کیا چلتے کاروبار میں شرکت کرسکتے ہیں؟

مجیب: مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ شَوَّالُ /ذوالقعدہ1442ھ جون2021

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا چلتے کاروبار میں شرکت کر سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    چلتے کاروبار میں شرکت کرنا ، جائز نہیں کیونکہ اس طریقۂ کار میں شرکت کی بنیادی شرائط نہیں پائی جاتیں۔ اگر پہلے سے کوئی کام چل رہا ہے اور اس چلتے کام میں شرکت کرنا چاہتے ہیں تو کسی ایک یا زائد آئٹم میں شرکت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے کرلیں اور ان کا الگ سے حساب کتاب رکھا جائے۔ اگر کل کاروبار میں دوسرے کو شریک کرنا ہے تو پھر پہلا کام سارا حساب کتاب کرنا ہوگا کہ کتنا مال ہے کتنا سرمایہ ہے اور اس کی مختلف صورتیں بنیں گی۔ ممکن ہے کاروبار میں رقم بالکل نہ ہو بلکہ صرف سامان ہو اور اس کے علاوہ بھی صورتیں بن سکتی ہیں۔ ساری کلوزنگ کرنے کے بعد پھر مستند مفتیانِ کرام سے رہنمائی لی جائے کہ نقدی کی یہ تفصیل ہے اور اس کے علاوہ چیزوں کی یہ تفصیل ہے۔ پھر اس کی روشنی میں شرعی رہنمائی کی جا سکتی ہے۔ اس تعلق سے دارُ الافتاء اہلسنّت کے تفصیلی فتاویٰ کا مطالعہ بھی کریں۔ نیز مدنی چینل کے ہفتہ وار پروگرام “ احکامِ تجارت “ میں بھی اس بات کو متعدد بار تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ چلتے کاروبار میں شرکت کیوں نہیں ہوسکتی اور اگر کرنی ہے تو کیا طریقہ اپنا یا جا سکتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم