبرع یصیر
الربح او الخسار تماما عائدا الی صاحب المال“ یعنی: جب سارا نفع مال کے
مالک کا ہونا عقد میں مشروط ہو تو کام کرنے والے کے ہاتھ میں راس المال
بطورِ بضاعت ہو گا اور کام کرنے والا شخص مستبضع کہلائے گا ۔ مستبضع کے وکیلِ متبرع ہونے کے لوازمات میں
سے ایک یہ ہے کہ تمام کا تمام نفع صاحبِ مال کی طرف لوٹے گا۔(مجلۃ الاحكام العدلیہ، صفحہ259،
مطبوعہ کراچی)
وکیل بالبیع
والشراء کی طرف عقد کے حقوق لوٹتے ہیں جیسا کہ بدائع
الصنائع میں ہے : ”حقوق العقد
فی البيع، والشراء واخواتهما ترجع الى الوكيل مذهب علمائنا “ یعنی: ہمارے
علما کے نزدیک خرید و فروخت اور ان کی اقسام میں عقد کے حقوق
وکیل کی طرف لوٹتے ہیں ۔(بدائع الصنائع، جلد 6، صفحہ33، مطبوعہ
بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کام میں چار پاٹنر ہیں کیا چاروں کا برابر وقت دینا ضروری ہے؟
میرے بھائی میرے کاروبارمیں بلامعاہدہ شامل ہونے کے بعدکیا میرے شریک ہوگئے ؟
کیا ایسا ممکن ہے کہ کاروبار میں برابرکےشریک ہوں اگر چہ ایک پاٹنر کے پاس سرمایہ نہ ہو؟
صرف دکان کام کے لئے دے کرنفع لینا کیسا ہے؟
قرض کے بدلے کاروبار میں کیسے شرکت کی جائے؟
شرکت میں شرط فاسدہو تو کیا حکم ہے؟
مشترکہ کاروبار میں ایک پارٹنر کا پرسنل سامان پیچنا کیسا ؟
اُدھار میں چیز نقد قیمت سے مہنگی بیچنا کیسا؟