Chalte Karobar Mein Shirkat Ka Ek Jaiz Tareeqa

 

چلتے کاروبار میں شرکت کاایک جائز  طریقہ

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0207

تاریخ اجراء:25 شوال المکرم 1445ھ /04مئی 2024ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں  کاسمیٹک اور انڈر گارمنٹس کی دوکان پر تقریباً 20 سال سے جاب کررہا ہوں، اب میں اس دوکان  میں مالک کے  ساتھ پارٹنرشپ کرنا چاہتا ہوں، فی الوقت دوکان میں16 لاکھ  روپے مالیت کا مال موجود ہے۔  اب میں مزید 04 لاکھ روپے نقد ملا کر شریک ہونا چاہتا ہوں، کام ہم دونوں پارٹنر کریں گے لیکن میں زیادہ کام کروں گااور نفع دونوں کے درمیان آدھا آدھا تقسیم ہوگا۔براہ کرم اس چلتے کاروبار میں شرکت کا جائز طریقہ ارشاد فرمادیجیئے   ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آپ جس طرح شرکت کرنا چاہتے ہیں یہ شرکتِ عقد کہلاتی ہے اور اس کی بنیادی شرائط میں سے ہے کہ دونوں شریک اپنا حصہ ’’کرنسی‘‘ کی صورت میں ملائیں۔ پوچھی گئی صورت میں آپ کے پاس موجود 04 لاکھ تو کرنسی کی صورت میں ہیں مگر آپ کے دوسرے پارٹنر کے پاس 16 لاکھ کا سامان ہے،لہٰذا جب ایک کے پاس سامان ہو اور دوسرے کے پاس رقم ہو تو  اس صورت میں شرکتِ عقد کرنا،  جائز نہیں۔

چلتے کاروبار میں شرکت کا جائز طریقہ

   اس کا جائز حل فقہاء کرام نے یہ ارشاد فریا ہے کہ پہلے دونوں پارٹنر موجودہ سامان میں شرکتِ ملک قائم کرلیں اور پھر شرکتِ عقد کر لیں۔

   اس کی  تفصیل کچھ یوں ہے کہ سب سے پہلے دونوں پارٹنر اپنی طرف سے شامل کیے جانے والے مال کا تناسب نکال لیں، پوچھی گئی صورت میں 16 لاکھ روپے کاسامان اور آپ کے04 لاکھ روپے کیش ملاکرکل مالیت 20لاکھ روپے بن جائےگی  جس میں16لاکھ روپےکاتناسب 80فیصد جبکہ 04 لاکھ روپے کاتناسب  20فیصد بن رہاہے ۔ آپ اپنے پارٹنر کی دوکان میں موجود مکمل سامان کا20  فیصداپنے مال کے 80فیصد یعنی  320000 روپے سے خرید لیں اور یہ رقم ان کے حوالے کردیں اور سامان پر قبضہ کرلیں، پھرآپ  کے پاس باقی رہ جانے والی رقم  یعنی 80000روپے آپ ملائیں اور 320000روپے آپ کاپارٹنرملائے اوراس رقم اور دوکان میں موجودسامان میں آپ  دونوں شرکتِ عقدکرلیں  اوریہ طے کرلیں کہ نفع دونوں کو آدھاآدھاملےگا۔ اس طرح آپ مکمل کاروبارکے  20فیصدکے حصہ دارہوں گے ، اسی تناسب سے کاروبارمیں ہونے والے  نقصان کے آپ ذمہ دارہوں گے۔

   یادرہے کہ یہاں سامان میں  شرکتِ ملک ضمنی ہے،عقدِشرکت  نقدی میں واقع ہوگی ، لہٰذا  سامان میں ضمنی  شرکتِ ملک قائم ہوجانے کے بعد نقدی میں شرکتِ عقدکرکے نفع کم یازیادہ مقررکرنے میں شرعاً کوئی خرابی نہیں نیز اس کاروبارمیں آپ کام بھی کررہے ہیں، اس لیے انویسٹمنٹ کم ہونے کے باوجودآپ کااپنے پارٹنرکے برابر نفع لینا شرعاً  جائزہوگا۔

   شرکت بالمال کے لیے مال نقدی کی صورت میں ہوناشرط ہے جیساکہ بدائع الصنائع میں ہے:’’أما الشرکة بالاموال فلها شروط، منها أن یکون راس المال من الأثمان المطلقة‘‘یعنی:شرکت بالمال کی کئی شرائط ہیں ، ان میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ راس المال ازقبیل ثمن ہو۔(بدائع الصنائع،ج06،ص59،مطبوعہ بيروت)

   ایک طرف سامان اور دوسری طرف رقم ہو تو شرکت  کاجائز طریقہ بیان کرتے ہوئے علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ولو كان من أحدهما دراهم، ومن الآخر عروض، فالحيلة في جوازه: أن يبيع صاحب العروض نصف عرضه بنصف دراهم صاحبه، ويتقابضا، ويخلطا جميعا حتى تصير الدراهم بينهما، والعروض بينهما، ثم يعقدان عليهما عقد الشركة فيجوز‘‘یعنی:اگر دونوں میں سے ایک کے پاس درہم ہوں اور دوسرے کے سامان ہو تو اس صورت میں شرکت کرنے کا جائز طریقہ یہ ہے کہ سامان والا اپنا نصف سامان دوسرے کے نصف درہموں کے عوض بیچ دے اور وہ دونوں بدلین پر قبضہ کرلیں  اور ان کو مخلوط کر دیں تا کہ درہم اور سامان دونوں کے درمیان مشترک ہوجائیں پھر وہ دونوں ان پر عقد شرکت کرلیں تو یہ جائز ہوجائے گا۔ (بدائع الصنائع،ج06،ص59،مطبوعہ بيروت)

   سامان کے ذریعے شرکتِ عقد کرنے کے لئے اس طریقے کو اختیار کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پہلے شرکتِ ملک قائم کرلی جائے جیسا کہ امام اہلسنت جدالممتار میں فرماتے ہیں:’’هذه الحيلة انما هو لتحصيل شركة الملك قبل شركة العقد‘‘یعنی:سامان کے ذریعے شرکت کرنے کے لئے یہ حیلہ اس لئے اختیار کیا جاتا ہے تاکہ شرکتِ عقد سے پہلے شرکتِ ملک حاصل ہوجائے۔(جد الممتار،ج05،ص428،مطبوعہ مكتبة المدينه كراچى)

   مذکورہ حل میں اصل شرکت نقدی میں واقع ہورہی ہے ، سامان میں شرکتِ ملک ضمنی ہےجیسا کہ عنایہ شرح ہدایہ میں ہے:”اذا باع نصف عرضہ بنصف دراھم صاحبہ ثم اشترکا لان الدراھم بھذا العقد صارت نصفین بینھما فیکون ذلک راس مالھما ثم یثبت حکم الشرکۃ فی العروض تبعا وقد یدخل فی العقدتبعامالایجوز ایرادالعقد علیہ  ‘‘یعنی: اگر نصف سامان کو نصف درہم کے بدلے فروخت کیا پھر شرکت کی تواس عقدمیں دراہم دونوں کے نصف ہوجائیں گے اوریہی درہم،  ان کا راس المال بنے گاپھر عروض میں شرکت کاحکم تبعاً  ہوگااور عقدمیں تبعاً وہ چیز داخل ہوجاتی ہے جس پر  اصالۃً عقدکرنا، جائزنہیں ہوتا۔(عنايه شرح هدايه،ج6،ص175،دار الفکر )

   فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’ولو كان بينهما تفاوت بان تكون قيمة عرض احدهما مائة وقيمة عرض صاحبه اربعمائة يبيع صاحب الاقل اربعة اخماس عرضه بخمس عرض الآ خر فصار المتاع كله اخماسا كذا فى الكافى، وكذلك اذا كان لاحدهما دراهم وللآخر ينبغی ان يبيع صاحب العروض نصف عروضه بنصف دراهم صاحبه ويتقابضان ثم يشتركان ‘‘ یعنی : اگر دونوں کے اموال میں تفاوت ہو اس طور پر کہ  ایک کے سامان کی قیمت سو ہے اور دوسرے کے سامان کی قیمت چار سو ہے تو کم سامان والا اپنے چار خمس دوسرے کے خمس کے بدلے بیچ دےتو اب کل مال کے پانچ حصے بن جائیں گےجیساکہ کافی میں ہے۔ یونہی جب ان دونوں میں سے ایک کے پاس درہم ہوں اور دوسرے کے پاس سامان ہوتو سامان والااپنے آدھے سامان کو اپنے شریک کے نصف  درھم کے بدلے فروخت کردے گااوردونوں  بدلین پر قبضہ کریں گے پھر شرکت کریں گے ۔(فتاوى عالمگيرى،ج02،ص307، مطبوعه بيروت)

   بہارشریعت میں ہے:’’شرکتِ مفاوضہ و عنان دونوں نقود(روپیہ،اشرفی )میں ہوسکتی ہیں یا ایسے پیسوں میں جن کا چلن ہو اور اگر چاندی سونے غیرمضروب ہوں (سکہ نہ ہوں )مگر ان سے لین دین کا رواج ہو تو اس میں بھی شرکت ہوسکتی ہے۔ اگر دونوں کے پاس روپے اشرفی نہ ہوں ، صرف سامان ہو اور شرکتِ مفاوضہ یا شرکتِ عنان کرنا چاہتے ہوں تو ہر ہوں تو ہر ایک اپنے سامان کے ایک حصے کو دوسرے کے سامان کے ایک حصے کے مقابل یا روپے کے بدلےبیچ ڈالے اس کے  بعد اس بیچے ہوئے سامان میں عقدِ شرکت کرلیں۔‘‘(بہار شريعت،ج02،ص496،497،  مكتبة المدينة, كراچى)

   کم سرمایہ ملانے والا بھی نفع میں برابری کے ساتھ شرکت کرسکتا ہے جبکہ نقصان ہر ایک کو اپنے سرمائے کے مطابق برداشت کرنا ہوگا جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ولو شرطا العمل عليهما جميعا صحت الشركة وان قل راس مال احدهما وكثر راس مال الآخر واشترطا الربح بينهما على السواء او على التفاضل فان الربح بينهما على الشرط والوضيعة ابدا على قدر رؤوس اموالهما‘‘ یعنی : اگر یہ شرط کی کہ دونوں پارٹنر مل کر کام کریں گے تو شرکت درست ہوگی اگرچہ ان میں  سے ایک کا سرمایہ کم اور دوسرے کا سرمایہ زیادہ ہو اور نفع کے متعلق یہ طے ہو کہ نفع دونوں کے درمیان برابر برابر یا کمی زیادتی کے ساتھ تقسیم کیا جائے گا، تو نفع کے متعلق اس شرط کا اعتبار کیا جائے گا جبکہ نقصان ہمیشہ دونوں کے سرمائے کے مطابق ہی ہوگا ۔(فتاوى عالمگيرى،ج02،ص320، مطبوعه بيروت)

   شرکتِ عقد میں نفع اور نقصان کے متعلق بہار شریعت میں ہے:”نفع میں کم و بیش کے ساتھ بھی شرکت ہوسکتی ہے مثلاً ایک کی ایک تہائی اور دوسرے کی دوتہائیاں اور نقصان جو کچھ ہوگاوہ راس المال کے حساب سے ہوگا، اس کے خلاف شرط کرنا باطل ہے۔“(بهار شريعت،ج02،ص491،  مكتبة المدينة, كراچى)

   بہار شریعت میں ہے:”یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں کے مال کم و بیش ہوں ، برابر نہ ہوں اور نفع برابر۔“(بهار شريعت،ج02،ص499،  مكتبة المدينة, كراچى)

   زیادہ کام کرنے والا بھی نفع میں برابری کے ساتھ شرکت کرسکتا ہے جیسا کہ بہار شریعت میں ہے:” اگر کام دونوں کریں گے مگر ایک زیادہ کام کرےگا دوسرا کم اور جو زیادہ کام کرےگا نفع میں اُس کا حصہ زیادہ قرار پایا یا برابر قرار پایا یہ بھی جائز ہے۔“(بهار شريعت،ج02،ص499،  مكتبة المدينة، كراچى)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم