شرکت پر کام کرنے کا جائز طریقہ!

مجیب:مولانا سرفراز مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Har-4273

تاریخ اجراء:07ربیع الاول1442ھ/25اکتوبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں اور میرا  بڑا بھائی موبائل کا کام شروع کر رہے ہیں۔ میری طرف سے چار لاکھ روپے ملائے جائیں گے اور میرے بھائی کی طرف سے چھے لاکھ۔کام ہم دونوں کریں گے اورنفع و نقصان مال کے حساب سے تقسیم کیا جائے گا۔کیا یہ شرکت درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سوال میں مذکور تفصیل کے مطابق  کہ نفع و نقصان مال کے حساب سے تقسیم  ہوگا، یہ شرکت ،جائز و درست ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ دونوں کے درمیان ہونے والی شرکت ،شرکت عنان ہے اورقوانین شرعیہ کے مطابق شرکت عنان  میں نفع برابر بھی ہو سکتا ہے،مال کے حساب سے بھی ہو سکتا ہے اور باہمی رضا مندی سے  زیادہ کام کرنے والے کے لیے زیادہ نفع  بھی مقرر کیا جا سکتا ہے،البتہ کام نہ کرنے والے کے لیے یا کم کام کرنے والے کے لیے زیادہ نفع مقرر کرنا، جائز نہیں ہوتا۔اس طرح آپ دونوں کے درمیان نفع مال کے حساب سے تقسیم ہونے کی شرط جائز و درست ہوئی۔

    نیزقوانین شرعیہ کے مطابق کاروبار میں اگر نقصان ہو،تو ضروری ہوتا ہے کہ وہ دونوں شریکوں  پر ان کے  راس المال کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے یعنی جس کا جتنا مال ہے ، اسی اعتبار سے اس پر نقصان ڈالا جائے گا۔آپ دونوں کے درمیان بھی چونکہ یہی معاہدہ ہو رہا ہے کہ نقصان مال کے حساب سے تقسیم  ہوگا،لہذا یہ شرکت درست ہے۔

    تنویر الابصار ودر مختار میں شرکت عنان کے متعلق ہے:’’و تصح عاماً و خاصاً و مطلقاً و موقتاً  و مع التفاضل فی المال دون الربح وعکسہ ‘‘اور شرکت عنان عام ،خاص،مطلق اور موقت اور مال میں کمی زیادتی نہ کہ نفع میں(کمی زیادتی) اور اس کے بر عکس(نفع میں کمی زیادتی نہ کہ مال میں  دونوں طرح) درست ہے۔

 (تنویر الابصار ودر مختار مع رد المحتار،ج6،ص478،مطبوعہ کوئٹہ)

    رد المحتار میں ہے:’’قولہ:(و عکسہ)ای:بان یتساوی المالان و یتفاضلا فی الربح، لکن ھذا مقید بان یشترطا الاکثر للعامل منھما ولاکثرھما عملاً،اما لو شرطاہ للقاعد او لاقلھما عملاً فلا یجوز کما فی البحر عن الزیلعی والکمال‘‘مصنف علیہ الرحمۃ کا قول:(اور اس کے برعکس)یعنی :بایں طور کہ دونوں کے مال برابر ہوں اور نفع میں کمی زیادتی ہو،لیکن یہ مقید ہے اس کے ساتھ کہ دونوں اکثر (نفع)ان میں سے کام کرنے والے کے لیے اور ان میں سے زیادہ کام کرنے والے کے لیے شرط کریں،بہرحال اگر زیادہ نفع بیٹھنے والے یا ان میں سے کم کام کرنے والے کے لیے شرط کیا ،تو جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ زیلعی اور کمال کے حوالہ سے بحر میں ہے۔

              (رد المحتار مع الدرالمختار ،ج6،ص478،مطبوعہ کوئٹہ)

    بہار شریعت میں ہے:’’اگر دونوں نے اس طرح شرکت کی کہ مال دونوں کا ہوگا،مگر کام فقط ایک ہی کرے گا اور نفع دونوں لیں گے اور نفع کی تقسیم مال کے حساب ہوگی یا برابر لیں گے یا کام کرنے والے کو زیادہ ملے گا تو جائز ہے اورا گر کام نہ کرنے والے کو زیادہ ملے گا، تو شرکت ناجائز ہے۔‘‘

 (بھا شریعت،ج2،ص499، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    رد المحتار میں نقصان کے متعلق ہے:’’و ما کان من وضیعۃ او تبعۃ فکذلک (ای علی قدر رؤوس اموالھما)ولا خلاف ان اشتراط الوضیعۃ بخلاف قدر راس المال باطل۔ملخصا‘‘اور (شرکت میں) جو کچھ نقصان اور تاوان ہوگا ،تو وہ اسی طرح ہوگا یعنی ان کے مالوں کی مقدار کے مطابق ہوگا اور کوئی اختلاف نہیں اس بات میں کہ راس المال کی مقدار کے برخلاف نقصان کی شرط کرنا باطل ہے۔

(رد المحتار مع الدرالمختار،ج6،ص469،مطبوعہ کوئٹہ)

    بہار شریعت میں ہے:’’نقصان جو کچھ ہوگا وہ راس المال کے حساب سے ہوگا، اس کے خلاف شرط کرنا باطل ہے، دونوں کے روپے برابر ، برابر ہیں اور شرط یہ کی کہ جو کچھ نقصان ہوگا اس کی تہائی فلاں کے ذمہ اور دو تہائیاں فلاں کے ذمہ ، یہ شرط باطل ہے اور اس صورت میں دونوں کے ذمہ نقصان برابر ہوگا۔‘‘

               (بھار شریعت،ج2،ص491،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم