مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-2782
تاریخ اجراء: 04ذوالحجۃالحرام1445
ھ/11جون2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
درج ذیل سوالات
پرشرعی رہنمائی فرمادیجیے:
(1) قبیلہ
عرینہ کے لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب پینے
کی کیوں اجازت دی،اس میں کیا مصلحت تھی؟
(2)نیز
پھر جب وہ
لوگ چرواہوں کو قتل کرکے اونٹنیاں لے کر بھاگ گئے،تو اس کی سزا میں
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کٹوادیئے
اور گرم سلائیوں اسے ان کی آنکھیں پھوڑی گئیں
،پھر اُنہیں تپتے میدان میں چھوڑ دیا گیا تو وہ
مرگئے،یہاں معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا یہ سب بدلے سے زیادہ سزا دینا نہیں
تھا ،کیا یہ ظلم نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
قبیلہ عرینہ کے بیمار لوگوں کو
اونٹ کا پیشاب پینے کاحکم
دینے کے علمائے کرام نے
چند جوابات بیان فرمائے ہیں :
(الف) ایک جواب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اس بات کا یقینی علم ہوگیا تھاکہ اُن لوگوں کاعلاج اونٹوں کے پیشاب میں ہے،لہذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت
عطافرمائی، جبکہ ہمارے پاس پیشاب
اور دیگر حرام چیزوں سے علاج ہوجانے کے یقینی
علم کاکوئی ذریعہ نہیں
،لہذا ہمارے لئے حکم شرعی یہی ہے کہ بطور
علاج یا کسی دوسرے
مقصد کے لیے کسی بھی
جانور کا پیشاب پینا
شرعاً جائز نہیں۔
(ب)ایک جواب یہ دیا گیا ہے کہ چونکہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے بذریعہ وحی اُن کا مرتد ہونا جان لیا
تھا،لہذا اُنہیں یہ علاج تجویز فرمایا، اور کافر کی
بیماری کی شفا ناپاک چیز میں ہو اور مؤمن کیلئے
اُس میں شفا نہ ہو،اس میں کوئی بعید بات نہیں ،ایسا ہوسکتا ہے۔
(2)جہاں تک قبیلہ عرینہ کے لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹنےاور گرم سلائیوں سے اُن کی
آنکھیں پھوڑنے والی بات ہے ،تو یہ ہرگز ظلم و زیادتی
اوربدلے سے زیادہ سزا دینا نہیں بلکہ جیسا جرم تھا اس کے
مطابق اسی طرح کی سزا تھی کیونکہ وہ لوگ مدینہ منورہ میں مہمان نوازی
سے لطف اٹھانے، احسانات پانے کے بعدمرتد ہوئے، اونٹ چوری کئے اور نہایت ظلم کرتے ہوئے مسلمان چرواہوں کے
ہاتھ پاؤ ں کاٹ دئیے تھے،
گرم سلائیوں سے اُن کی آنکھیں پھوڑی تھیں،ان
کی زبانوں اور آنکھوں میں کانٹے چبھوئے تھے ،یہاں تک کہ
وہ مرگئے ،اس لئے نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے بدلے میں
ان کے ساتھ یہی سلوک فرمایا ۔
قبیلہ
عرینہ والوں کو پیشاب پینے کا حکم دینے کی تاویل
بیان کرتے ہوئے ،علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ بحر الرائق میں لکھتے ہیں:” وتأويل ما روي في قصة العرنيين
أنه عليه السلام عرف شفاءهم فيه وحيا ولم
يوجد تيقن شفاء غيرهم؛ لأن المرجع فيه الأطباء وقولهم ليس بحجة قطعية ۔۔۔
ولأنه عليه السلام علم موتهم مرتدين وحيا ولا يبعد أن يكون شفاء الكافرين في نجس
دون المؤمنين بدليل قوله تعالى : {الخبيثٰت للخبيثين} “ ترجمہ:اور قصہ
عرینہ میں جو یہ بات
مروی ہے کہ (نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم نے ان کو بطور علاج اونٹوں کے پیشاب
پینے کا حکم فرمایا تو)اس کی تاویل یہ ہے کہ آپ علیہ
الصلاۃ والسلام نے پیشاب میں ان کی شفا ہونے کو وحی
کے ذریعے جان لیا تھا ،اور ان کے علاوہ کسی کی شفا کے متعلق ایسا یقین نہیں جانا جاسکتا،کیونکہ اس
معاملے میں طبیب لوگ مرجع ہوتے ہیں اور ان کا قول قطعی دلیل نہیں
۔۔۔(ایک جواب یہ بھی ہے کہ)یا پیشاب
پینے کا حکم اس لئے دیا تھا کہ حضور علیہ السلام نے ان کے مرتد
ہونے کی حالت میں مرنے کو وحی کے ذریعے جان لیا تھا
اور کوئی بعید نہیں کہ کافر کی بیماری کی
شفا ناپاک چیز میں ہو اور مؤمن کیلئے اس میں شفا نہ
ہو،اللہ تعالی کے اس فرمان کی وجہ سے کہ خبیث چیز خبیث
لوگوں کیلئے ہے۔(البحرا لرائق،ج 1،التداوی ببول مایؤکل لحمہ،ص
122، دار الكتاب الإسلامي)
قبیلہ عرینہ والوں سے متعلق صحیح مسلم میں ہے " عن انس، قال: «إنما سمل النبي صلى الله عليه وسلم أعين أولئك، لأنهم سملوا أعين
الرعاء» " ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ تعالی سے مروی ہے فرمایا:نبی
کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے عرینہ والوں
کی آنکھیں گرم سلائیوں
سے اسی لیے پھوڑیں کہ انہوں نے چرواہوں کی آنکھیں
گرم سلائیوں سے پھوڑی تھیں ۔(صحیح
مسلم،کتاب القسامۃ،باب حکم المحاربین والمرتدین،ج03، ص1298، دار
احیاء التراث العربی،بیروت)
مرقاۃ المفاتیح میں
ہے:’’إنما فعل بهم صلى الله عليه وسلم
هذا مع نهيه عن المثلة إما لأنهم فعلوا ذلك بالرعاة وإما لعظم جريمتهم فإنهم
ارتدوا وسفكوا الدماء وقطعوا الطريق وأخذوا الأموال، وللإمام أن يجمع بين العقوبات
في سياسته. قال النووي: اختلفوا في معنى الحديث فقيل كان هذا قبل نزول الحدود وآية
المحاربة مع قطع الطريق ۔۔۔ وإنما فعل ذلك صلى اللہ عليه وسلم قصاصا‘‘ ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ یہ
معاملہ مثلہ کی ممانعت کے باوجود یا تو اس لئے کیا کہ انہوں نے
چرواہوں کے ساتھ یہی معاملہ کیا تھا،اور یا پھر ان کے
جرموں کے سخت ہونے کی وجہ سے کیا
تھا ،کیونکہ وہ مرتد ہوئے،انہوں نے خون بہائے ،ڈاکہ ڈالا،اوراموال چھین
لئے اور حاکم اپنی مصلحت کے تحت تمام قصاصوں کو جمع
کرسکتا ہے۔امام نووی نے فرمایا کہ علماء نے اس حدیث کے معنی میں
اختلاف کیا،تو کہا گیا کہ یہ واقعہ حدود اور ڈاکہ ڈالنے کے ساتھ
محاربہ والی آیت کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے ۔۔۔(یا
پھر) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فعل بطور قصاص فرمایا
تھا۔(مرقاۃ المفاتیح،جلد6،باب قتل اھل
الردۃ،صفحہ2313،دار الفکر ،بیروت)
بحر الرائق میں ہے:’’ وقد أنكر بعضهم كون الواقع في قصتهم
كما روى ابن سعد في خبرهم أنهم قطعوا يد الراعي ورجله وغرزوا الشوك في لسانه وعينه
حتى مات فليس هذا بمثلة والمثلة ما كان
ابتداء على غير جزاء ‘‘ترجمہ:بعض نے
اس واقعے میں مثلہ کے ہونے کا انکار کیا ہے جیسا کہ ابن سعد نے
ان کے واقعے میں اس کو روایت
کیا ہے کہ ان لوگوں نے چرواہوں
کے ہاتھ اور پاؤں کاٹے تھے اور ان کی زبان اور آنکھوں میں
کاٹنے چبھوئے تھے،یہاں تک کہ وہ چرواہے مرگئے ،تو حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کا (بدلے میں )یہ فعل مُثلہ نہیں (بلکہ قصاص ہے)۔اورمثلہ وہ ہوتاہے کہ جوابتداء بغیرکسی قصاس کے ہو۔(بحر الرائق،جلد1،صفحہ121، دار الكتاب
الإسلامي)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم