Sirf Dukaan Kaam Ke Liye De Kar Nafa Lena Kaisa Hai ?

صرف دکان کام کے لئے دے کرنفع لینا  کیسا ہے؟

مجیب:مولانا نورالمصطفی صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Lar:6001

تاریخ اجراء:04ذوالحجۃالحرام1437ھ/07ستمبر2016ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ سہیل نے اپنی ذاتی دوکان مع مکمل سامان (میز کرسیاں وغیرہ) اپنی رقم سے آفس کے طور پر تیار کی۔ پھر اس دوکان میں ارشد اور منیر کو پراپرٹی ڈیلنگ کا کام اس طرح شروع کروایا کہ منیر پورا وقت دوکان پر بیٹھے گا اور  ارشد تین گھنٹے دوکان پر دے گا۔ جبکہ یہ طے پایا ہے کہ سہیل خود کام نہیں کرے گابلکہ دوکان کا کرایہ لینے کے بجائے کمیشن میں شریک ہو گا، اور کمیشن کے ذریعے جو آمدنی ہو گی تینوں میں تقسیم ہو گی۔ البتہ منیر کمیشن سے ایک حصہ زیادہ رکھے گا۔ ان تینوں کا اس طرح آپس میں کمیشن تقسیم کرنا درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سوال میں مذکور شرکت جائز نہیں کیونکہ اس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ سہیل  کی شراکت صرف دوکان و سامان کے ساتھ ہے اور وہ کام نہیں کرے گا، اور یہ شرط فاسد ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اسے فوراً ختم کرنا واجب ہے، اور جو  کمیشن ملا وہ منیر یا اس کے ساتھ کام کرنے والے ارشد کا ہو گا، جبکہ سہیل کو اس کی دوکان و سامان کی اجرت مثل ملے گی۔ نیز عقد فاسد کرناچونکہ ناجائز و گناہ ہوتا ہے جیسا کہ فتاوی رضویہ (جلد17،صفحہ595) میں فرمایا، لہذا ان سب پر اس سے توبہ بھی ضروری ہے۔

    اس کا درست طریقہ شرکتِ عمل کے طور پر یہ ہو سکتا ہے کہ تینوں شریک کام لینے اور کرنے دونوں باتوں کی ذمے داری کے ساتھ عقد شرکت کریں، ان دونوں کاموں میں کسی کی نفی نہ کریں۔ البتہ کام کرنے کے معاملے میں کمی بیشی کے ساتھ بھی معاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس شرکت بالعمل میں نفع باہم جس نسبت سے چاہیں طے کر لیں۔ لیکن اگر کسی وجہ سے اس مشترکہ کام پر  کوئی نقصان و تاوان وغیرہ دینا پڑا تو وہ بھی اسی نفع کی نسبت سے ادا کرنا ہو گا۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم