مجیب:ابو محمد مفتی
علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-13407
تاریخ اجراء: 08ذی الحجۃ
الحرام1445 ھ/15جون 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں
کہ زید نے رات میں یہ نیت کی کہ میں کل نفل
روزہ رکھوں گا۔ ہاں! اگر سحری میں اٹھ گیا تو ٹھیک ورنہ روزے سے ہی رہوں
گا۔ پھر اتفاق ایسا ہوا کہ زید
کی سحری میں آنکھ ہی نہیں کھلی اور اُس نے بغیر
سحری ہی کے وہ نفل روزہ مکمل کیا۔ آپ سے معلوم یہ
کرنا ہے کہ کیا زید کا وہ نفل
روزہ درست واقع ہوا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں! پوچھی گئی صورت میں
زید کا وہ نفل روزہ درست واقع ہوا۔
مسئلہ کی
تفصیل یہ ہے کہ نفل روزے کی نیت رات سے لے کر ضحوہ
کبرٰی سے پہلے تک کی جاسکتی ہے۔ رات
ہی میں نیت کرلینے میں یہ بات بھی
ضروری ہے کہ اُس نیت سے رجوع کرنا نہ پایا جائے۔ پوچھی
گئی صورت میں زید نے رات ہی میں نفل روزے کی
نیت کرلی تھی پھر اس کے بعد کہیں بھی اس نیت
سے رجوع کرنا نہیں پایا گیا، لہذا زید کا وہ نفل روزہ
درست ادا ہوا۔ البتہ یہ ضرور یاد رہے کہ سحری کرنا سنت ہے روزے کے لیے
شرط نہیں، لہذا بغیر سحری کے بھی روزہ درست ادا ہوتا ہے۔
نفل روزے کی
نیت رات سے لے کر ضحوہ کبری سے پہلے تک کی جاسکتی
ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:”(فيصح) أداء (صوم رمضان والنذر
المعين والنفل بنية من الليل)۔۔( إلى الضحوة الكبرى)“یعنی رمضان،
نذرِ معین اور نفل روزوں کی
نیت رات سےلے کر ضحوہ کبری سے
پہلے تک کی جاسکتی ہے
۔(تنویر الابصار مع
الدر المختار، کتاب الصوم، ج 03، ص 393، مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطا)
رات میں روزے
کی نیت درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس نیت سے
رجوع کرنا نہ پایا جائے۔ جیسا کہ بحر الرائق، محیط
برہانی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے: ”والنظم للاول“اعلم أن النية من
الليل كافية في كل صوم بشرط عدم الرجوع عنها حتى لو نوى ليلا أن يصوم غدا ثم عزم
في الليل على الفطر لم يصبح صائما فلو أفطر لا شيء عليه إن لم يكن رمضان ، ولو مضى
عليه لا يجزئه ؛ لأن تلك النية انتقضت بالرجوع۔“ یعنی تم جان لو کہ ہر
روزے کی درست ادائیگی کے لیے رات میں کی جانے
والی وہی نیت معتبر ہوگی جس کے بعد رجوع نہ پایا جائے ۔ یہاں
تک کہ اگر کسی نے رات میں یہ نیت کی کہ وہ کل روزہ رکھے گا پھر رات
ہی میں یہ نیت
کرلی کہ روزہ نہیں
رکھے گا تو وہ صبح روزہ دار نہیں ہوگا پس اگر اس نے اگلے دن کچھ کھایا
پیا تو اس پر کچھ لازم نہ ہوگا اگر وہ رمضان کا روزہ نہ ہو تو ۔ اور اگر اس نے روزہ جاری رکھا تو وہ اسے کفایت
نہیں کرے گا کیونکہ نیت سے رجوع ہونے کے سبب وہ نیت
باقی نہ رہی۔ (بحر الرائق، کتاب الصوم، ج 02، ص 282، دار
الكتاب الإسلامي)
بہارِ شریعت میں ہے:” ادائے روزہ رمضان اور نذر
معین اور نفل کے روزوں کے لیے نیّت کا وقت غروب آفتاب سے ضحوہ
کبریٰ تک ہے، اس وقت میں جب نیّت کر لے، یہ روزے ہو
جائیں گے۔ ۔۔۔۔ ضحوہ کبریٰ
نیّت کا وقت نہیں، بلکہ اس سے پیشتر نیّت ہو جانا ضرور ہے
اور اگر خاص اس وقت یعنی جس وقت آفتاب خطِ نصف النہار شرعی پر
پہنچ گیا، نیّت کی تو روزہ نہ
ہوا۔۔۔۔۔رات میں نیّت کی پھر اس
کے بعد رات ہی میں کھایا پیا، تو نیّت جاتی
نہ رہی وہی پہلی کافی ہے پھر سے نیّت کرنا ضرور
نہیں ۔ “ (بہارِ شریعت، ج 01، ص 969-967،
مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)
روزے کے لیے سحری
کرنا سنت ہے۔ جیسا کہ تحفۃ الفقہاء اور فتاوٰی
شامی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”و النظم للاول“ إنما التسحر سنة في
حق الصائم ۔“یعنی روزہ دار کے حق میں سحری کرنا سنت ہے۔(تحفة
الفقهاء ، کتاب الصوم، ج 01،ص 365، دار
الكتب العلمية، بيروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟