مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Aqs-1093
تاریخ اجراء: 14شوال
المکرم 1438ھ 09 جولائی 2017
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں
علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری
والدہ کی عمر 57 سال ہوگئی ہے اور وہ شوگر کی سخت مریض ہیں۔ انہوں نے روزے نہیں رکھے ، تو کیا
اب فدیہ دے سکتے ہیں ؟
بِسْمِ
اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
آپ کی والدہ نے جو روزے چھوڑے
ہیں ، وہ شوگر کی بیماری کی وجہ سے چھوڑے ہیں
اور بیماری کی وجہ سے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء کرنا ہوتی
ہے ، تو آپ کی والدہ اگر گرمیوں میں روزے نہیں رکھ
سکتیں ، تو سردیوں میں رکھ لیں اور اگر اکٹھے نہیں
رکھ سکتیں ، تو علیحدہ علیحدہ رکھ لیں اور اگر بالکل ہی
کبھی بھی روزہ نہ رکھنے کی امید ہو ، تو اب کفارے کی
اجازت ہے ۔ پھر اگر فدیہ دینے کے بعد آپ کی والدہ
کی صحت روزہ رکھنے کے قابل ہوجائے ، تو فدیہ کا حکم ختم ہوجائے گا اور
آپ کی والدہ کو ان روزوں کی قضاء کرنا ہوگی اور ایک
روزے کا فدیہ ایک فقیر کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلانا یا
ایک صدقہ فطر کی مقدار رقم فقیر شرعی کو دینا ہے ۔
قرآن مجید میں ہے :{ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی
سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ وَعَلَی الَّذِیْنَ
یُطِیْقُوْنَہ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ} ’’ترجمۂ کنزالایمان: تو تم میں
جو کوئی بیمار یا سفر میں ہوتو اتنے روزے اور دنوں میں
اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک مسکین
کا کھانا۔
اس آیت کے تحت مفتی احمد
یار خان نعیمی علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں
:’’اس سے مراد وہ شخص ہے جس میں اب بھی روزہ رکھنے کی طاقت نہ
ہو اور آئندہ آنے کی امید نہ ہو ،جیسے بہت ضعیف
بوڑھا یامرض موت میں مبتلااور اگر کفارہ دینے کے بعد طاقت آگئی
تو پھر روزہ قضاء کرنا ہو گا ۔‘‘(کنز
الایمان مع تفسیر نور العرفان ،پارہ2 ، سورۃالبقرہ ، آیت184)
فتاویٰ رضویہ میں
ہے : ’’غرض یہ ہے کہ کفارہ اس وقت ہے کہ روزہ نہ گرمی میں رکھ
سکیں نہ جاڑے میں، نہ لگاتار نہ متفرق اور جس عذر کے سبب طاقت نہ ہو
اُس عذر کے جانے کی امید نہ ہو ۔‘‘ ( فتاویٰ
رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 547 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
ہدایہ مع بنایہ میں ہے : ’’(و لو قدر علی الصوم )بعد
ما ادی الفدیۃ ( یبطل حکم الفدائ) و یجب علیہ
القضائ‘‘ ترجمہ : اور اگر فدیہ دینے کے
بعد روزہ رکھنے پر قادر ہوگیا تو فدیہ کا حکم باطل ہو جائے گا اور اس
پر روزوں کی قضاء فرض ہے ۔(البنایہ
شرح ھدایہ ، کتاب الصوم ، فصل ومن کان مریضا فی رمضان الخ ، جلد
4 ، صفحہ 84 ، مطبوعہ کوئٹہ )
بہار شریعت میں ہے : ’’ہر روزہ
کے بدلے میں فدیہ یعنی دونوں وقت ایک مسکین
کو بھر پیٹ کھاناکھلانا اس پرواجب ہے یا ہر روزہ کے بدلے میں
صدقہ فطر کی مقدار مسکین کو دیدے ۔ ‘‘ ( بھار
شریعت ، جلد 1 ، صفحہ 1006 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟